دہلی کا قتلِ عام

1947ء تک دہلی کے مسلمان یہی سمجھتے رہے کہ 1857ء میں دہلی میں جو کچھ ہوا وہ دوبارہ کبھی نہ ہوگا، لیکن 1947ء کے قتلِ عام نے ثابت کردیا کہ ہندو حکومت انگریز کی حکومت سے زیادہ سفاک اور خون آشام تھی۔
3 ستمبر 1947ء تک دہلی کے نواحی دیہات میں فسادات شروع ہوچکے تھے اور جلد ہی دہلی شہر بھی ان کی لپیٹ میں آگیا، یعنی اب دہلی میں بھی مسلم قتلِ عام شروع ہوچکا تھا۔ گلی گلی، محلے محلے مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آتیں۔ قرول باغ میں مسلمانوں کے مکانوں پر نشان لگادیے گئے تھے جو حملے کی نشانی تھی، لیکن مکار ہندو ہمسائے دلاسہ دیتے رہے اور پاکستان کے مخالف کانگریسی مسلمان معمول کے مطابق ان پر اعتبار کرتے ہوئے باقی مسلمانوں کو بھی علاقہ چھوڑنے سے روکتے رہے، لیکن جب حملہ ہوا تو ہندو اور سکھوں نے کسی کو نہ چھوڑا۔ اب سوال مسلم لیگی یا کانگریسی کا نہیں تھا بلکہ اب سوال کلمہ گو ہونے کا تھا۔ اللہ کا نام لینے والے ہر فرد کو قتل کردیا گیا۔ کرفیو کے دوران میں ہندو بلوائی مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر قرول باغ کے رہنے والے مسلمانوں کو گولی کا نشانہ بناتے۔ قرول باغ برباد ہوگیا۔ جامعہ طیبہ کی لائبریری کی عمارت، مکتبۂ برہان اور مکتبۂ جامع کی لاکھوں کتابیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ علم و آگہی کا خزانہ طاغوتی طاقتوں نے جلا کر خاکستر کردیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بیشتر لوگ کانگریس کا دم بھرتے تھے لیکن انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ 5ستمبر 1947ء کے روز تقریباً پچاس مسلمان لڑکے میٹرک کا امتحان دینے قرول باغ میں آئے تو ان کی حاضری لے کر انہیں ایک علیحدہ کمرے میں بٹھا دیا گیا تاکہ انہیں قتل کرنے میں آسانی رہے۔ پرچہ شروع ہوتے ہی ہندوئوں اور سکھوں کا مسلح جتھہ ان پر ٹوٹ پڑا اور بھوکے درندوں کی طرح ان معصوم نوجوانوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے۔ صرف دو لڑکے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوسکے جن کے ذریعے خبر مسلمانوں تک پہنچی۔ ہر طرف مسلمان قتل کیے جارہے تھے، سامان لوٹا جارہا تھا، مکان جلائے جارہے تھے۔ جو تھوڑے بہت مسلمان بچ گئے انہیں ملٹری، ٹرکوں میں بھر کر لے گئی۔ کسی کو سامان اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ ہر طرف افراتفری کا سماں تھا، کسی کے بچے بچھڑ گئے تو کسی کا خاوند۔ مشکل سے ہی کسی کا خاندان پورا بچ سکا ہوگا، اور یوں قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہوگیا اور ان کے مکانوں پر شرنارتھی ہندو، سکھ قابض ہوگئے۔
سبزی منڈی متمول مسلمانوں کی بستی تھی۔ مارچ اپریل ہی سے یہ بستی فرقہ پرست ہندو اور سکھوں کی نظر میں آچکی تھی، لیکن یہاں کے مسلمان غافل نہ تھے۔ شرپسند جن سنگھی ہندو، سکھ خاکی وردیوں میں ملبوس ہوکر حملے کرتے رہے، لیکن دو دن تک مسلمان بھی کامیابی کے ساتھ اپنا دفاع کرتے رہے۔ یہ دیکھ کر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تین ہزار کی مسلح گورکھا فوج بھیج دی جنہوں نے پوری فوجی ہنرمندی کے ساتھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، حتیٰ کہ سبزی منڈی میں ایک بھی مسلمان باقی نہ بچا۔ مال و دولت، عزت و آبرو سب کچھ برباد ہوگیا۔ شام تک مسلمانوں کے سب مکانات ہندو، سکھوں کے قبضے میں آچکے تھے۔ مسلمان کی عزت لٹ چکی تھی۔ سبزی منڈی کے بعد پہاڑ گنج کی باری آئی۔ یہاں بھی محصور مسلمان دو دن تک ہندو، سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے رہے۔ آخر تیسرے دن حکومتِ ہند نے جدید ہتھیاروں سے لیس ہندو ملٹری بھیج دی تاکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی مہم تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔ ہر طرف گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا خون گلی کوچوں میں بہنے لگا۔ جب میدان صاف ہوگیا تو درندہ صفت لٹیرے ہندو، سکھ گھروں میں داخل ہوکر لوٹ مار کرنے لگے۔ بچی کھچی مسلمان عورتوں کا مال بھی گیا اور عزت بھی۔ اگر کان میں بالی نظر آتی تو کان ہی کاٹ دیتے۔ تلاشی لینے کے بہانے عورتوں کو ننگا کرکے چھوڑ جاتے۔ وہ کون سا ظلم تھا جو پہاڑ گنج کے مسلمانوں پر روا نہ رکھا گیا! پہاڑ گنج مسلمانوں کے وجود سے خالی ہوگیا اور ان کی جگہ ہندو، سکھ شرنارتھیوں نے لے لی۔
ولبھ بھائی پٹیل کے کردار کی ہلکی سی جھلک لیفٹیننٹ جنرل سرفرانسس ٹکر اپنی کتاب While memory serves.میں یوں دکھاتے ہیں:
’’ہندو اور سکھ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا جارہا تھا۔ مہاسبھا اور اس کے پالتو سیوک سنگھی دن رات مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔ دہلی میں پٹیل ببانگ دہل پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں ایک بھی مسلمان موجود ہے۔‘‘
(’’چشم بیدار‘‘ لاہور۔ اگست2016ء)

شیخِ مکتب سے

اس نظم میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ مدرسے میں استاد طلبہ کی روح کو سنوارنے اور سیرت کا صحیح سانچا تیار کرنے کا ذمہ دار ہے۔ نظم میں خطاب خود استاد سے ہے۔

شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
نکتہ دل پذیر تیرے لیے
کہہ گیا ہے حکیم قاآنی
’’پیش خورشید برمکش دیوار
خواہی ار صحت خانہ نورانی‘‘

قاآنی: ایران کا مشہور شاعر جسے پرانی ایرانی شاعری کا خاتم کہا جاتا ہے۔
-1اے مدرسے کے استاد! تُو معمار ہے۔ تیرا کام یہ ہے کہ انسانی روح کی عمارتیں صحیح اُصول پر بنائے۔ یعنی طلبہ کی سیرتیں اعلیٰ پیمانے پر تعمیر کرے۔
-2تیرے لیے ایران کا مشہور شاعر حکیم قاآنی ایک دل نشین نکتہ بیان کر گیا ہے۔
-3 وہ نکتہ کیا ہے؟ یہ کہ اگر تُو اپنے گھر کا صحن روشن رکھنا چاہتا ہے تو ایسی دیوار نہ بنا جو سورج کی روشنی کو روک دے۔
مراد یہ ہے کہ مدرسے کے استاد کو ایسی تعلیم نہ دینی چاہیے جس سے طلبہ کی روحوں میں تاریکی پیدا ہو اور وہ فطرت کے سورج کی روشنی سے محروم ہوجائیں۔