جرائم کی گرم بازاری …کیوں؟

فرائیڈے اسپیشل کے سابق مدیر عبدالکریم عابد(مرحوم) درج بالا عنوان سے معاشرتی، سماجی اور نظریاتی موضوعات و مسائل پر فکر انگیز اداریے تحریر کرتے تھے۔ ان فکری مباحث کو سادہ اور دلکش انداز میں تحریر کرنا عابد صاحب کا خاص اسلوب تھا۔ آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے ان تحریروں کو ملاحظہ کیجیے جو آج بھی زندہ ہیں۔
اسلام آباد میں ادارۂ تحفظ حقوق انسانی کی جانب سے بتایا گیا کہ 98ء میں پنجاب میں زنا بالجبر کے 880 واقعات ہوئے، 370واقعات میں خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی، زیادتی کا شکار 55فیصد کم سن بچیاں تھیں۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکال کر امریکہ برآمد کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بھارت کی اطلاع ہے کہ گردہ چور گروہوں کا مافیا قابو مین نہیں آرہا ہے۔ یہ مختلف حیلے بہانوں سے آپریشن کے دوران گردے چوری کرلیتے ہیں۔ یورپ کی ایک خبر ہے کہ مُردہ بچوں کے دل اور دوسرے اعضاکا بھی کاروبار ہورہا ہے۔
جرائم کی یہ عالمی صورت حال روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے کسی شعبے میں اخلاقی روح کارفرما نہیں ہے۔ مغرب میں جو اخلاق ہے وہ رسمی رواجی اور کاروباری ہے۔ یہ مصنوعی اخلاق بداخلاقی کے طوفان کو نہیں روک سکتا۔ اور مشرق کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس رسمی، رواجی، کاروباری اخلاق بھی نہیں ہے۔ ظلم اور جہالت کے ماحول نے ضمیر پر موت طاری کررکھی ہے۔ شہروں کے مقابلے میں دیہات کو اخلاقی طور پر بہتر خیال کیا جاتا تھا۔ منشی پریم چند کے افسانوں اور ناولوں میں دیہات کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اس میں اخلاقی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ لیکن دیہات کا یہ وجود عملاً کہیں نہیں ملتا، دیہات کی دنیا ظلم و جہالت کی دنیا ہے، اس میں بے بس اور بے کس لوگ ہیں، ان کے لیے اخلاقیات بے معنی چیز ہے اور مذہب جھاڑ پھونک کا نام ہے۔ شہروں میں متوسط طبقے کی ایک اخلاقیات تھی اور اب بھی ہے، لیکن یہ تیزی سے مٹ رہی ہے کیونکہ جو فلسفۂ زندگی لوگوں کے ذہن نشین کردیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی تم کو دھکا دے کر آگے نکل جائے، تم اپنے سامنے آنے والوں کو دھکا دے کر آگے نکل جائو۔ اور اس فلسفہ ٔ زیست پر ہی عمل ہورہا ہے۔ اس کو سائنس کی دنیا میں تنازع للبقا کا نام دیا گیا ہے اور اسے زندگی کی حقیقت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مغرب کے اس فلسفے کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی میں جس کو کمزور دیکھو اس کو آگے بڑھانے اور اس کی مدد کرنے کی کوشش کرو، اپنی ذات پر دوسروں کی ذات کو ترجیح دو اور اس پر ایمان رکھو کہ اِس دنیا کا مفاد عارضی ہے، مستقل مفاد اگلے جہاں میں ہے، زندگی کا ارتقاء محبت اور تعاون کا نتیجہ ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ محبت کے نتیجے میں ہی پلتا بڑھتا ہے۔ دنیا کے کاروبار آپس کے تنازعے سے زیادہ آپس کے تعاون کی وجہ سے چلتے ہیں، اور معاشرہ جما جڑا رہتا ہے تو محبت و اخوت کے سبب۔ اس لیے محبت کرو، تعاون کرو، بھائی چارہ رکھو اور یہ سمجھو کہ بنی آدم ایک جسم کی مانند ہیں، کسی ایک کی تکلیف ساری انسانیت کی تکلیف ہے۔ لیکن مغرب کے لادینی فلسفوں نے ذہنوں کو اُلٹ دیا۔ اب زندگی کا راز چھینا جھپٹی میں ہے۔ قناعت کی جگہ حرص و ہوس نے لے رکھی ہے۔ اس معرکہ میں جو آگے نکل جاتے ہیں وہ طبقہ خواص کہلاتے ہیں، جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ عوام ہوتے ہیں، اور محرومیوں کا احساس ان میں ازالۂ محرومی کے لیے قانون اور اخلاق کی حدود کو پھلانگنے کی ذہنیت پیدا کرتا ہے، اس ذہنیت کی وجہ سے ہی جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اس طبقۂ خواص کے جرائم چھپے رہتے ہیں، گرفت میں نہیں آتے اِلّا یہ کہ ایک انقلاب عذابِِ الٰہی کی صورت میں ان پر وارد ہو۔ لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے، کیونکہ عوام اُوپر والوں کے جرائم کو ان کا حق سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتی اور زندگی کے سخت حالات انہیں بھی اخلاق شکنی اور قانون شکنی کی طرف لے جاتے ہیں، اور نفس پرستی کی ذہنیت میں ضمیر کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب کے معاشرے جرائم کے معاشرے بنتے جارہے ہیں اور یہ کیفیت مسلسل اضافہ پذیر ہے۔
مولانا مودودیؒ نے 1924ء میں رسالہ ’’ہمایوں‘‘ میں اجتماعی اخلاقیات پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا، اس میں مغرب کے فلسفیوں کے اخلاقی نظریات کا خلاصہ بیان کیا گیا تھا اور اس پر تبصرہ بھی تھا، اس میں مولانا، افلاطون کے اس نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں’’کوئی جماعت اخلاقی پستی سے نہیں نکل سکتی تاوقتیکہ نظامِ سیاست ایک بلند معیار پر قائم نہ ہو‘‘۔ وہ ارسطو کے اس نظریے کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’’بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے ایسا نظامِ حکومت ضروری ہے جو بہترین فضائلِ اخلاق پر قائم ہو‘‘۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ہمیشہ وہ لوگ جو اخلاق کی تکمیل چاہتے ہیں اپنا سب سے پہلا فرض یہ سمجھتے ہیں کہ پوری توجہ دنیا سے ظالمانہ نظاموں کے مٹانے پر صرف کریں۔
یہ ظالمانہ نظام آسمان سے نہیں اُترے، یہ مغرب کی اس مادّہ پرست دنیا کی پیداوار ہیں جہاں نمائشی اخلاق ہے مگر حقیقی اخلاق کا فقدان ہے، اس ماحول میں مذہب بھی نمائشی ہوگیا ہے اور حقیقی مذہب کم ہی نظر آتا ہے۔ اس ظالمانہ نظام کی جگہ ایک اخلاقیات کا تابع نظام ہی شریف انسان کو اور معاشروں کو جرائم کے زیراثر لانے سے بچا سکتا ہے، ورنہ معاشرے کا ہر فرد مجرم ہوجائے گا، کوئی چھوٹا چور، کوئی بڑا چور۔ اس لیے آئیے، اُس نظام کی جدوجہد کریں جو اخلاقی ماحول مہیا کرتا ہے اور جس میں انسان کے لیے اخلاق پر کاربند رہنا ممکن ہے، اور جو اخلاقی انحطاط اور پستی کے بجائے انسان کے اخلاقی ارتقاء کا ذریعہ ہو۔ لیکن اس نظام کی جدوجہد کے لیے وہ قیادت درکار ہے جس کی نوعیت اخلاقی ہو، اور ایسے کارکن ہی یہ جدوجہد کامیاب کرسکتے ہیں جو رسمی رواجی اخلاق کی سطح سے اُوپر اُٹھ کر حقیقی اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ان کی اخلاقی عظمت کے آگے لوگوں کے سر خودبخود جھک جائیں۔
(12مارچ1999ء)