قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مہربانی و احسان (کرنے) سے محروم کیا گیا وہ نیکی سے محروم کیا گیا۔ (مسلم)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ مہربان ہے، وہ مہربانی کو پسند فرماتا ہے اور مہربانی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں کرتا اور نہ ہی کسی اور چیز پر۔ (مسلم)
احکامِ معاشرت کے سلسلے میں اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ اس نے برہنگی کا استیصال کیا اور مرد اور عورتوں کے لیے ستر کے حدود مقرر کردیے، اس معاملے میں عرب جاہلیت کا جوحال تھا، آج کل کی مہذب ترین قوموں کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف ننگے ہوجاتے تھے۔ غسل اور قضائے حاجت میں پردہ کرنا ان کے نزدیک غیر ضروری تھا۔ کعبے کا طواف بالکل برہنہ ہوکر کیا جاتا تھا اور اسے ایک اچھی عبادت سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں تک طواف کے وقت برہنہ ہوجاتی تھیں۔ ان کی عورتوں کا لباس ایسا تھا جس میں سینے کا کچھ حصہ کھلا رہتا تھا، اور بازو اور پنڈلیوں کے بھی بعض حصے کھل جاتے تھے۔ بالکل یہی کیفیت آج یورپ، امریکہ اور جاپان کی بھی ہے، اور مشرقی ممالک میں بھی کوئی دوسرا نظامِ معاشرت ایسا نہیں ہے جس میں کشف و ستر کے حدود باقاعدہ مقرر کیے گئے ہوں۔ اِسلام نے اس باب میں انسان کو تہذیب کا پہلا سبق سکھایا۔ اس نے بتایا کہ:
’’اے اولادِ آدم! اللہ نے تم پر لباس اسی لیے اتارا ہے کہ تمہارے جسموں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے موجب زینت ہو۔‘‘ (الاعراف 7:26)
اس آیت کی رُو سے جسم ڈھانکنے کو ہر مرد و عورت کے لیے فرض کردیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت احکام دیے کہ کوئی شخص کسی کے سامنے برہنہ نہ ہو:
’’کوئی مرد کسی مرد کو، اور کوئی عورت کسی عورت کو برہنہ نہ دیکھے۔‘‘ (مسلم، باب تحریم النظر الی العورات)
’’خدا کی قسم! میں آسمان سے پھینکا جائوں اور میرے دو ٹکڑے ہوجائیں، یہ میرے لیے زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کسی کے پوشیدہ مقام کو دیکھوں، یا کوئی میرے پوشیدہ مقام کو دیکھے۔‘‘ (المبسوط،کتاب الاستحسان)
’’خبردار کبھی برہنہ نہ رہو، کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہے جو تم سے کبھی جدا نہیں ہوتا، سوائے قضائے حاجت اور مباشرت کے وقت۔ لہٰذا تم ان سے شرم کرو اور ان کی عزت کا لحاظ رکھو۔‘‘ (ترمذی، باب ماجاء فی الاستتار)
’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو اُس وقت بھی ستر ڈھانکے اور بالکل گدھوں کی طرح ننگا نہ ہوجائے۔‘‘ (ابن ماجہ، باب التستر عندالجماع)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ان کا چرواہا جنگل میں ننگا لیٹا ہے۔ آپؐ نے اسی وقت اسے معزول کردیا اور فرمایا: لا یعمل لنا من الاحیاء لہ (جو شخص بے شرم ہے وہ ہمارے کسی کام کا نہیں)۔
مردوں کے لیے ستر کے حدود: ان احکام کے ساتھ عورتوں اور مردوں کے لیے جسم ڈھانکنے کے حدود بھی الگ الگ مقرر کیے گئے۔ اصطلاحِ شرعی میں جسم کے اُس حصے کو ستر کہتے ہیں، جس کو ڈھانکنا فرض ہے۔ مردوں کے لیے ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ’ستر‘ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کو نہ کسی کے سامنے کھولیں اور نہ کسی دوسرے شخص کے اس حصے پر نظر ڈالیں۔
جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ چھپانے کے لائق ہے اور جو کچھ ناف سے نیچے ہے وہ چھپانے کے لائق ہے۔ (دارِ قطنی)
مرد کے لیے ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپانے کے لائق ہے۔ (مبسوط)
اپنی ران کو کسی کے سامنے نہ کھول، اور نہ کسی زندہ شخص یا مُردہ شخص کی ران پر نظر ڈال۔ (تفسیر کبیر، آیۃ قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔النور24:30)
یہ حکم عام ہے جس سے بیویوں کے سوا اور کوئی مستثنیٰ نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
اپنے ستر کی حفاظت کرو بجز اپنی بیویوں کے، اور اُن لونڈیوں کے، جو تمہارے تصرف میں ہوں۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد سوم، ص37)
عورتوں کے لیے ستر کے حدود:
عورتوں کے لیے ستر کے حدود اس سے زیادہ وسیع رکھے گئے ہیں۔ ان کو حکم دیا گیا کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کو تمام لوگوں سے چھپائیں۔ اس حکم میں باپ، بھائی اور تمام رشتہ دار مرد شامل ہیں اور شوہر کے سوا کوئی مرد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم ِآخر پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے۔ یہ کہہ کر آپؐ نے اپنی کلائی کے نصف حصے پر ہاتھ رکھا۔(ابن جریر)
جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے سوائے چہرہ اور کلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے۔ (ابو دائود)
(تفہیم القرآن ، جلد سوم)