وزیراعظم کا دورۂ ترکی،حکومتی صفوں میں الجھاؤ اور عدم یکسوئی

چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ، پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدلیہ کا عدم اطمینان کا اظہار، اور تحریک انصاف کی حکومت اور جماعتی صفوں میں عدم یکسوئی اہم موضوعات ہیں۔ ان پر گفتگو بھی ہوگی۔ لیکن ابتدا وزیراعظم کے دورۂ ترکی اور حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے کرتے ہیں۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین معیشت کے تمام شعبوں اور دفاع و دفاعی پیداوار کے شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید توسیع دینے کے معاملات طے ہوگئے۔ منی لانڈرنگ اور وائٹ کالر کرائمز کی روک تھام کے لیے قانونی تعاون کے معاہدے کو بھی جلد ہی حتمی شکل دی جائے گی۔ آئندہ ماہ ابوظہبی میں پاکستان اور امارات کے وزارتی کمیشن کا اجلاس ہوگا۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو مالی بحران سے نکلنے کے لیے مجموعی طور پر 6.2 ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے جس میں 3 ارب ڈالر کیش اور 3.2 ارب ڈالر کا تیل ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر فراہم کیا جائے گا، جس کے لیے شرائط طے کی جاچکی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے غیر ملکی دوروں میں سعودی عرب اور چین کے بعد ترکی کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس دورے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان، پاکستان اور ترکی کا سربراہ اجلاس استنبول میں ہوگا جس میں اس خطے میں امن کے قیام کے لیے اہم پیش رفت متوقع ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پر وزیراعظم نے ترکی کا 2 روزہ سرکاری دورہ کیا۔ اعلیٰ سطحی وفد بھی وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ تھا۔ وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر کے درمیان ون آن ون ملاقات اور دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے۔ بات چیت میں دوطرفہ امور، خطے اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان رہائشی منصوبوں میں ترکی کی کمپنیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور ترکی نے پانچ سال کے لیے مشترکہ اقتصادی منصوبے بنانے، دو طرفہ تعلقات اور معیشت سمیت تمام شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا۔ عمران خان کی ترک حکام سے مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی۔ ترکی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کا حامی رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر زور دیتے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دورے کے موقع پر مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے اسے مشترکہ اعلامیے کا حصہ بنایا گیا۔ اسلام کا تشخص خراب کرنے والوں کے خلاف مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ نجی ملیشیا بھی گفتگو کا موضوع رہی۔ دونوں ممالک کی طرف سے کشمیر اور افغانستان کے مسئلے کے جلد پُرامن حل کے لیے مشترکہ کاوشیں جاری رکھنے کا عہد کیا گیا۔ افغان امن عمل کے لیے پاکستان، امریکہ، چین، روس، ایران، ترکی اور افغانستان کی کاوشیں کامیاب ہونی چاہئیں۔ افغان امن عمل کے لیے پاکستان، افغانستان، ترکی گروپ کا اجلاس استنبول میں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے رجب طیب اردوان سے افغان معاملے پر بھی بات چیت کی ہے۔
افغان مسئلے کے حل میں سب سے بڑی پیش رفت امریکہ کے رویّے میں تبدیلی ہے۔ امریکہ کبھی طالبان کا نام سننے پر تیار نہیں تھا، اب وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گیا ہے، جس کے لیے پاکستان نے پُل کا کردار ادا کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران امریکہ نے افغانستان سے اپنی آدھی فوج نکالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ چند دن بعد سعودی عرب میں بھی امریکہ طالبان مذاکرات ہورہے ہیں، اس میں مزید پیش رفت کی توقعات ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان عبوری حکومت کا حصہ بننے پر آمادہ ہوجائیں۔
پاکستان ترکی سفارتی تعلقات کی تاریخ میں کئی مشترکات ہیں۔ دونوں ملکوں کی تاریخ جمہوریت اور آمریت کے زیروبم لیے ہوئے ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترکی کو جمہوری ادوار میں بہترین قیادتیں میسر آتی رہیں، جو اس ملک کو ترقی و خوشحالی کے عروج پر لے گئیں۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے معیشت کی مضبوطی اولین شرط ہے، اس میں سب سے بڑا کردار پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاری ہے۔ کم و بیش دو دہائیوں سے پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہے اور توانائی بحران بڑھ جانے سے مقامی کاروباری طبقے میں کاروبار سمیٹ کر بیرونی ممالک جانے کی سوچ پیدا ہوئی۔ اگرچہ حکومت سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن اعتماد سازی کے اقدامات نظر نہیں آرہے۔
قومی احتساب بیورو نیب نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے خلاف تحقیقات بند کردی ہیں۔ نیب نے تفتیش بند کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جن 28 پلاٹوں کی خریداری کا معاملہ تھا وہ چودھری برادران کے ملازم کے تھے۔ نیب لاہور کی سفارش پر چیئرمین نیب جاوید اقبال نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے خلاف تحقیقات بند کردیں، جس کے بعد نیب لاہور نے احتساب عدالت میں دونوں اعلیٰ شخصیات کے خلاف تحقیقات بند کرنے کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کردیا۔ نیب نے بتایا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے خلاف ایل ڈی اے سٹی میں پلاٹوں کا کیس چل رہا تھا، چودھری پرویزالٰہی پر ایل ڈی اے سٹی میں 28 پلاٹوں کی غیر قانونی فروخت کی تحقیقات چل رہی تھیں، جب کہ چودھری شجاعت حسین سے بھی ان 28 پلاٹوں سے متعلق تحقیقات کی گئی۔ نیب کے مطابق تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ پلاٹ چودھری برادران کے ملازم مرزا اسلم نے خریدے، اور خریداری کے کاغذات میں چودھری برادران کے گھر کا راوی روڈ کا پتا معاہدہ بیع میں استعمال کیا۔ ریفرنس کے مطابق نیب کو چودھری پرویزالٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے خلاف کوئی دستاویز یا زبانی شواہد نہیں ملے۔ نیب نے سورس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات بند کردی ہے۔ لیکن اصل امتیاز تو یہ برتا گیا کہ ان کے ملازم سے بھی نہیں پوچھا گیا کہ اس کی جائداد آمدن سے زائد کیوں ہے؟
آئندہ ہفتے کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں بھی تبدیلی آچکی ہوگی، جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت مکمل ہوجانے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے، وہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں۔ انہیں گیارہ ماہ تک چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملے گا۔ ان کے بعد جسٹس گلزار خان عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس ہوں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سیاسی مقدمات کی اہمیت کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ وہ عدالت میں زیر التوا مقدمات نمٹانے پر توجہ دینا چاہیں گے۔ وزیراعظم نے بار بار کہا تھا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا، لیکن چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل این آر او کیس نمٹا کر پرویزمشرف، آصف علی زرداری، ملک قیوم اور دیگر کو این آر او دے گئے ہیں۔ عدالت نے این آر او کے خلاف درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹا دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آصف زرداری، پرویزمشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیل آچکی ہے اور اب قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ فیروز شاہ گیلانی کی درخواست میں پرویزمشرف اور آصف علی زرداری کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ این آر او کے ذریعے کرپشن کیسز ختم کیے گئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ لوٹے گئے پیسوں کو وصول کیا جائے۔ چیف جسٹس نے درخواست نمٹا دی جس کا براہِ راست فائدہ آصف علی زرداری اور این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کو پہنچا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس وقت جعلی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ زیر التوا ہے جس میں پیپلزپارٹی کی قیادت پر براہِ راست دباؤ ہے۔ آصف زرداری نے زرداری گروپ اور زرداری خاندان سے متعلق جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کردیا ہے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ، دستاویزات، عینی شاہدین کے بیانات کی مکمل رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے، اور آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اپنا جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور اس کا مقصد سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ سپریم کورٹ میں تبدیلی ریلیف دینے کا باعث بن سکتی ہے۔
ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہوا کہ سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے کمشنر طاہر محمود وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بیان دیا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد طاہر محمود فرار ہوگئے ہیں، جب کہ طاہر محمود سالانہ چھٹیوں پر اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔ وزارتِ خزانہ نے طاہر محمود کی 12 دن کی چھٹی منظور کی تھی جو کہ 24 دسمبر سے 4 جنوری تک تھی۔ وفاقی حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی سفارش پر طاہر محمود کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ وزیر اطلاعات نے کن اطلاعات پر یہ بیان دیا کہ وہ فرار ہوگئے ہیں؟ ان کے بیان کے بعد وزارتِ خزانہ خاموش کیوں رہی؟ اس نے کیوں نہیں بتایا کہ طاہر محمود چھٹی لے کر گئے ہیں؟ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسی عدم یکسوئی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت ایک اور اہم مسئلے میں الجھ کر رہ گئی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ تو لگا لیا اب عمل کیسے کیا جائے؟ اس معاملے پر حکومت میں بہت کھینچا تانی ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ وزےر خارجہ شاہ محمود قریشی، جہانگےر خان ترین اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اراکےن مےں ٹھن چکی ہے کہ جنوبی پنجاب خودمختار سیکرٹریٹ کس شہر میں بنے گا۔ یہ سب رہنما سیکرٹریٹ اپنے اپنے علاقوں ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں بنوانے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔ جہانگیر ترین سیکرٹریٹ لودھراں میں بنوانا چاہتے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سیکرٹریٹ ملتان میں بنانے کے خواہاں ہیں، جبکہ جنوبی پنجاب محاذ کے اراکین کی تجویز ہے کہ سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہونا چاہیے۔
ایک نئی مشکل سابق حکومتی ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم نے پیدا کررکھی ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم کے مشیر رزاق داؤد نے وزیراعظم عمران خان کی دورۂ چین کے دوران چینی کمپنی گیزوبا کے حکام سے ملاقات کرائی جو اُن کی دورے میں کسی بھی نجی کمپنی سے واحد ملاقات تھی۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت میں رہ کر اہم ٹھیکے لینا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ حکومتی عہدے کے ذریعے جیبیں گرم کرنا کرپشن ہے۔ فرخ سلےم ملک کے ایک بڑے اشاعتی ادارے سے وابستہ خاندان کے داماد ہیں، تاہم ان کی شناخت ایک تجزیہ کار کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ گےزوبا واحد نجی کمپنی تھی جس سے وزیراعظم عمران خان ملے، اسی لیے مشیر تجارت کی کمپنی کو فائدے ملے ہیں۔ ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ملکی معیشت قرضوں پر چلائی جارہی ہے۔ متحدہ عرب امارات سے 2.8 فیصد شرح سود پر قرض ملا، سعودی عرب سے بھی 3 فیصد سے زیادہ شرح سود پر قرض ملا ہے، گردشی قرضہ ماضی کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، غیریقینی صورت حال میں کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ روپے کی قدر کی حکومتی پالیسی کے نتائج نہیں ملے، بلکہ مہنگائی دوگنا بڑھ چکی ہے۔


وزیراعظم عمران خان کی ترکی کے دورے میں اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ترک وزیراعظم کے وفد کے ساتھ ملاقات کی جو تصویر سامنے آئی ہے اس نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے، کہ ملاقات کے وقت فائلیں قدموں میں رکھی ہوئی ہیں، وزیراعظم اور ان کے مشیر زلفی بخاری ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے ہیں، جبکہ پاکستانی وفد کا ایک رکن اپنے فون پر مصروف ہے۔ ایسی اعلیٰ سطحی ملاقات میں کون ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھتا ہے، یا ٹانگیں پھیلا کر ریلیکس کرتا ہے؟ موبائل فون کا استعمال تو ایسی ملاقاتوں میں آداب کے منافی ہی نہیں بلکہ ایک بے ہودہ عمل ہے، اور یہاں ایک غریب ملک کے منجھے ہوئے سیاست دان اور سفارتی عملہ قرونِ وسطیٰ کی کسی منہ زور طاقت کے کرتا دھرتا جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ترک وفد کے تمام ارکان مکمل طور پر سفارتی آداب اور رکھ رکھائو کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ ملک کی خاطر کتنی توجہ سے مذاکرات کررہے ہیں۔ ترک حکمران جماعت پچھلے اٹھارہ سال سے کامیابی سے ملک چلا رہی ہے اور پچھلی دو دہائیوں کی اقتصادی ترقی نے انھیں بین الاقوامی سطح پر تکریم بھی دلوا دی ہے، لیکن اس سب کے باوجود سفارتی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا نہیں بھولتے، جبکہ دوسری طرف ہمارے وزرا اور سفارت کار ہیں جنھیں بیٹھنے کا ہنر معلوم ہے، نہ آدابِ گفتگو۔