زمینی خدا بننے کی قدیم فرعونی خواہش جدید مغربی سائنس کا اصل بیانیہ ہے
’’لامحدود مسرت اور لافانی زندگی کی جستجو میں انسان زمین پر خدا بننے کی تگ ودو کررہا ہے، محض اس لیے نہیں کہ یہ لافانی صفات ہیں، بلکہ یہ بڑھاپے کے عذاب اور موت کی شکست کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے حیاتیاتی وجودکا مالکِ کُل بن جائے۔ انسان کی یہ کامل خودمختاری تین واضح طریقوں سے اَپ گریڈ کی جاسکے گی: بائیولوجیکل انجینئرنگ، سائی بورگ انجینئرنگ، اور نان آرگینک انجینئرنگ۔ چار ارب برسوں سے فطرت کا انتخاب ہمارے اجسام میں ارتقائی تبدیلیاں لارہا ہے، ہم امیبا سے رینگنے والے جانوروں تک، اور اب انسانوں تک پہنچے ہیں۔ لہٰذا یہ باور کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ بات انسان پر ختم ہوجائے۔ کون جانتا ہے کہ ڈی این اے، ہارمون سسٹم، اور دماغ کے سانچے میں تبدیلیوں کا کیا نتیجہ نکلے؟ بائیوانجینئرنگ اب صبر کے ساتھ فطرت کے چناؤ کا انتظار نہیں کرسکتی۔ بائیوانجینئرز انسانی جینیاتی کوڈ کو ازسرنو لکھنے کی تیاری کررہے ہیں۔ انسانی دماغ کی ازسرِنو وائرنگ کی تیاری کررہے ہیں… جس کے بعد انسان قدیم خداؤں کی ضرورت ختم کردے گا، اور زمین کا خدا بن جائے گا، اور پھر وہ مزید انسان نہیں رہے گا۔‘‘
(Homo Deus a history of tomorrow by Yuval Noah Harari Chapter: The gods of planet earth)
آنے والی ممکنہ تاریخ میں سائنس پرست انسان کا (مبینہ) نیا ایجنڈا کیا ہے؟ آج کل کے اسرائیلی ’فرانسس فوکویاما‘ ماہر تاریخ نوح ہراری نے مغربی دانش کی تخیلاتی منظرکشی کردی ہے۔ وہ دیگر ماہرینِ حیاتیات اور سائنس پرستوں کی جانب سے چیدہ چیدہ تاثرات بھی سامنے لائے ہیں، مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی تعریفی تبصرے کیے ہیں۔ پروفیسر ہراری نے ہومو دئیوس(Homo Deus) میں جس طرح سب کے خیالات کو جرأت اظہار عطا کی ہے، وہ کہیں اور ملنا فی الحال محال ہے۔ ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ٹیلی گراف، فنانشل ٹائمز… غرض سرمایہ دار دنیا پروفیسر ہراری کی ’ذہانت‘ اور ’منطقیت‘ پر رطب اللسان ہے۔ کیونکہ ان کا انداز نہ لاگ لپٹ والا ہے، اور نہ ہی ایچ پیچ نظر آتی ہے، احتیاط کا دامن بھی ’کچھ نیا چونکا دینے والا‘کی خواہش سے تار تار ہوا جاتا ہے۔ بات صرف زمین پر خدائی کی خواہش کی نہیں، بلکہ یقین کی ہے، اور اس یقین کی بنیاد پر اٹھائی جانے والی حاکمیتِ کُل کی ہے، جو انسان دیوتا کی ہوگی۔ The last days of Death کے باب میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اکیسویں صدی میں انسان انتہائی سنجیدگی سے لافانی زندگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ قحط سالی اور بیماریوں کی شکست اور بڑھاپے کے خلاف جنگ عصرِ حاضر کی اہم ترین قدر کو واضح کررہی ہے۔ یہ قدرانسانی زندگی کی ہے۔ ہمیں یہ یاددہانی کروائی جاتی ہے کہ انسانی زندگی کائنات کی مقدس ترین شے ہے۔ ہر ایک یہی کہہ رہا ہے: اساتذہ اسکولوں میں، سیاست دان پارلیمانوں میں، قانون دان عدالتوں میں، اور فنکار تھیٹرز میں۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر جسے عالمی آئین کہا جاسکتا ہے، کہتا ہے کہ ’جینے کا حق‘ انسانیت کی بنیادی قدر ہے۔ جبکہ موت اس حق کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے۔ موت انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے، اور ہمیں اس کے خلاف بھرپور جنگ لڑنی ہوگی۔‘‘ انہوں نے اپنی اس خواہش کو دلیل فراہم کرنے کے لیے سلیکون ویلے کے اہم ناموں (جیسے پے پال کے شریک بانی Peter Thiel وغیرہ) کا حوالہ دیا ہے، جو ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
لامحدود مسرت کے باب میں وہ کہتے ہیں کہ دوسری اہم ترین شے انسان کی ’خوشی‘ ہے۔ جیسا کہ اب دنیا بھر کے دانشور اور ماہرین مطالبہ کررہے ہیں کہ جی ڈی پی کی جگہ جی ڈی ایچ کو ترقی کا پیمانہ قرار دیا جائے، یعنی gross domestic happiness۔
سروے بتارہے ہیں کہ مسرت مادی اشیا کا حاصل نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ کوسٹاریکا کے لوگ سنگاپوری شہریوں سے زیادہ پُرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ حد سے زیادہ مادی سہولیات غم کا سبب بنتی ہیں۔ جاپانیوں کی مثال لیجیے، جنہوں نے سن پچاس سے تیز ترین ترقی کی، مگر وہ آج اتنے ہی مطمئن یا غیر مطمئن ہیں جتنے سن پچاس میں تھے۔ خوشی کی اس ’غیر مادی‘ تعریف کے بعد پروفیسر ہراری اطمینانِ نفس کا کیا ہی خوب ’نسخۂ کیمیا‘ پیش کرتے ہیں: ’’اگر سائنس اس معاملے میں حق بجانب ہے کہ ہماری مسرت کا تعین بائیوکیمیکل نظام کرتا ہے، تب کامل نفسِ اطمینان کا واحد طریقہ اس نظام میں دھاندلی ہے۔ بھول جائیں معاشی پیداوار کو، معاشرتی اصلاحات کو، اور سیاسی انقلابات کو۔ عالمی نفسِ اطمینان کی شرح میں اضافے کے لیے فقط بائیوکیمسٹری کی ضرورت ہوگی، اور یہ کام ہم کئی دہائیوں سے شروع کرچکے ہیں، لوگ بڑے پیمانے پر روزانہ کی بنیاد پر نفسیاتی بیماریوں کے لیے سکون بخش دوائیں لے رہے ہیں، شدید ذہنی تناؤ سے بچاؤ کررہے ہیں… بارہ فیصد امریکی فوجی عراق میں اور سترہ فیصد افغانستان میں ذہنی اور اعصابی تناؤ سے بچاؤ کی دوائیں استعمال کرتے رہے ہیں… مزید کوششوں سے مزید مطمئن اور اہل افواج تیار کی جاسکتی ہیں۔‘‘
سو یہ ہیں وہ مؤرخ اور مستقبل بیں، جن کی دانش پر سائنس پرست مغرب واہ واہ کررہا ہے۔ لافانی زندگی اور مسرتِ کامل کے نسخہ جات کے جائزے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش ہمیشہ سے انسانی سرشت میں موجود رہی ہے۔ اس کے جائز اور ناجائز دونوں پہلو ہیں، جنت میں ہمیشگی کی آرزو انسانی فطرت میں ودیعت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو فطری طور پر نامکمل محسوس کرتا ہے، اور اس کا ایسا محسوس کرنا دین کا تقاضا بھی ہے۔ جبکہ یہی فطری احساس دنیا کی مختصر زندگی میں اُس وقت سوہان روح بن جاتا ہے جب آخرت کی زندگی کا کوئی تصور نہ ہو، یا کفر کے سبب بداعمالیوں سے وجود بوجھل ہو، یا لایعنیت سے مایوسی ہو، یا ہوس کا ختم نہ ہونے والااذیت ناک سلسلہ ہو۔ قرآن حکیم عذاب زدہ اقوام کے باب میں دونوں خواہشات اور نفسیات کا متواتر ذکر کرتا ہے۔ جن قوموں نے اللہ کا انکار کیا، وہ زندگی کی حریص، موت سے خوف زدہ، اور مادی آسائشوں میں مگن رہیں۔
رب العزت فرماتا ہے:
’’اپنے ہاتھوں جو کچھ کماکر انہوں (بنی اسرائیل) نے وہاں بھیجا ہے ، اس کا اقتضا یہی ہے کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں۔ اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کرجینے کا حریص پاؤگے، حتیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اسے عذاب سے دور تو نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ یہ اعمال کررہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘(سورہ بقرہ 95۔96)
پروفیسر ہراری صاحب کی تواریخ Sapiens اورHomo Deus، دونوں کا مطالعہ پہلا تاثر یہ قائم کرتا ہے کہ مخاطب صرف سرمایہ دار طبقہ ہے، اور وہ بھی وہ ایک فیصد جس کے پاس پوری دنیا کی مجموعی کمائی سے زیادہ دولت ہے۔کہیں کہیںمؤرخ صاحب اٹھارہ بیس فیصد صاحبِ حیثیت دنیا پر بھی نظرکرم فرما دیتے ہیں۔ رہ گئی غریب دنیا، تو وہ یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مثال یا موازنے وغیرہ کے لیے خال خال ذکر آجاتا ہے۔ پہلے اقتباس میں انسان کی ابدی حیات اور لامحدود مسرت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے لیے جینیاتی انجینئرنگ کے کمالات پر کمال اعتماد ظاہر کیا گیا ہے۔ ان خواہشات کی دو بنیادیں ہیں: خالقِ کائنات کا انکار، اور نظریۂ ارتقا پرایمان۔ یہاں انکار بھی بے بنیاد ہے اور ایمان بھی بے ایمان ہے۔ کیونکہ سائنس پرست نہ ہی خالقِ کائنات کا عدم وجود ثابت کرسکے ہیں، اور نہ ارتقا کی کوئی مربوط ماہیت یا صورت ہی سامنے لاسکے ہیں۔ لاکھوں سال قدیم اجسام کی باقیات میں مماثلتیں اتنی ہی نامکمل اور ناقابل اتصال ہیں، جتنی کہ انسان اور دیگر زندہ مخلوقات میں آج بھی ہیں۔ جانداروں میں انسان سے کہیں نہ کہیں مشابہت پائی جاتی ہے، جو واحد خالق ومصورکی جانب اشارہ کرتی ہے، نہ کہ ایک دوسرے کی تشکیل وتکمیل کی دلیل بنتی ہے۔ اگر ارتقاکا سلسلہ مان لیا جائے، تو سارے سلسلے کے جانداروں کا بہ یک وقت زندہ وجود کیسے مانا جائے؟ امیبا بھی موجود ہے، رینگے والے جانور بھی زندہ ہیں، بندر یا چمپینزی آج بھی تواتر سے پائے جاتے ہیں، اور بالکل بھی انسان بننے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ اگر بائیو انجینئرز فطرت کے چناؤ کا انتظار نہیں کرسکتے، تو بندروں کو ہی انسان بنادیں اور انسانوں کو بندر بنادیں، اس طرح کم ازکم دنیا کو کچھ بہتر انسان میسر ہی آجائیں گے۔ مختصر یہ کہ جب کسی انسان سے کہا جائے کہ ’’بابو صاحب، آپ رشتے میں Baboon کے پڑپوتے ہوتے ہیں‘‘، تو وہ یقینا جواب میں یہی کہے گا کہ ’’آپ کے پردادا ہوں گے بندر! ہم تو فلاں سلسلے سے ہیں‘‘۔ یقیناً انسان کی طبیعت ہوش وحواس میں نظریۂ ارتقا قبول نہیں کرسکتی۔ مگر یہ نظریہ اُن لوگوں کے لیے واحد راہِ فرار ہے، جو خواہشاتِ نفس میں مدہوش رہنا چاہتے ہیں، اور کسی عمل پر جوابدہ ہونا نہیں چاہتے، جو انسانی تہذیب کے ضابطوں کا پابند ہونا نہیں چاہتے، اور فطرت کا اندھا چناؤ انہیں ان سب کرتوتوں کی اجازت دیتا ہے۔ خواہشاتِ نفس کے پجاریوں کا گزارہ اندھی، بہری اورگونگی فطرت پر ہی ہے۔ بالفرض، اگر بائیوٹیک اور بائیوکیمیکل سائنس اتنی ترقی یافتہ ہوچکی ہے، تو پھر یہ سوال بنتے ہیں کہ اب تک کتنے فیصد ذہنی معذور افراد معمول کی زندگی میں واپس لائے جاچکے ہیں؟ کتنے فیصد نفسیاتی مریض خودکشی کے خیال سے توبہ کرچکے ہیں؟ کتنے پاگل خانے بند ہوچکے ہیں؟ کچھ نہیں ہوا! بس تباہ کن طاقت اور فرعونیت سر پر سوار ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ موت کو شکست دے دیں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ اتنے سارے انسان آپ کہاں رکھیں گے؟ ماہرِ فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کی خواہش تو تھی کہ کچھ اور سیارے کالونیاں بنالیے جائیں، تاکہ عالمی اشرافیہ وہاں سیٹل ہوجائے۔ لیکن اگر کسی سیارے پر سکونت سے پہلے ہی انسانی خداؤں کی آبادی دس بیس کھرب ہوگئی تو پھر کیا کریں گے؟ ظاہر ہے، ہٹلر اور صہیونیوں کی طرح قتل وغارت کا طوفان ہوگا اور الامان الحفیظ ہوگا۔ خدا کا شکر بے شمار کہ اس نے موت کو زندگی کا محافظ بنایا، ورنہ تو موت کی نہ جانے کیسی کیسی ہولناک صورتیں پیدا ہوجاتیں، زندگی کی کیسی کیسی آزمائشیں سر اٹھاتیں۔ زمین پر انسان کی زندگی زمین جیسی ہی ہوسکتی ہے، زمین پر کسی شے کو ہمیشگی حاصل نہیں۔ انسان تو چھوڑئیے، پروفیسر ہراری صاحب آپ کسی بھی ارضی شے کو خاک یا راکھ ہونے سے نہیں روک سکتے۔ سائنس پرست اہلِ مذہب کو دیومالائیت کا طعنہ دیتے ہیں، جبکہ خود انہیں دیومالائیت میں ملکہ حاصل ہے۔ اپنے ہی مقرر کردہ تجربی معیار پر جدید سائنس کائنات کا 0.01 فیصد بھی نہیں جانتی، مگر زمین کے طبعی اصولوں پر تخلیقِ کائنات کی تشریح فرماتی ہے۔ اسے کہتے ہیں سائنس پر ایمان بالغیب۔ سائنس پرست کہتے ہیں: کائنات اتفاقی حادثے سے وجود میں آگئی۔ جبکہ تجربی اصول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی انتظام اتفاقی حادثے سے ممکن ہی نہیں۔ سائنس دعویٰ کرتی ہے کہ کائنات فطرت کے قوانین پرچل رہی ہے۔ جبکہ تجربی اصول واضح کرتا ہے کہ کوئی قانون ازخود تشکیل نہیں پاسکتا۔ پانچ سو سال سے یہ تماشا لگا ہے کہ سائنس اور فلسفہ ہردس بیس سال بعد گزشتہ نظریہ ترک کرکے نئے نظریے کی حقانیت پردلائل کی بودی عمارت اٹھاتے ہیں، اور اسے ’نئے خیالات‘کا عنوان دے کر جدتِ جاہلیہ سے نوازتے ہیں۔ اور مذہب کے ابدی اصول انہیں ’پرانے خیالات‘ لگتے ہیں۔ مغرب کے پاس زندگی کے جتنے سنہرے اصول ہیں سب وحیِ الٰہی کی دین ہیں، اور جتنے ناقص اور ناکافی اصول ہیں، سب فلسفے اور سائنس کی حشر سامانیاں ہیں۔ جیسا کہ خوشی کے باب میں پروفیسر ہراری نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ مادی آسائشوں کی فراوانی نے انسانی زندگی میں اطمینان کی کوئی لہر نہیں دوڑائی۔ انسانی مصائب وآلام کی شرح آج بھی ہمیشہ جیسی ہی ہے۔ جاپان کی مثال، بے مثال اقتباس میں بیان ہوچکی ہے۔ یہاں معروف نیویارکر بلاگراور دانشور مارک میسن کے چند جملے جچتے ہیں کہ ’’ زندگی آزمائشوں کی آماجگاہ ہے۔ مالدار مال کی آزمائش میں ہے، غریب غربت کی آزمائش میں ہے، لوگ خاندانی زندگی سے محرومی کی آزمائش میں ہیں۔ لوگ اہل وعیال کی آزمائش میں ہیں۔ لوگ دنیاوی آسائشوں کی آزمائش میں ہیں۔ لوگ تارک الدنیا ہونے کی آزمائش میں بھی ہیں۔ ہم سب آزمائش میں ہیں۔ فرق محض آزمائشوں کے مناسب یا نامناسب ردعمل میں ہے۔‘‘(Happiness is a problem)
کیسا المیہ ہے کہ جدید دنیا کے لوگ کتنی اذیتوں سے گزرکر اس سچائی تک پہنچ رہے ہیں، جو چودہ صدیوں سے انہیں نجات کی دعوت دے رہی ہے، کہ دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے: ’’زمانے کی قسم، انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو اللہ پر ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے، حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘(سورہ العصر)
بلاشبہ دنیا العلم القرآن کی شدید ضرورت مند ہے۔ پروفیسر ہراری نے مسرت اور نفسِ اطمینان کا حل ’نئی بوتل میں پرانی شراب بھرکر‘ پیش کردیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسرت و اطمینان کے بائیوکیمیکل حل کوغیر مادی قرار دے رہے ہیں۔ یہ گویا ایسا ہی ہے جیسے ’مذہب کی افیون‘ کی جگہ ’مادہ پرستی کی افیون‘ متعارف کروائی جارہی ہو۔ مثالیں بھی کمال کی پیش کررہے ہیں: نفسیاتی مریض اور امریکی فوجی۔ ان دونوں اقسام پر سکون بخش دواؤں کے اثرات انسانی المیوں کا ایک بھرپور مغربی ورژن ہے۔ اس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ خودکشی کے اعداد و شمار اور پوسٹ ٹراما اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی عبرتناک داستانیں بھری پڑی ہیں۔ یہ افیون زدہ دماغوں کی روحانی خلش ہے، جسے بائیوکیمسٹری نہیں سمجھ سکتی۔ سائنس پرستوں کی جدید جہالت نے ہمیشہ کی زندگی کے خواب کی فقط صورت بدل دی ہے، اور شراب کی جگہ نشہ آور دوائیں تھمادی ہیں۔
مفکرِاسلام سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’’تنقیحات‘‘ میں سائنس پرست نفسیات کی گتھی یوں سلجھاتے ہیں:
’’وہ (اہلِ مغرب) الحاد اور مادیت کے نقطے سے چلے۔ انہوں نے کائنات کو اس نظر سے دیکھا کہ اس کاکوئی خدا نہیں ہے۔ آفاق اور انفس میں یہ سمجھ کر نظر کی کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے مشاہدات اور محسوسات کی ہے، اور اس ظاہری پردے کے پیچھے کچھ بھی نہیں۔ تجربے اور قیاس سے انہوں نے قانونِ فطرت کو جانا اور سمجھا، مگر اس کے فاطر تک نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے موجودات کو مسخر پایا اور ان سے کام لینا شروع کیا، مگر اس تخیل سے ان کے ذہن خالی تھے کہ وہ بالاصل ان اشیاء کے مالک اور حاکم نہیں ہیں بلکہ اصلی مالک کے خلیفہ ہیں۔ اس جہالت وغفلت نے انہیں ذمے داری اور جوابدہی کے بنیادی تصور سے بیگانہ کردیا۔ اور اس کی وجہ سے ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی اساس ہی غلط ہوگئی۔ وہ خدا کوچھوڑ کر خودی کے پرستار بن گئے، اور خودی نے خدا بن کر انہیں فتنے میں ڈال دیا۔ اب یہ اسی جھوٹے خدا کی بندگی ہے جو فکروعمل کے ہر میدان میں ان کو ایسے راستوں پر لیے جارہی ہے جن کی درمیانی منزلیں تو نہایت خوش آئند اور نظر فریب ہیں مگر آخری منزل بجز ہلاکت کے کوئی اور نہیں۔‘‘
یہی حقیقت ہے کہ انسانی آنکھ اور حس حق وسچ کا حتمی معیار نہیں۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی نظر کی حد نظریۂ حیات وکائنات کی حدود کا تعین نہیں کرسکتی۔ زمین پرخدائی کے دعوے بہت ہوئے، اور پھر زمین پر ہی خاک ہوگئے۔ آفاق کی پہچان آفاقی نظر ہی سے ممکن ہے، اور اس کے لیے آفاقی نظرِ عنایت ہی درکار ہے، جو اہلِ نظر پرہی ہوا کرتی ہے۔
جو جدید مغربی سائنس کا بیانیہ ہے، کچھ یہی بیانیہ ہزاروں سال پہلے مصرکے آلِ فراعنہ کا تھا۔ وہ جب طاقت کی بلندی پر پہنچے تھے، خدائی کے دعوے کرنے لگے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پرفرعون نے عین وہی بات کی تھی، جو آج کی سائنس پرستی کہتی ہے، کہ بناؤ کوئی اونچی عمارت کہ ہم بھی دیکھیں کہاں ہے موسیٰ کا خدا؟ ہم تو اپنے سوا کسی کو خدا نہیں دیکھتے! کیا یہی دعوے آج سائنس پرست نہیں کرتے کہ ہم نے کائنات کی سیر کرلی، ہمیں کہیں خدا نہ ملا، اورہم ہی اس دنیا کے مالک ومختار ہیں۔ ان پھسپھسے دعووں کے ساتھ فرعون غرقاب ہوا، اور سائنس پرستوں کا انسان دیوتا بھی خس وخاشاک ہوجائے گا۔