مولانامودودیؒ کے دیرینہ ساتھی، چودھری رحمت الٰہی

تحریک اسلامی کے مخلص اورسچے خادم، پاکستانی سیاست کا اہم نام، مولانا مودودیؒ کے دیرینہ ساتھی، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماوسابق وفاقی وزیر(پانی،بجلی،قدرتی وسائل) چودھری رحمت الٰہی اب ہم میں نہیں رہے۔ آپ طویل علالت کے بعد 95 سال کی عمر میں 5 جنوری 2019ء کو منصورہ میں انتقال کرگئے۔ چودھری رحمت الٰہی کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے فریضہ اقامتِ دین کی ادائی کا جو عہدکیا اسے اس خوبی اور تن دہی کے ساتھ نبھایا کہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ، سوچ اور فکر کی پوری صلاحیت اور تمام تر قوت و توانائی تحریک اسلامی کے لیے وقف تھی۔ تحریک سے ان کا تعلق جُزوقتی نہیں، بلکہ بہر اعتبار ہمہ وقتی اور غیرمشروط تھا۔

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

آپ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ دارالاسلام پٹھان کوٹ (انڈیا) میں مہاجرین کی نگہداشت، خدمت اور ان کو مشرقی پنجاب کی سرحد سے بحفاظت پاکستان پہنچانے کی ذمہ داری اس دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی طرف سے آپ کو دی، اور آپ نے یہ فریضہ بخوبی انجام دیا۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ چودھری صاحب نے قیام پاکستان کے بعد لاہور کے گرد و نواح میں آباد ہونے والے مہاجرین کی بحالی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
چودھری رحمت الٰہی جہلم میں 1923ء میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کرنے کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کرلی۔ یہ ڈیڑھ، دو سال پہلے کی بات ہے کہ جب راقم لاہور گیا تو خواہش تھی کہ چودھری صاحب کا ایک اور تفصیلی انٹرویو کیا جائے، لیکن پھر معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت خاصی ناساز ہے، اس لیے یہ انٹرویو ممکن نہ ہوپایا۔ اس سے آٹھ سال قبل راقم ایک طویل انٹرویو کرچکا تھا جس کے لیے پہلے تو وہ تیار نہیں تھے، لیکن پھر زیادہ اصرار پر تیار ہوگئے۔ چودھری صاحب تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور جماعت اسلامی کی اجلی تاریخ ہیں۔ منصورہ میں ایک ملاقات میں انہوں نے جو گفتگو کی وہ بڑی دلچسپ اور خود ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ آپ نے راقم کو بتایا: ’’ فوج میں ملازمت کے دوران جب میرے سامنے یہ سوال آیا کہ خدا کا حکم ماننا ہے یا فوج کا؟ تو میں نے خدا کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا اور بالآخر استعفیٰ دے دیا‘‘۔ آپ کا کہنا تھا کہ ’’علاقے کی روایت کے مطابق فوج میں ملازمت اختیار کی، تقریباً سات سال تک فوج میں سروس کی، اسی دوران 1944ء میںتحریک اسلامی کا لٹریچر ملا اور وہ پڑھنے کے بعد ذہنی رجحان تحریک کی طرف ہوگیا، پھر اس کے بعد فوج سے استعفیٰ دیا، لیکن چونکہ وہ جنگ کا زمانہ تھا اس لیے استعفیٰ قبول نہیں ہوا۔ بالآخر ایک مسئلے پرکورٹ مارشل ہوا جس کی وجہ سے فوج سے فارغ کردیا گیا‘‘۔ اور پھر 1947ء کے آغاز میں جب دارالاسلام کا اجتماع ہوا تو آپ اس میں شریک تھے۔ آپ نے بتایا کہ’’ اجتماع سے واپس میں اپنے گھر تو آگیا لیکن فوراً بعد ہی دارالاسلام چلا گیا اور پھر وہاں سے جماعتی زندگی کا آغاز ہوا۔ پھر جب پاکستان بنا تو ہجرت کرکے دیگر لوگوں کے ساتھ لاہور آگیا اور یہاں مرکز کے ساتھ ہی رہا۔‘‘
میں نے جب ان سے استفسار کیاکہ آپ جس دور کی بات کررہے ہیں اُس وقت تو فوج میں جانے پر لوگ فخر محسوس کرتے تھے اور آپ چھوڑنا چاہتے تھے؟تو ان کا کہنا تھا کہ ’’تحریک سے متاثر ہونے اور مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھنے کے بعد ظاہر ہے آدمی کا ذہن صاف ہوجاتا ہے، پھر یہ احساس بھی مجھے ہوگیا تھا کہ میں جس فوج کا حصہ ہوں وہ تو ایک باطل کی خدمت کرنے والی فوج ہے، لہٰذا مجھے اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے‘‘۔
میں نے پوچھا: کورٹ مارشل کی کیا تفصیلات ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’1945ء کے آخر میں جنگ ختم ہوچکی تھی اور میں ملائشیا میں تھا۔ ملائشیا میں سروس کے دوران ہی فوج کا ایک قاعدہ ہے کہ ہر روز شام کو رول کال پریڈ ہوتی ہے جس میں سب لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس بار میچ کی وجہ سے پریڈ لیٹ ہوگئی اور اسی دوران مغرب کا وقت ہوگیا تو میں نے اور شکرالدین صاحب نے مغرب کی نماز کی اجازت چاہی، لیکن ہمیں ڈانٹ کر واپس کردیا کہ ہم لوگوں کو بھی نماز پڑھنی ہے، جب پریڈ ختم ہوجائے گی تو تم بھی پڑھ لینا۔ اس کے بعد 10 منٹ اور گزر گئے، ہم نے پھر درخواست کی تو بھی یہی جواب ملا۔ اس کے بعد ہم دونوں وہ جگہ چھوڑ کر نماز کے لیے چلے گئے۔ اس پر ہماری گرفتاری ہوئی اور پھر کورٹ مارشل ہوا۔ کورٹ مارشل کے دوران ویسے تو ہم سے نہ معلوم کیا کچھ پوچھا گیا لیکن اس میں ایک سوال یہ ہوا اور انہوں نے Clearly پوچھا کہ آپ کے سامنے ایک جانب خدا کا حکم ہے اور دوسری طرف فوج کا حکم ہے تو آپ کس کی تعمیل کریں گے؟ تو ہم کو ظاہر ہے کچھ اور تو نہیں کہنا تھا، ہم نے کہا پہلے ہم خدا کا حکم مانیں گے پھر فوج کا حکم مانیں گے۔ اس بات پر ہمیں سزا ہوگئی۔ شکر الدین صاحب سپاہی تھے تو انہیں ایک سال کی سزا ہوئی، اور میں چونکہ نان کمیشنڈ آفیسر (NCO) تھا اس لیے مجھے تین مہینے کی سزا ہوئی۔ ایک سال کی سزا والے تو سول جیل میں چلے جاتے ہیں اور میں نے تین مہینے جیل میں کاٹے اور اس کے ساتھ ہی مجھے ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور میرے سارے حقوق بھی ضبط کرلیے گئے اور کوئی واجبات نہیں دیے گئے۔‘‘
انٹرویو میں جب میں نے ان سے پوچھا کہ مولانا مودودیؒ سے پہلا تعارف کب اور کیسے ہوا؟ تو چودھری رحمت الٰہی کا کہنا تھا: ’’یہ اُس وقت کی بات ہے جبمولانا کے گردے کا پہلا آپریشن ہوا، اس کے بعد سیالکوٹ کے قریب ہی ایک گائوں ہے، وہاں چودھری محمد اکبر مرحوم (جماعت کے ابتدائی لوگوں میں سے تھے) کا گھر تھا اور چودھری محمد اکبر بڑے تھے اور چودھری محمد اشرف چھوٹے تھے۔ ان کے گھر پر مولانا مودودیؒ آرام کی غرض سے ٹھیرے ہوئے تھے۔ اسی دوران وہاں اجتماع ہوا، اس میں مولانا نے شہادتِ حق والی تقریر کی۔ میں بھی اُس زمانے میں اپنی ڈیوٹی کے سلسلے میں وہاں تعینات تھا۔ ویسے تو اجازت نہیں تھی مگر میں چوری چھپے چلا جاتا تھا۔ وہیںمیں نے مولانا مودودیؒ کو دیکھا اور مصافحہ ہوا۔ بات چیت تو نہیں ہوئی لیکن شہادتِ حق والی تقریر سنی۔‘‘
آپ نے بتایا کہ ’’جماعت نے ایک درس گاہ قائم کی تھی جس میں مولانا امین اصلاحی، مولانا غازی عبدالجبار، مولانا مسعود عالم ندوی اس کے اساتذہ میں تھے۔ یہ راولپنڈی میں قائم تھی۔ پھر میں اس میں پڑھنے کے لیے چلا گیا، لیکن بدقسمتی سے لوگ نہیں تھے، ہم صرف تین آدمی آئے۔ یہ درسگاہ چار چھے مہینے چلتی رہی۔ ظاہر بات ہے کہ تین آدمیوں سے درس گاہ تو نہیں چلتی، پھروہ بند ہوگئی۔ راولپنڈی میں اسی درس گاہ میں مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم بھی تھے، میں نے ان سے درخواست کی کہ میں عربی سیکھنا اور پڑھتا چاہتا ہوں، تو انہوں نے مجھے پڑھانا شروع کیا، لیکن وہ بھی چند مہینے میں ان سے پڑھ سکا کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ میں نے ان سے بات کی کہ مجھے اور پڑھنا تھا اور آپ جارہے ہیں تو میں کیا کروں؟ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میرے کولیگ اور ہم جماعت مولانا محمد ناظم ندوی انڈیا سے کراچی آگئے ہیں، تم کراچی چلے جائو، میں ان سے کہوں گا تو وہ پڑھا دیں گے۔ پھر میں کراچی چلا گیا۔ مولانا ناظم ندوی سے بھی دو چار مہینے پڑھ سکا، کیونکہ وہ دوبارہ انڈیا چلے گئے۔ جس مقصد کے لیے کراچی گیا تھا وہ پورا نہ ہوا تو پھر میں نے سروس کرلی۔ اُس زمانے میں لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ ان کے دفتر میں بطور کلرک ملازم ہوگیا۔‘‘
ملازمت کے دوران غالباً 1950ء میں پنجاب کے انتخابات ہوئے تو اس میں کراچی کے کچھ لوگ کام کرنے کے لیے گئے، ان میں آپ بھی شامل تھے۔ آپ نے بتایا: ’’غالباً دس بارہ لوگ تھے، ہم نے دو ہفتے یہاں انتخابات کے لیے کام کیا اور دوبارہ چلے گئے۔ واپس گئے تو اس کی رپورٹ ہوگئی اور پھر چارج شیٹ مل گئی کہ بھئی یہ کیا ہے! میں نے اس کا جواب دیا اور ساتھ ہی اپنا استعفیٰ بھی پیش کردیا۔ خیر میرے خیال سے انہوں نے میرے ساتھ نرمی ہی کی کہ ڈسمس کرنے کے بجائے استعفیٰ قبول کرلیا۔ بہرحال میں وہاں سے فارغ ہوگیا۔ پھر وہاں ایک پرائیویٹ کمپنی صادق ٹریڈرز کے نام سے تھی، میں وہاں ملازم ہوگیا۔ اُس زمانے میں صادق حسین مرحوم جو کراچی جماعت کے امیر بھی رہے تھے، اس کمپنی میں ملازم تھے۔ لہٰذا ہم دونوں اکٹھے سروس کرتے رہے۔1953ء کے ہی زمانے میں قادیانی مسئلے پر مارشل لا لگ گیا اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور میاں طفیل محمد سمیت جماعت اسلامی کی ساری قیادت گرفتار ہوگئی تو پھر کراچی میں ایک اجتماع بلایا گیا، اس اجتماع میں فیصلہ ہوا اور سلطان احمد صاحب کو امیر جماعت اور مجھے (چودھری رحمت الٰہی کو) قیم بنایا گیا۔ ایک سال تک ہم دونوں نے جماعت چلائی۔ پھر جماعت کی قیادت رہا ہوگئی اور ہم لوگ فارغ ہوگئے۔‘‘ آپ کراچی میں جماعت اسلامی کے ناظم نشرواشاعت بھی رہے ہیں۔
آگے کے سفر کے بارے میں آپ بتاتے تھے کہ ’’سروس تو میں نے چھوڑ دی تھی، پھر حکیم اقبال حسین مرحوم، شیخ سلطان احمد اور میں نے مل کر دوا سازی کا ایک ادارہ بنایا۔ حکیم اقبال حسین صاحب کیوں کہ ہمدرد دواخانے سے منسلک تھے وہ سارے کام سے واقف تھے۔ دوا سازی کا وہ ادارہ بزنس ریکارڈ روڈ پر تھا جو ہم کئی سال تک چلاتے رہے۔ ابھی میں اس ادارے میں ہی تھا کہ چودھری غلام محمد مرحوم نے مشورہ دیا کہ سندھ میں کوئی زمین ٹھیکے پر دے کر ہم کام کرنا چاہتے ہیں، تم اگر تیار ہو وہاں جانے کو، تو ہم اس پرکام کریں۔ چنانچہ پھر چودھری غلام محمد نے بھی انویسٹ کیا اور میںنے بھی کیا۔ وہاں ہم نے زمین ٹھیکے پر لی اور ٹنڈوالہیار میں زمین ٹھیکے پر لے کر کاشت کاری کی۔‘‘
اس کے بعد مرکز سے واپسی کا مطالبہ آیا تو دسمبر 1963ء میں آپ مرکز جماعت اسلامی لاہور آگئے، جہاں ابھی پہنچے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ جماعت پر پابندی لگادی گئی اور پوری شوریٰ گرفتار ہوگئی۔ اس کے بعد باقی سارا کام آپ کے کاندھوں پر آگیا۔ سلیم منصور خالد بتاتے ہیں کہ ’’ چوہدری صاحب کمال کی ڈرافٹنگ کیا کرتے تھے،انگلش اور اردو بہت اچھا بولتے اور لکھتے تھے ،بولتے مختصر تھے لیکن سامنے والی کی پوری بات توجہ سے سنتے تھے ۔کسی بھی معاملے میں دوٹوک رائے رکھتے تھے۔آپ کئی مذاکرات میں شامل رہے اور کئی موقوں پر ڈیڈلاک ہوجاتا تو آپ بڑی سمجھداری سے کوئی درمیان کاراستہ نکال لیتے تھے۔‘‘ آپ نے اس دوران اپوزیشن جماعت کی نمائیندگی کی اور آپ ہی کے ذریعے فاطمہ جناح کی حمایت کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ جماعت کا مقدمہ آپ کی سربراہی میں لڑا گیا، اور اس کے نتیجے میں جماعت بحال ہوئی۔ پھرجب جماعت بحال ہوئی تو 1965ء میں آپ کو قیم جماعت بنادیا گیا۔ اُس وقت میاں طفیل محمد قیم تھے، لیکن جب صوبائی نظام قائم ہوا تو صوبوں کے امراء مقرر ہوئے۔ اور میاں طفیل محمد امیر صوبہ مغربی پاکستان مقرر ہوئے۔ پھر 1965ء سے لے کر 1978ء تک قیم جماعت رہے۔ 1973ء میں مولانا مودودیؒ نے میاں طفیل محمد کو قائم مقام امیر بنایا، پھر میاں صاحب ہی امیر ہوگئے۔ چودھری رحمت الٰہی میاں صاحب کے ساتھ بھی قیم رہے۔ اور جب بھٹو نے جبر اور ظلم کا ایک دردناک کھلواڑ شروع کیا تو اس جدوجہد کے آپ اہم سپاہی تھے، اس دوران قومی اتحاد کی تحریک میںدو بار جیل بھی گئے۔ آپ نے پی این اے کے قائم مقام جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے راولپنڈی میں لانگ مارچ کی بھی قیادت کی۔ آپ نے بتایا: ’’جب 1978ء میں قومی اتحاد نے ضیاء الحق کی کابینہ میں جانے کا فیصلہ کیا تو مجھے وہاں بھیج دیا گیا۔ پھر قاضی صاحب کو قیم بنایا گیا۔ وہاں آٹھ مہینے گزارنے کے بعد ہم واپس آئے تو مجھے میاں صاحب نے نائب امیر مقرر کیا‘‘۔ قاضی صاحب کو آپ نے دو ٹرم میں جب باقاعدہ انتخاب ہوا اُس وقت بھی اور بعد میں بھی لکھ کر دیا تھا کہ آپ کو فارغ کردیں، لیکن یہ درخواست قبول نہیں ہوئی اور پھر بیت المال کی نگرانی سپرد رہی۔ منصورہ بنانے میں بھی آپ کا اہم کردار تھا۔ آپ نے بتایا کہ جب منصورہ بنایا تو اُس وقت زمین خریدی گئی، اس کے لیے رجسٹرڈ سوسائٹی کی حیثیت سے مجلس احیاء اسلام قائم کی گئی تھی۔ رانا اللہ داد صدر اور آپ نائب صدر تھے۔ پھران کے انتقال کے بعد آپ صدر بھی رہے۔ مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم کی سربراہی میں اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کے نام سے تنظیم تھی، منصورہ اور اس کے گرد و نواح میں تعلیمی اداروں کو قائم کرنے میں بھی آپ کا اہم کردار ہے۔ ان آٹھ اداروں میں مودودی اسلامک ایجوکیشن بھی ہے۔ ایک تہذیب الاسلام کا مدرسہ ہے۔ دو کالج ہیں، ایک گرلز اور ایک بوائز کا۔ چار ہائی اسکول ہیں جن میں چھے منصورہ کے اندر اور دو وہاں سے کوئی تیس چالیس میل کے فاصلے پر قصبہ ’’کولہاں خاص‘‘ میں ہیں۔ 1994ء میں مولانا حامدی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بعد سے اس کے صدر بھی آپ بہت عرصہ رہے اور سارے ادارے اور ان کی نگرانی بھی سپرد رہی۔ تو یہ چند موٹے موٹے کام ہیں، ورنہ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ آپ کو محترم نعیم صدیقی کے بعد اس کمیٹی کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے جو جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ میں منظوری کے لیے پیش کی جانے والی قراردادوں کا مسودہ تیار کرتی تھی، اور جس کے سربراہ پروفیسر غفور احمد تھے۔ آپ کا شمارجماعت اسلامی کے اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جماعت کے ہمدردوں اور مخالفین کو دیکھا، سمجھا اور برتا بھی ہے۔ آپ نے پاکستان بننے کے عمل کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جب راقم نے آپ سے سوال کیا کہ آپ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ پر پاکستان کی مخالفت کے الزام کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ’’ یہ بحث تو بڑی پرانی ہے اور بار بار چھپ بھی چکی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے جماعت بنائی تھی معاشرے اور ریاست کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے لیے… اور اس کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ پہلے لوگوں کی فکر صحیح کی جائے اور ان کو بتایا جائے کہ مسلمان کی زندگی کا نصب العین کیا ہونا چاہیے۔ اس پر لوگوں کو تیار کرنا چاہیے اور ان کی سیرت و کردار اس کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اس پر کام ہورہا تھا۔ دوسرا یہ ہے کہ جب ابتدا میں پاکستان کا آئین بنانے کے لیے علماء کی کمیٹی بنائی گئی تو اس میں بھی مولانا مودودیؒ شریک تھے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی مخالفت کا الزام سراسر غلط ہے۔ پھر پاکستان بننے کے فوراً بعد بانیِ پاکستان نے مولانا مودودیؒ کو ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام پر تقاریر کرنے کے لیے کہا اور وہ پانچ تقاریر ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہیں۔ ان تقاریر میں مولانا نے واضح کیا کہ اسلام کس قسم کا نظامِ ریاست بنانا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ افسانے ہیں کہ جماعت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی‘‘۔
اسی طرح آپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’یہ بات صحیح نہیں کہ جماعت محض اصلاحی تحریک ہے، بلکہ یہ انقلابی تحریک ہے اور اس کا مقصد زندگی میں ایک مکمل تبدیلی لانا ہے اور اسلام کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔ جماعت ابھی تک اسی انقلابی تناظر کی حامل ہے، اسی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ البتہ مطلوبہ انقلاب برپا ہونے میں بے شمار چیزیں حائل ہیں۔ اس میں محض کسی ایک جماعت یا انسان کا عمل دخل نہیں ہے، اور یہ انقلاب تو ایسا ہے کہ اس میں اللہ کی مشیت بھی کام کرتی ہے، اور اگر کوئی قوم اس کے لیے تیار نہیں ہوتی اور جدوجہد نہیں کرتی تو اس قوم کو اسلامی انقلاب جیسی نعمت حاصل نہیں ہوپاتی، اور نہ وہ اس کی مستحق ٹھیرتی ہے۔ لہٰذا جب قوم اس کے لیے تیار اور مستحق ہوجائے تو انقلاب بھی ان شاء اللہ آجائے گا۔ اس وجہ سے جماعت اسلامی کا نصب العین اور جدوجہد جاری ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جماعت جس انقلاب کو لانا چاہتی ہے وہ کل آجائے گا یا پانچ سال بعد۔ یہ تو اللہ کی مشیت پر منحصر ہے۔‘‘
چودھری رحمت الٰہی کی جب راقم سے ملاقات ہوئی اور خاصی طویل ملاقات رہی اس دوران اُن کو اس پر بالکل یکسو پایا کہ جماعت اسلامی کا کام ناکامی اور کامیابی سے بڑھ کر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ کام بہت صبر آزما ہے، اس لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ جماعت کے کارکن یہ سمجھ لیں کہ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے والا کام نہیں ہے، اس لحاظ سے میں نتائج سے بے پروا ہونے کو تو نہیں کہوں گا کیونکہ بہرحال انسان کی فطرت ہے کہ نتائج چاہتا ہے، لیکن یہ سمجھ کر کرے کہ یہ کوئی معمولی اور مختصر مدت کام نہیں بلکہ لمبا کام ہے۔ اگر یہ سمجھ کر کام نہیں کریں گے تو جماعت کے کارکن جلد ہی بے صبرے ہوجائیں گے اور ان کا اپنے راستے سے ہٹنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا کہ یہ فضول کام ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ لہٰذا انہیں سمجھنا ہے کہ یہ لمبے عرصے کا کام ہے۔ اور دوسری وجہ یہ سمجھنی چاہیے کہ یہ تبدیلی ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے۔ تبدیلی کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا ہمارا کام ہے اور یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم کرتے ہیں یا نہیں کرتے، لیکن تبدیلی لے آنا ہمارے اختیار میں نہیں، یہ تو اللہ کی مشیت اور اختیار میں ہے۔ اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ اور تیسری بات یہ کہ راستہ بس یہی ہے، ہم دنیا کے لیے کام نہیں کرتے، ہم تو آخرت کی نجات کے لیے کام کرتے ہیں، تو اس کا راستہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے آپ کام کرتے رہیں، اور دوسرا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ اور اگر ہم یہ بھی کرلیں گے تو ہماری آخرت بن جائے گی۔ اس لحاظ سے ہمیں کام کرتے رہنا ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں کیا تبدیلی لاکر دکھانی ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا ہم حق کے طرف دار ہیں یا باطل کی طرف ہیں، یا بالکل ہی بے پروا ہوگئے ہیں کہ نہ حق کی طرف اور نہ باطل کی طرف ہیں۔ ہمیں ہر حالت میں حق کا طرف دار رہنا چاہیے۔ اس صف میں کھڑا رہنا ہی ہمارا کام ہے۔ تو اس لحاظ سے یہ کام صبر اور محنت کے ساتھ کرنے کا ہے، اسی میں کامیابی ہے۔‘‘
چودھری رحمت الٰہی ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے۔ جو لوگ رخصت ہوتے جارہے ہیں، ان کی جگہ کو پُرکرنے والے پیدا نہیں ہورہے۔ چودھری صاحب کم و بیش سات دہائی تک جماعت اسلامی میں متحرک رہے اور اس کی بے لوث اور مخلصانہ خدمت کرتے رہے۔ اللہ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے اور اُنہوں نے تحریک کی جو خدمت کی ہے اس کی بنا پر اِن شاء اللہ انہیں اسلامی تحریکوں کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش سے نسلیں رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی۔ مخمور دہلوی نے کہا تھا ؎

جنھیں اب گردشِ افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں