وزیراعلیٰ سندھ کے استعفیٰ کا مطالبہ

منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم، اس عمل پر اعلیٰ عدالت کے اظہارِ برہمی، اور اس عدالتی استفسار کے باوجود کہ کیا کسی کا دبائو تھا؟ حکمران تحریک انصاف اور حکومتی ٹیم مراد علی شاہ کو ٹھگز آف پاکستان کا اہم کردار قرار دے رہی ہے اور اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ انہیں استثنیٰ نہیں ملے گا۔ اس سوال کے باوجود کہ یہ استثنیٰ کس نے مانگا ہے اور کس سے مانگا ہے، اور اس وضاحتی استفسار کے باوجود کہ کیا حکومت یا حکمران جماعت کو استثنیٰ دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں، حکومتی ترجمان بلکہ سرکاری بھونپو اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کے استعفے کا ان کا مطالبہ اب بھی برقرار ہے۔ یہ مطالبہ وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے پیر کے روز عدالتی حکم کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی لائن یہی ہے۔ اگر دونوں افراد یہ سب کچھ پارٹی سربراہ اور وزیراعظم کے حکم اور مشورے پر کررہے ہیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکمران کس قدر گھنائونا اور خطرناک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ دونوں حضرات اپنے طور پر یہ مؤقف حکومتی مؤقف بناکر پیش کررہے ہیں تو یہ خود حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ صورت حال جو بھی ہو، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فواد چودھری، فیاض الحسن چوہان اور شہزاد اکبر جیسے لوگ وہی کام کررہے ہیں جو چند ماہ قبل تک طلال چودھری، دانیال عزیز، مریم اورنگزیب اور دیگر نوازشریف کے لیے کررہے تھے۔ ایک وسیع النظر دانشور کا کہنا ہے کہ جو کام طلال ودانیال نے پانچ سال میںکیا… فواد، شہزاد اور فیاض چوہان یہ کام 5ماہ میں ہی مکمل کرلیں گے۔ شاید ان کو اتنے عرصے میں ہی اپنا کام پورا کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا آئین میں ایک طریقہ درج ہے، جس کے تحت یا تو وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو، یا حکمران جماعت اسے تبدیل کرکے اپنی عددی طاقت کی بنا پر نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلے، یا پھر گورنر اسمبلی توڑ کر وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ کو گھر بھیج دے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک انصاف ان تمام آپشنز پر کام کررہی ہے۔ تاہم کسی بھی آپشن پر نہ تو اسے کامیابی مل سکی ہے اور نہ ہی اس کا کام مکمل ہے۔ حکمران پہلے ایم کیوایم، قوم پرست جماعتوں اور سندھ میں اپوزیشن کے دوسرے کرداروں کے ذریعے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کرتے رہے، اس حوالے سے بڑی بڑی خبریں بھی چلوائی گئیں، مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ پھر گورنر راج کی باتیں شروع کی گئیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے بعد کہ وہ چند منٹوں میں اسے اڑا دیں گے، حکمرانوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس دوران خود پیپلزپارٹی کے اندر یہ کوششیں کی گئیں کہ وہ خود مراد علی شاہ کو تبدیل کردے۔ اس معاملے میں یہ خبریں بھی آئیں کہ پیپلزپارٹی نے مراد علی شاہ کی تبدیلی طے کرلی ہے اور اس کے لیے غالباً ناصر علی شاہ کا نام بھی پیش کردیا ہے۔ لیکن نہ صرف اس کی تردید ہوئی بلکہ پیپلزپارٹی اور اس کی اعلیٰ ترین قیادت مراد علی شاہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ان تمام آپشنز (آئینی) کی سو فیصد ناکامی کے بعد اب شاید اس کاوش کے محرکین نے وزیراعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ کردیا، اور اب اس پر اصرار کررہے ہیں۔ لیکن اگر محض مطالبے پر استعفے آجایا کرتے تو عمران خان، خود فواد چودھری، شہزاد اکبر، فیصل واوڈا، شہریار آفریدی اور دیگر اب تک کئی کئی بار مستعفی ہوچکے ہوتے۔
بہرحال ہفتہ دس دن کے حالات بتاتے ہیں کہ حکمران جماعت اور اس کی میڈیا ٹیم سندھ فتح کرنے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ سندھ ان سے فتح ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو حالات بتائیں گے، لیکن یہ بات کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ اس سے ملک میں جو سیاسی تباہی مچے گی اور جس سیاسی افراتفری کا آغاز ہوگا وہ کسی سے بھی سنبھالے نہیں سنبھل سکے گی۔ یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس سندھ کے عوام کا اسی طرح کا مینڈیٹ ہے جیسے تحریک انصاف کے پاس ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ جعلی یا انجینئرڈ ہے تو تحریک انصاف کا بھی ویسا ہی ہے۔ پھر حالات اور تجربہ بتارہا ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اور عین ممکن ہے کہ خود منصوبہ ساز بھی یہ چاہتے ہوں کہ تحریک کامیاب نہ ہو، یا اُسے کسی بھی مرحلے میں ناکام کردیں۔ اس سے وفاقی حکومت کی جوسبکی ہوگی وہ اس کی موجودہ سیاسی ساکھ کے لیے زہر قاتل بن جائے گی۔ جس حکومت کی ساکھ کا یہ عالم ہو کہ اس کے سربراہ (وزیراعظم)کو لینے کے لیے ترکی جیسے برادر ملک کا کوئی وزیر نہیں بلکہ ایک شہر کا ڈپٹی میئر جائے، جبکہ خود ہمارا وزیراعظم خلیج کے ایک بادشاہ کو خود گاڑی چلاکر ساتھ لانے پر مجبور ہو وہ ایک منتخب حکومت کو رخصت کرکے ملکی یا عالمی سطح پر اپنی ساکھ کیا بچا سکے گی، اُسے ابھی سے غور کرلینا چاہیے۔ پھر اگر ایسی کوئی کوشش کامیاب ہوگئی تو سندھ کے دیہی عوام میں ایک ایسا احساسِ محرومی جنم لے گا جو 70،80اور 90کی دہائی کے احساسِ محرومی کو مات کرجائے گا۔ یہ تجربہ نہ ماضی میں کبھی اپنے اثرات کے اعتبار سے پسندیدہ رہا ہے اور نہ اب ایسا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا مقبول اور طاقتور حکمران بھی غلطی کرکے پھانسی گھاٹ تک پہنچ گیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد 1972ء کے بچے کھچے پاکستان میں بلوچستان اور سرحد میں پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل نہیں تھی، چنانچہ یہاں نیپ اور جمعیت العلمائے اسلام نے مخلوط حکومتیں بنالیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پیپلزپارٹی کو ہضم نہ ہوسکیں، چنانچہ پہلے ہی دن سے سازشیں شروع ہوگئیں۔ آخرکار بلوچستان میں منتخب مخلوط حکومت کو وفاق نے توڑ دیا، اور صوبہ سرحد کی حکومت اس اقدام کے خلاف احتجاجاً اقتدار سے باہر آگئی۔ اس اقدام سے پیپلزپارٹی کی حکومت ان صوبوں میں قائم تو ہوگئی اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصی اور آمرانہ طاقت میں کچھ اضافہ بھی ہوگیا، لیکن اس کے نتیجے میں اپوزیشن متحد اور مستحکم ہوئی اور یہ اقدام پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے لیے پہلا قدم ثابت ہوا۔ اس کے بعد بھی چھوٹے صوبوں میں مینڈیٹ کے منافی اپنی حکومتوں کے قیام کی کوششیں کئی وفاقی حکومتوں کو لے ڈوبی ہیں۔ اس لیے موجودہ حکمران بھی اس کو سامنے رکھیں۔ اگر حکمرانوں کو یہی کچھ کرنا ہے تو ملک میں تبدیلی کیا خاک آئے گی! ایسے اقدام سے پوری دنیا میں ایک پیغام جائے گا کہ پاکستانی قوم، اس کی قیادت اور سیاسی جماعتیں ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں۔ خدارا دنیا کو ایسا پیغام نہ دیں اور ماضی سے نہ صرف سبق سیکھیں بلکہ اس کا عملی اظہار اور ثبوت بھی دیں۔