مغرب کی گھٹتی ہوئی آبادی اور تہذیبی خودکشی

امجد عباسی

امریکی تھنک ٹینک ’پیو‘ کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فی صد ہے، جو 2050ء تک 30 فی صد تک پہنچ جائے گی

’’قدرتِ الٰہی نے دو زبردست شیطان مغربی قوموں پر مسلط کردیے ہیں جو اُن کو ہلاکت اور تباہی کی طرف کھینچے لیے جارہے ہیں۔ ایک قطع نسل کا شیطان ہے اور دوسرا قوم پرستی کا شیطان۔ پہلا شیطان ان کے افراد پر مسلط ہے، اور دوسرا ان کی قوموں اور سلطنتوں پر۔ پہلے نے ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کی عقلیں خراب کردی ہیں۔ وہ خود ان کے اپنے ہاتھوں سے ان کی نسلوں کا استیصال کرا رہا ہے۔ وہ انہیں منعِ حمل کی تدبیریں سُجھاتا ہے، اسقاطِ حمل پر آمادہ کرتا ہے، عمل تعقیم(Sterilization) کے فوائد بتاتا ہے جن سے وہ اپنی قوتِ تولید کا بیج ہی مار دیتے ہیں۔ انہیں اتنا شقی القلب بنا دیتا ہے کہ وہ بچوں کو آپ ہلاک کردیتے ہیں۔ غرض یہ شیطان وہ ہے جو بتدریج ان سے خودکشی کرا رہا ہے۔‘‘
(’’مغربی تہذیب کی خودکشی‘‘، بحوالہ تنقیحات، ص 70)
تقریباً ایک صدی قبل سید مودودیؒ نے قطعِ نسل (برتھ کنٹرول) کی وجہ سے مغربی تہذیب کی جس خودکشی کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ آج ایک کھلی حقیقت ہے۔ مغربی مفکرین، دانش ور اور ان کے تحقیقی مراکز (تھنک ٹینک) خود اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ مغربی ممالک کی آبادی جس تیزی سے گھٹ رہی ہے اور ان کی شرح پیدائش مطلوبہ تناسب سے جس طرح گرتی جا رہی ہے، اس کے نتیجے میں ان اقوام کا اپنا وجود برقرار رکھنا محال ہے اور وہ بتدریج صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے انہیں تشویش ہے کہ وہ بتدریج ان پر غالب آسکتے ہیں۔
سید مودودیؒ نے جس زمانے میں اس طرف توجہ دلائی تھی اُس وقت مغربی تہذیب کا سحر طاری تھا اور مغربی افکار کو ہی ترقی کا معیار اور پیمانہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں مغربی تہذیب پر تنقید کرنا آسان نہ تھا۔ تاہم، اصحابِ دانش اور بعض مغربی مفکرین ایک تاریخی حقیقت کے طور پر اس بات کو محسوس کررہے تھے کہ مغرب نے ضبطِ ولادت اور برتھ کنٹرول کی پالیسی کو ایک فلسفے اور قومی پالیسی کے طور پر جس طرح اپنایا ہے وہ بالآخر نسل کُشی ہے، تباہی اور تہذیبی زوال کا راستہ ہے۔ اُس وقت صرف غیر معمولی ذہین اور دوراندیش لوگ ہی اس بات کو سمجھ سکے تھے، اور عوام الناس نے اس بات پر کان نہ دھرے اور مغرب کے تہذیبی سحر میں مبتلا رہے۔
آج اکیسویں صدی میں صورتِ حال یہ ہے کہ عالمی سطح پر شرح پیدائش میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ بالخصوص دنیا کے نصف ممالک میں آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ ان میں بھی یورپی ممالک، امریکہ، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کی شرح پیدائش 2.1 فی صد سے بھی کم ہے جو آبادی کو برقرار رکھنے کے تناسب سے بھی کم ہے، جب کہ بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ (جیمز گیلگر، بی بی سی ہیلتھ اینڈ سائنس رپورٹ 10 نومبر 2018ء)
لانسٹ جریدے کی رپورٹ کے مطابق 1950ء سے 2017ء تک شرح پیدائش کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق 1950ء میں اوسط شرح پیدائش 4.7 فی صد تھی جو بتدریج 2.4 فی صد شرح تک گر گئی۔ اسی دوران افریقہ کے ملک نائیجر میں شرح پیدائش 7.1 فی صد ہے۔ برطانیہ میں شرح پیدائش 1.7 فی صد ہے جو بیشتر مغربی ممالک سے مماثلت رکھتی ہے۔ 1950ء میں کسی بھی ملک کی شرح پیدائش 2.1 فی صد سے کم نہ تھی۔ اس سے کم شرح پر آبادی کم ہوجاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے نصف ممالک جن میں بیشتر مسلم ممالک ہیں، کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ جاپان میں 1950ء سے آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں بوڑھوں کا تناسب سب سے زیادہ جاپان میں ہے۔ اسے بوڑھوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ اس وقت 14 سال سے کم عمر بچوں کا تناسب 14 فی صد، جب کہ 65 سال سے زائد افراد کا تناسب 25 فی صد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2060ء تک بوڑھوں کا تناسب 40 فی صد ہوجائے گا۔
آبادی اور شرح پیدائش میں کمی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر وہ تین ہیں:
…کم عمر بچوں کی اموات میں کمی (کم عمر بچوں کی اموات میں کمی کی وجہ سے عورتیں کم بچے پیدا کرتی ہیں)۔
…مانع حملمصنوعات کی بآسانی فراہمی اور دستیابی۔
…خواتین میں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت اور پیشہ ورانہ رجحان کا بڑھنا۔
دوسری طرف دنیا کے نصف ممالک جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ بیشتر مسلم ممالک ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک ’پیو‘ کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فی صد ہے جو 2050ء تک 30 فی صد تک پہنچ جائے گی اور دنیا میں ہر تیسرا شخص مسلمان ہوگا۔ اس صدی کے اختتام تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمان عورتیں زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان کی شرح پیدائش 3.1 فی صد ہے، جب کہ دوسرے تمام مذاہب کو ملا کر یہ اوسط 2.3 فی صد ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مسلمانوں میں 15 سال سے کم عمر آبادی کا تناسب دنیا کی باقی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ 2010ء میں دنیا کی27 فی صد آبادی 15 سال سے کم عمر تھی، جب کہ مسلمانوں کی 15 سال سے کم عمر آبادی کا تناسب 34 فی صد تھا۔ اس لیے بھی مسلمانوں کی آبادی دیگر دنیا کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اہلِ مغرب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اپنے ہاں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جہاں وہ مسلم تارکین وطن کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں، وہیں اس بات سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں کہ مسلمان ان پر غلبہ نہ پالیں۔ وہ مسلم فوبیا سے دوچار ہیں اور مسلم تارکین وطن کے خلاف آواز بھی اٹھاتے رہتے ہیں اور مختلف اقدامات کے ذریعے ان کے لیے رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی ماہرین جہاں شرح پیدائش بڑھانے کی ترغیب دے رہے ہیں وہیں نوجوانوں کی کمی کے پیش نظر ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرنے کی سفارش بھی کررہے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے خدائی ہدایت کا محتاج ہے۔ انسانی علم کے نتیجے میں تو مغربی تہذیب خودکشی سے دوچار ہورہی ہے، جب کہ مسلمان کثرتِ آبادی کی بنا پر دنیا میں غلبہ پانے کی پوزیشن میں آرہے ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ آج بھی بعض نام نہاد دانش ور مغرب سے عبرت پکڑنے کے بجائے خاندانی منصوبہ بندی کا مشورہ دے رہے ہیں اور قوم کو خودکشی کی راہ دکھا رہے ہیں۔ بقول اقبال:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی