جے آئی یوتہ کے زیر اہتمام قاضی حسین احمد مرحوم کی نایاب تصاویر کی نمائش

’’مجاہدِ ملّت قاضی حسین احمد اتحادِ عالم اسلامی کے عظیم داعی تھے، وہ ساری زندگی امتِ مسلمہ کو متحد کرنے، انہیں خوفِ خدا رکھنے والی جرأت مند قیادت فراہم کرنے، اور ظلم و جبر پر مبنی طبقاتی استحصالی نظام سے نجات دلانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عوام کو وہ حقوق دلانے کی کوشش کررہے ہیں جو جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے غصب کررکھے ہیں۔ ہم ملک کے مجبور اور محروم عوام کو اس نظام کے خلاف متحد کریں گے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی چھٹی برسی کی مناسبت سے الحمراء آرٹ کونسل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں منعقدہ قاضی صاحب کی نایاب تصاویر کی نمائش کے افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نمائش کا اہتمام جے۔ آئی۔ یوتھ لاہور نے کیا تھا۔ تقریب سے وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان، امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب امیرالعظیم، سابق امیر میاں مقصود احمد، مرکزی نائب قیم اظہر اقبال حسن، لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد، جے آئی یوتھ کے مرکزی صدر زبیر گوندل، ادارہ ثقافت و لسانیت کی ڈائریکٹر بیگم صغریٰ صدف، قاضی حسین احمد کے فرزندِ ارجمند آصف لقمان قاضی اور دخترِ نیک اختر سمیحہ راحیل قاضی نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میں طویل عرصے سے جاری میوزیکل چیئرگیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک پر مسلط ظالم جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کے مخصوص گروہ نے سیاسی جماعتوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، اور وہ گھوڑے کی طرح کبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی پر سواری کرلیتے ہیں۔ یہ مخصوص ٹولہ پارٹیوں کو استعمال کرکے اپنے مفادات پورے کرتا ہے۔ یہ لوگ عوام کے مسائل سے بالکل بے بہرہ ہیں، عوام کی پریشانیوں کے اصل مجرم یہی لوگ ہیں۔ مزدور اور کسان کی محنت کا پھل یہی جاگیردار اور کارخانہ دار کھا جاتے ہیں۔ کسان اور مزدور خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود بھوکے سوتے ہیں، ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں اور روزگار نہیں ملتا، جبکہ ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے اندرون و بیرونِ ملک دولت کے انبار لگالیے ہیں۔ جماعت اسلامی کسان کو کھیت اور مزدور کو کارخانے کی پیداوار میں حصہ دار بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ ہم پاکستان میں افراد اور پارٹیوں کی بادشاہت کے بجائے اللہ کا عطا کردہ عادلانہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی میں دیا جائے، اور کوئی غریب ظلم و استحصال کا شکار نہ ہو۔ لاکھوں لوگوں نے جانوں کی قربانی دے کر پاکستان بنایا تھا لیکن حکمرانوں نے ملک کے جغرافیہ اور نظریے کے ساتھ بے وفائی اور غداری کی، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ 71 سال میں کتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر قیام پاکستان کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ آج تک ملک میں ایک دن کے لیے اس کلمہ کی حکومت قائم نہیں ہوئی جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ ہماری سیاست، معیشت، عدالت اور تعلیم میں کسی جگہ بھی اس کلمہ کی حکمرانی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ قدرتی وسائل اور جفاکش و محنتی عوام کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہے۔ آج ہم کبھی ایک اور کبھی دوسرے ملک سے خیرات مانگتے ہیں۔ جس دن کوئی حکومت کے کشکول میں کوئی خیرات اور چندہ ڈال دیتا ہے، ہمارے وزیر خزانہ اور حکومت جشن مناتے ہیں۔
پاکستان اور عالم اسلام کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہمیں ایک نظریاتی قیادت کی ضرورت ہے جس کی امیدیں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور امریکہ کے بجائے اللہ پر ہوں۔ ایسی قیادت جو دنیا کے سامنے عالم اسلام کی ترجمان بنے۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں سے بھی عوام مایوس ہوچکے ہیں۔ ملک میں الیکشن ہوتے ہیں، لوگ نئی آرزوؤں اور امیدوں کے ساتھ ووٹ بھی ڈالتے ہیں، مگر ملک کے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوجاتے ہیں۔ حکومت تبدیل ہوتی ہے، نظام نہیں بدلتا۔ آج بھی ملک پر غربت، جہالت اور ظلم کے سائے ہیں۔ ہم ملک میں ذاتی بادشاہت نہیں اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ حکمرانوں نے ملک کے جغرافیے اور نظریے سے غداری اور بے وفائی کی ہے۔ پارلیمنٹ پر کلمہ تو لکھا ہوا ہے لیکن اس کلمے کی حکمرانی نہیں ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قاضی حسین احمد کی تصویر ہر چاہنے والے کے دل میں موجود ہے، وہ کسی ایک ملک کے لیے نہیں، پوری انسانیت کے لیے پیغام رکھتے تھے۔ کشمیر، فلسطین، مصر، سوڈان، افغانستان کے لوگ بھی قاضی حسین احمد کو اپنا قائد سمجھتے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے اعتراف کیا کہ وہ قاضی حسین احمد کو اپنا روحانی استاد تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جوش، ہمت اور ولولہ قاضی حسین احمد سے سیکھا ہے۔ میں نے 1996ء کے دھرنوں میں قاضی حسین احمد کو گولیوں اور لاٹھیوں کے سامنے ہمت و جرأت کے ساتھ ڈٹے ہوئے دیکھا ہے۔ میں عمران خان کی قیادت میں کاغذی شیروں، زرداریوں اور مداریوں کے خلاف قاضی حسین احمد کی سکھائی ہوئی جرأت کے ساتھ کھڑا ہوں، کیونکہ قاضی حسین احمد اور عمران خان کا موٹو ایک ہی ہے، ہم عمران خان کے ساتھ مل کر پاکستان کو مدینے کی ریاست بنائیں گے، اگر یہاں کوئی چور، لٹیرا اربوں کھربوں لوٹ کر سینے پر مونگ دلنے کی کوشش کرے گا تو اسے نشانِ عبرت بنادیں گے۔
فیاض الحسن چوہان کی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران اُس وقت خاصی بدمزگی دیکھنے میں آئی جب ایک نیوز چینل کے نمائندے نے اُن سے سوال کیا کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق، قاضی حسین احمد کے جانشین ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا ریاست مدینہ کا نعرہ جھوٹا وعدہ اور دھوکا ہے اور اس جانب ایک قدم بھی پیش رفت نہیں کی گئی۔ اس پر فیاض الحسن چوہان غصے میں آگئے اور کہا: عوام کو ہی نہیں میڈیا کو بھی سمجھ ہونی چاہیے، میڈیا کو شتر بے مہار نہیں ہونا چاہیے، میڈیا کو شرم آنی چاہیے کہ کس جگہ پر کیا سوال کرنا ہے، ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے جو تنازع کھڑا کرے۔ اس پر صحافیوں نے احتجاج شروع کردیا، جب کہ فیاض الحسن چوہان اپنی گاڑی کی جانب بڑھے تو صحافیوں نے ان کی گاڑی کا گھیراؤ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا، مگر وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ تاہم بدھ کے روز جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو صحافیوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کردیا، حزب اختلاف کے ارکان نے بھی اس موقع پر صحافی برادری کا ساتھ دیا۔۔۔ جس پر صوبائی وزیر چودھری ظہیر الدین اور خود فیاض الحسن چوہان نے بھی ایوان میں اور باہر بھی ایک روز قبل کے اپنے طرزعمل پر معذرت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ انہیں تقریب کے دوران ہی اہلیہ کی بیماری اور اسپتال لے جانے کی اطلاع ملی تھی جس پر وہ اپنے حواس اور جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ اس معذرت اور وضاحت کے بعد معاملہ فریقین میں صلح پر منتج ہوگیا۔