کشمیرکی سیاسی مزاحمتی تحریک

دنیا میں عالمی ایجنڈے کی حامل عسکری تحریکوں کوگزشتہ عشروں میں جس بے دردی سے کچل ڈالا گیا اس سے بھی زیادہ دردناک ان کی تباہی پر حاصل کی جانے والی داد وتحسین یا گہری خاموشی ہے۔ انہیں کچلنا چونکہ امنِ عالم اور بقائے انسانیت کے لیے ناگزیر بنادیا گیا تھا اس لیے یہ عمل کسی آنکھ کو اشک بار تو دور، نمناک کرنے کا باعث بھی نہ بنا۔ ایسی تحریکیں آندھی کی طرح اُٹھیں اور بگولوں کی طرح غائب ہوگئیں۔ القاعدہ سے داعش تک اس کہانی کے کئی کردار اور کئی نام ہیں۔ جن داخلی تحریکوں نے عالمی نظام سے مایوسی، غصے اور شکوے شکایات کے باوجود خود کو ان تحریکوں سے بریکٹ ہونے سے بچایا وہ آج بھی اپنی قوت کے بل پر جاری ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی مزاحمت کی تحریکیں اس لحاظ سے خوش قسمت ٹھیریں کہ گزشتہ دہائیوں میں گلوبل ایجنڈے کی حامل ان تنظیموں کی لہر میں اپنے داخلی کردار کو بچانے میں کامیاب ہوئیں۔
کشمیر اوّل وآخر ایک سیاسی مزاحمت کی تحریک تھی جس کی بنیاد حقِ خودارادیت کا مسلمہ اصول تھا۔ تین دہائیوں سے کشمیر میں ایک مسلح تحریک جاری ہے جس کا آغاز 1988ء میںجموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بینر تلے ایک آزاد اور سیکولر کشمیر کے نعرے کے ساتھ ہوا۔ لیکن چند ہی برس بعد حزب المجاہدین نے آگے بڑھ کر کشمیر کے غالب عسکری منظرنامے پر گرفت قائم کرلی اور لبریشن فرنٹ کے برعکس الحاقِ پاکستان کے نعرے کو آگے بڑھایا۔ اس تبدیلی سے کشمیری مزاحمت کی نظریاتی شناخت کا کانٹا تو تبدیل ہوا، مگر یہ داخلی اور مقامی رنگ میں ہی رنگی رہی، اور ان تنظیموں نے کشمیر سے باہر بلکہ بھارت تک بھی اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ حزب المجاہدین ابھی منظر پر پوری قوت سے موجود ہی تھی کہ لشکرِ طیبہ آگے بڑھی۔ قریب تھا کہ لشکرِ طیبہ کشمیر کی داخلی مزاحمت پر گلوبل ایجنڈے کا رنگ چڑھا لے، مگر اُس نے خود کو کسی بھاری بھرکم نظریاتی ایجنڈے کے بوجھ تلے دبانے کے بجائے کشمیر کی داخلی مزاحمت کے ساتھ وابستہ رکھا، یہاں تک کہ تنظیم نے کشمیری عسکری تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کی رکنیت اپنائے رکھی۔ القاعدہ کے عروج و زوال کے دور میں اس تنظیم نے خود کو کشمیر سے وابستہ رکھا، اور کشمیریوں نے خود کو القاعدہ سے پرہیز کی حد تک دور رکھا۔ اُسامہ بن لادن نے اپنے بیانات میں کشمیر پر بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر لب کشائی کی۔ اب القاعدہ کی جگہ گلوبل ایجنڈے کی علَم بردار تنظیم داعش کا ظہور ہوا، مگر ماضی کے برعکس متعدد بار وادی کی مزاحمت کے دروازے پر داعش کی دستک سنائی دیتی ہے۔ ماضی میں بھارتی ایجنسیاں داعش کی وادی میں موجودگی کا انکشاف بھی کرتی رہی ہیں اور پھر خود اس کے وجود اور موجودگی کی تردید بھی کرتی رہی ہیں، جبکہ کشمیر کی حریت پسند سیاسی اور عسکری قیادت کا القاعدہ کے بعد اب داعش کے حوالے سے بھی یہ سخت مؤقف ہے کہ ان کی تحریک کا کوئی گلوبل ایجنڈا نہیں ہے، اور اگر اس ایجنڈے کی حامل کوئی تنظیم وادی میں متعارف بھی ہوتی ہے تو اسے بھارتی ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ احتجاجی مظاہروں میں داعش کے پرچم پراسرار انداز میں وقتاً فوقتاً لہرائے جاتے رہے ہیں، مگر کچھ عرصہ قبل جامع مسجد سری نگر میں نمازِ جمعہ کے بعد چند نوجوان اچانک داخل ہوکر منبر پر چڑھ کر داعش کا سیاہ پرچم لہراتے پائے گئے۔ یہ نوجوان داعش کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
جامع مسجد کشمیر کا وہ قدیم تاریخی ادارہ ہے جس کا انتظام وانصرام صدیوں سے میرواعظ خاندان کے پاس ہے، اور اس وقت حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق اس مسجد کے نگران ہیں اور ہر جمعہ کو باقاعدہ اپنا خطبہ دیتے ہیں۔ یہ مسجد سری نگر کے اُس حصے میں واقع ہے جو تقسیم کے وقت سے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں پاکستان کے حامیوں کا گڑھ سمجھا جارہا ہے۔ جامع مسجد کے ساتھ انجمن نصرۃ الاسلام کے زیر اہتمام کئی دینی، اشاعتی ادارے بھی کام کررہے ہیں، اور یہیں میرواعظ خاندان کی سیاسی تنظیم عوامی مجلس عمل کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اس مسجد کا کشمیر کی مزاحمت اور سیاست میں گہرا کردار ہے۔ آج بھی کبھی مسجد کے در و دیوار پاکستان اور تحریک مزاحمت کی حمایت کے نعروں سے گونجتے ہیں، اور کبھی مسجد کے اطراف واکناف سے نوجوانوں کی ٹولیاں باہر نکل کر بھارتی فوج کے خلاف گلیوں کو میدانِ کارزار میں بدلتی ہیں۔ مقامی اور بھارتی ہی نہیں، بین الاقوامی میڈیا بھی جامع مسجد کے اس کردار کو رپورٹ کرتا اور اس پر نظر رکھتا ہے۔ گزشتہ برس ایک امریکی اخبار نے جامع مسجد کے اس کردار کو ایک مضمون میں موضوع بحث بنایا تھا۔ اب جامع مسجد کے منبر پر داعش کا پرچم لہرانا حالات کو ایک نئی نہج پر ڈالنے کے مترادف ہے۔
مشترکہ مزاحمتی فورس اورعسکری تنظیموں نے اس کوشش کو بھارتی ایجنسیوں کی کارستانی قرار دے کر اس کی بھرپور مذمت کی، حتیٰ کہ ان تنظیموں نے یوم تقدس جامع مسجد کے نام سے ایک دن بھی منایا۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت کشمیریوں کی سیاسی اور مقامی مزاحمت میں گلوبل ایجنڈے کا اضافہ کرکے بین الاقوامی برادری کے سامنے اس تحریک کو کچلنے کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کشمیر کے حالات سے دنیا لاتعلق سہی، مگر نہتے نوجوانوں کا لہو کہیں نہ کہیں اورکسی نہ کسی فورم پر بھارت سے اپنا حساب طلب کررہا ہے۔ بھارت کے پاس اٹھارہ ماہ کی بچی کو پیلٹ گن سے زخمی کرنے اور سولہ سالہ لڑکے کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اب کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی اور داعش جیسی سفاک تنظیموں سے جوڑ کر بھارت اپنے اقدامات کے لیے عذر اور بہانے تراش رہا ہے۔ اس کے لیے سیاسی تحریک کے مرکز جامع مسجد کو ایک سخت گیر گروہ کے زیراثر ثابت کرنا ضروری ہے۔
کشمیر میں اس وقت ذاکر موسیٰ نامی نوجوان کو داعش سے متاثرہ نوجوانوں کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ذاکر موسیٰ برہان وانی کے ساتھیوں میں شامل اور حزب المجاہدین کے اہم کمانڈر تھے، مگر انہوں نے حریت کانفرنس کے خلاف بیان دے کر سخت گیر نظریات کا پرچار کرنا شروع کیا۔ تب سے ذاکر موسیٰ کشمیر میں داعش کی پہچان بن چکے ہیں۔ گو کہ کشمیر میں بھارتی فوج کی سرگرمیوں اور انسانیت سوز واقعات کے خلاف غم وغصہ عروج پر ہے اور نوجوان اس غصے کا اظہارعملی طور پر سر ہتھیلی پر اُٹھاکر کررہے ہیں، اس کے باوجود ذاکر موسیٰ قابلِ ذکر عسکری قوت مجتمع نہیں کرسکے جو کشمیر میں پائے جانے والے گہرے سیاسی شعور کی غمازی ہے۔ کشمیری بھارت کے خلاف غم وغصے اور نفرت کے باوجود اسے اپنے پیمانے کی معین اور متعین حدود سے چھلکنے نہیں دیتے، یعنی وہ داعش جیسی تنظیموں کی جانب لڑھکنے سے گریز کیے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود جنازوں میں داعش کے سیاہ پرچموں اور داعش کی حمایت میں بلند ہونے والے نعروں سے اس تنظیم کے لیے نوجوانوں کے محدود سے حلقے میں کشش کے رجحان کی عکاسی ہورہی ہے۔