نوابشاہ: تعلیم کی زبوں حالی اور بند سرکاری تعلیمی ادارے

کاشف رضا
صوبہ سندھ کے وسط میں واقع نواب شاہ شہر اپنے محل وقوع کے اعتبار سے سندھ کا چوتھا بڑا اور قدیم شہر ہے۔1905 ء میں یہ شہر ضلع کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور اقتدار میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے ضلعی حیثیت کو بڑھا کر ڈویژن کا درجہ دیتے ہوئے اس کا نام تبدیل کرکے شہید بے نظیر آباد کردیا۔ عام انتخابات 2018ء میں خود پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ضلع نواب شاہ کے قومی حلقے سے منتخب ہوئے ہیں۔ نواب شاہ کی شہری آبادی تجارت سے، جبکہ دیہی آبادی زراعت سے منسلک ہے۔ معاشی صورت حال اچھی ہے، جبکہ دینی مزاج بھی کم نہیں ہے۔ قدیم مساجد نظر آتی ہیں تو اولیاء کرام کے مزار بھی موجود ہیں۔
تعلیمی صورت حال یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد یہ اطلاع ملتی ہے کہ آج ایک اور اسکول بند ہو گیا۔ ضلع بھر میں طلبہ کے لیے اس وقت 2172 اسکول ہیں جن میں2006 پرائمری، 45 مڈل، 49 ایلیمنڑی، 62 سیکنڈری، 10ہائی سیکنڈری ہیں، جبکہ طالبات کے لیے اسکولوں کی کُل تعداد 467 ہے۔ ان میں پرائمری اسکول409، مڈل اسکول 15، ایلیمنڑی 14، سیکنڈری اسکول 27، جبکہ ہائی سیکنڈری اسکولوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق2 بتائی جاتی ہے۔ اس وقت مختلف سرویز کے مطابق پرائمری اسکولوں میں داخل نہ ہونے والے بچوں کی تعداد 50000 سے زائد ہے، جبکہ پرائمری اسکولوں سے پاس ہونے والے 25000 سے زائد طلبہ مڈل اور ہائی اسکول میں داخل ہی نہیں ہوپاتے۔ دوسری جانب 250سے زائد اسکول تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود تیزی سے بند ہوئے جس کی بنیادی وجہ اساتذہ کرام کا ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں تبادلہ ہونا، تبدیل ہونے والے استاد کی جگہ تقرر نہ کرنا، اسکولوں میںمدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد فارغ ہونے والے استاد کی جگہ نئے استاد کا تقرر نہ کرنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض اسکولوں کی صورت حال ایسی بھی دیکھی گئی کہ وہاں پر موجود واحد استاد کا تبادلہ کرکے اس اسکول کو بند کردیا گیا۔ جب سرکار یہ کہہ رہی ہو کہ 674 اسکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں، 985 اسکولوں میں بجلی سرے سے موجود ہی نہیں، 697 اسکولوں کی چار دیواری تک موجود نہیں، اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ بند اسکولوں، غیر حاضر تدریسی و غیر تدریسی عملے کی رپورٹ، اسکولوں میں بنیادی ضروریات کی اشیا کی عدم فراہمی کی ماہوار رپورٹ مرتب کرکے اسکولوں کی مانیڑنگ کرنے والا عملہ ہر ماہ اعلیٰ سرکاری افسران کو ارسال کرتا ہے لیکن اس رپورٹ کو سیاسی سفارش اور رشوت کی بھینٹ چڑھانے میں کتنی دیر لگتی ہے! 2018ء میں سندھ کے تعلیمی اداروں کی سب سے بڑی 26 کروڑ کی کرپشن جس میں اساتذہ یونین اور محکمہ خزانہ شامل تھا، زبان زد عام ہے۔ جس کی نیب نے تحقیقات کرکے کرپشن کرنے والے عملے کی نشاندہی کی، اور اب یہ پیسہ قسطوں میں وصول کیا جارہا ہے۔ سابقہ ڈی سی نعمان صدیقی لاٹکی نے اس صورت حال کے پیش نظر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کمیٹی کا سہ ماہی اجلاس ہوا کرتا تھا، جس کی صدارت وہ خود کیا کرتے تھے۔
اس کمیٹی کے پیش نظر جو امور ہوتے تھے اُن میں بند اسکولوں کے اساتذہ کی غیر حاضری، اسکولوں میں سہولیات کا فقدان، بجٹ کا درست طریقے سے ملنا اور نہ ہی اس کا استعمال ہونا، اسکولوں کے اسپیسفک بجٹ کے عہدے پر تقرری نہ ہونا اور اس بجٹ میں بڑے پیمانے پر خوردبرد کرنے کی تحقیقات شامل تھے۔ لیکن اس وقت اس کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر کا ہونا خود سوالیہ نشان بن گیا ہے۔اس صورت حال پر ماہر تعلیم، ادیب، مصنف، دانشور، مترجم اور تعلیمی عمل پر گہری نگاہ رکھنے والے زاہد حسین کیریو کا کہنا ہے کہ ضلع نواب شاہ میں تعلیمی معیار کی ابتری کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ جائزے کے نظام کا نہ ہونا، تعلیمی بحٹ کا کم ہونا، کرپشن کا بڑھنا، اخلاقی گراوٹ، حکومت کی تعلیم میں عدم دلچسپی اور سب سے بڑھ کر میرٹ کی بالادستی کا خاتمہ ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے بند ہورہے ہیں تو اس میںقصور عوام کا بھی ہوتا ہے۔ عوام اپنا بنیادی حق لینے کے لیے بھی سڑک پر نہیں آتے کیونکہ اسے اپنا مسئلہ سمجھتے ہی نہیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جسے آپ اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں اس کے لیے ہر جگہ جاتے اوراس قانونی جنگ لڑتے ہیں، لیکن پوری قوم فکری انحطاط کا شکار ہے۔ ملک کے معیار تعلیم کو جانچنے کا کوئی مربوط اور منظم نظام نہیں ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ سرکاری اسکولوں کی بندش سے بہت خوش ہوتی ہے، وجہ یہ ہے کہ انگلش گرامر اسکولوں بیکن ہاؤس اور لارنس کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے والوں کی نظر میں ان کے بچے اس سرکل میں بڑھتے چلے جاتے ہیں جہاں مقابلے کے امتحانات کے ذریعے ان کو ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں آتی ہے۔ گویا ننانوے فیصد عوام پر حکمرانی کرنے والا ایک فیصد طبقہ اس حد تک سوچتا ہے۔ یہ ہمارے متوسط اور غریب طبقے کا المیہ ہے۔ نواب شاہ میں اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی کم از کم فیس ڈھائی ہزار روپے ہے جبکہ آمد و رفت کا کرایہ دو ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے ممتاز ماہر تعلیم گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز عالم سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے سامنے تعلیم اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے کئی اسباب ہیں جن میں کرپٹ افسران کی سیاسی و سفارشی بھرتی، بجٹ کا درست استعمال نہ ہونا، نقل مافیا، تعلیمی نصاب کا معیاری اور جدید خطوط پر استوار نہ ہونا، تعلیمی معیار اور اداروں کا محاسبہ نہ ہونا، تعلیمی اداروں اور امتحانی بورڈز میں کرپشن کا بڑھتا ہوا گراف، جب کہ جانچ پڑتال کے لیے تعلیمی بورڈز کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں کی ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے نصابی کتب میں املا کی بے تحاشہ غلطیوں پر نصاب پر نظرثانی نہ کرنا ہے۔ پھر آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ کا بچہ جس تعلیمی ادارے میں پڑھ رہا ہے وہ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد اس ملک کا بہترین سرمایہ ثابت ہوگا؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی نظریاتی، فکری، علمی، تہذیبی تربیت اس حوالے سے کی ہی نہیں جا سکی جس کی آپ کے ملک کے اداروں کو ضرورت ہے۔ طویل تعلیمی عمل سے وہ یہ سیکھتا ہے کہ کرپشن کیسے کی جاتی ہے، سفارش کے ذریعے اعلیٰ عہدوں کا حصول کس طرح سے ہوتا ہے، میرٹ کو کس طرح سے پامال کیا جاتا ہے۔ اس نے سچ بولنے کی تربیت، عہد کی پابندی، وقت کی پابندی اور کتاب سے محبت سیکھی ہی نہیں تو پھر وہ سب کچھ کرے گا جس کی اس نے اپنے استاد، تعلیمی ادارے کے منتظم اور امتحانی نظام سے گزرنے کے عمل سے سیکھا ہے۔ اس اخلاقی کمزوری کو وہ مسلسل اپنے قلب و نظر کا نہ صرف حصہ بناتا ہے بلکہ آنے والی نسل میں بھی منتقل کر رہا ہے۔ میٹرک سے لے کر ماسٹر لیول تک اور پھر ڈگری کے حصول کے بعد نوکری، اور نوکری کے بعد اداروں کی ٹوٹ پھوٹ میں اس عمل کو اتنے برے انداز سے نظرانداز کر رہے ہیں کہ اب ہم یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کچھ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ یہ مشق ہم خود کررہے ہوتے ہیں، ہمیں نہ صرف خود کو تبدیل کرنا پڑے گا،بلکہ اس حوالے سے تحریک برپا کرنا ہوگی، طبقاتی تقسیم کی ناہمواریوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔