ڈاکٹر شاہد ضمیر کے تحقیقی مقالے’’اُردو ڈرا مےکے سماجی و ثقافتی اثرات‘‘کی پذیرائی

ڈاکٹر شاہد ضمیر علمی، ادبی حلقوں کی فعال شخصیت ہیں، اُردو لغت بورڈ کی مجلسِ ادارت کے رکن ہیں، ماہر لسانیات ہونے کے حوالے سے لغت نویسی میں خدمات جاری ہیں۔ علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے ماموں نسیمؔ درانی مدیر ’’سیپ‘‘ نے ادبی ذوق کو جِلا بخشی۔ شریکِ حیات نجم السحر بھی لغت نویس ہیں اور عرصۂ دراز تک اردو لغت بورڈ میں خدمات انجام دیتی رہیں۔ آپ کتابوں سے بہت محبت کرتے ہیں، گھر میں اچھی خاصی لائبریری قائم کررکھی ہے، خوش قسمتی سے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر یونس حسنی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے اساتذہ نصیب ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے اردو تھیٹر اور ڈرامے کے حوالے سے تحقیقی کام کا مشورہ دیا اور ڈاکٹر شاہد ضمیر نے اسے عالی جی کی زندگی ہی میں مکمل کیا۔ آپ بنیادی طور پر انجینئر ہیں۔
آپ کے زیر نظر مقالے ’’اردو ڈراما کے سماجی اور ثقافتی اثرات‘‘ میں 1947ء سے تاحال خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے جس کی نگرانی ڈاکٹر سمیرا بشیر نے کی۔ اس حوالے سے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے جو علاء الدین خانزادہ، زیب اذکار حسین، موسیٰ کلیم کی سرکردگی میں نہایت فعال ہے، تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا، جس کی صدارت جسٹس(ر) حاذق الخیری نے کی، آپ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’’ڈاکٹر شاہد ضمیر کا تحقیقی مقالہ دراصل ڈرامے کی تاریخ ہے جسے اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی رہنمائی کے لیے شائع کرنا بہت ضروری ہے، اور یہ کام انجمن ترقی اردو کو کرنا چاہیے۔‘‘
مجلسِ صدارت میں شامل شیخ الجامعہ وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر الطاف حسین نے کہا کہ آغا حشر کاشمیری جیسے ڈرامے آج بھی لکھے جانے چاہئیں، ہمیں اپنے کام کے معیار میں اضافہ کرناچاہیے، اور ڈاکٹر شاہد ضمیر نے اپنے تحقیقی مقالے میںمعیارپر زور دیا ہے جس پر میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ مہمانِ خصوصی انجمن ترقی اردو کے صدر ذوالقرنین جمیل راجو نے ڈرامے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں صاحبِ صدر جسٹس (ر) حاذق الخیری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو کی جانب سے اس تحقیقی مقالے کو شائع کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔مہمانِ اعزازی (نگران مقالہ) ڈاکٹر سمیرا بشیر نے بتایا کہ ڈاکٹر شاہد ضمیر ایک محنتی اور ذہین طالب علم ہیں، انہوں نے ڈگری کے حصول اور وظیفے کے لالچ میں یہ کام نہیں کیا، ان کا مقالہ اردو ڈرامے پر لکھے گئے مقالوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ معروف صحافی، افسانہ نگار، شاعر اور ادبی کمیٹی کے روحِ رواں زیب اذکار حسین نے فرداً فرداً نام لے کر تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے کام سے عشق کیا ہے اور ایک سچے عاشق کی طرح اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ انوشا شاہد (بیٹی) نے والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں تربیت دی ہے کہ جو کام بھی کرو اسے دیانت داری سے مکمل کرو، اس بات پر آپ نے خود بھی عمل کیا، اور دورانِ تحقیق آپ کی ایک آنکھ میں تکلیف ہوئی مگر آپ نے ایک سال تک آپریشن نہ کرایا۔ معروف صحافی خرم سہیل نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا تھیٹر سے تعلق نہیں رہا، اگر ہوتا تو یہ کام نہیں ہوسکتا تھا۔ اویس ادیب انصاری نے بھی تحقیقی مقالے کی اشاعت کا مطالبہ کیا۔ معروف معلم مجید رحمانی نے مقالے کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ خصوصاً نگران مقالہ ڈاکٹر سمیرا بشیر کا ہر جگہ احترام کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی مقالہ آئندہ تحقیق کرنے والوں کی بنیاد ہے۔ افسانہ نگار نغمانہ شیخ نے بتایا کہ پہلے ڈرامے میں بدتہذیبی نہیں ہوتی تھی، آج بدتمیزی ہورہی ہے۔
طارق بن آزاد نے جو اسی حوالے سے ایم فل کررہے ہیں، کہا کہ ڈراموں کی وجہ سے ہمارے ہاں بہت سی رسمیں شامل ہوئیں اور بہت سی خارج ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مقالے سے وہ نام بھی ہمارے سامنے آئے جنہیں ہم دوسرے حوالوں سے جانتے تھے۔ انہوں نے نصیر ترابی کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جو بوجہ ناسازیٔ طبع تشریف نہ لاسکے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ ہمارے ہاں بہت زیادہ اچھے ڈرامے لکھے گئے، ہندوستان کے 56 شہر برباد ہوئے تو پاکستان میں ایک شہر کراچی آباد ہوا اور اس نے ’’لال قلعے سے لالوکھیت تک‘‘ اور ’’تعلیم بالغان‘‘ جیسے ڈرامے دیے، فاطمہ ثریا بجیا کے معاشرتی ڈرامے جب پی ٹی وی سے نشر ہوتے تھے تو شہر میں سناٹا چھا جاتا تھا ۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر نے ایک مشکل کام کو کرکے دکھایا جس پر وہ ہم سب کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر شاہد ضمیر نے مقالے کی سمری پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نو دس برسوں میں یہ کام مکمل کیا ہے۔ ڈراما عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’کرکے دکھانا‘‘ ہیں۔ آج کل کے ڈرامے معاشرہ بنا نہیں رہے بلکہ معاشرہ بگاڑ رہے ہیں۔ کامران مغل نے ڈاکٹر صاحب کا مختصر تعارف پیش کیا جبکہ موسیٰ کلیم نے دورانِ نظامت اچھے اور برجستہ جملوں سے مقررین کو اظہارِ خیال کی دعوت دی اور بتایا کہ ادبی کمیٹی اس سال بچاس سے زائد ادبی تقریبات منعقد کرچکی ہے۔ اس موقع پر مجلسِ صدارت، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزازی کو گلدستے پیش کیے گئے، جبکہ نفیس احمد خان نے اسٹوڈنٹس فورم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کو تعریفی شیلڈ پیش کی۔ اس موقع پر اربابِ علم دانش کے ساتھ کرکٹر معین خان، شگفتہ فرحت، طاہر سلیم سوز، شکیل وحید، شکیل احمد ستی ایڈووکیٹ، عثمان دموہی، سخاوت علی نادر، وقار زیدی و دیگر کے علاوہ اہلِ خانہ نے بھی شرکت کی۔