خوش خلقِ شیریں مکال حسن صہیب مراد!۔

تحریکِ اسلامیکی عظیم شخصیت، اپنے دور کے بہترین مربی اور دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامتِ اعلیٰ پر فائز رہنے والے قائد جناب خرم مراد مرحوم کے آنگن میں جو غنچے اور کلیاں خوشبو بکھیرتی رہیں، ان میں حسن صہیب مراد کا نام اپنے عظیم والد کی طرح جدید تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ غنچہ اس بابرکت آنگن میں 22 اکتوبر 1959ء کو کھلا۔ جناب خرم مراد کے بیٹوں میں اس ہونہار بِروا کا دوسرا نمبر تھا۔ برادر عزیز احمد مراد، خرم صاحب کے بڑے بیٹے ہیں۔ فاروق اور اویس کا بالترتیب تیسرا اور چوتھا نمبر ہے۔ چار بھائیوں کی دو بہنیں بھی ہیں۔
محترم خرم مراد مرحوم پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے مگر اللہ نے بچپن ہی سے ایسا علمی و دینی ذوق عطا فرمایا تھا کہ قرآن، سنت اور جدید علوم پر بہت گہری نظر تھی۔ کئی دینی موضوعات پر بہترین انداز میں لکھا اور عظیم علمی ورثہ چھوڑ گئے۔ وہ اپنے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے ایک استاد اور مربی تھے۔ اپنی تربیت کے ذریعے مرحوم نے بلاشبہ ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ ان کا اندازِ تربیت اتنا پیارا اور مؤثر تھا کہ ان کے زیر تربیت رہنے والے احباب آج بھی ان کی مجالس کو یاد کرتے ہیں تو ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ گھر سے باہر اتنا بڑا کام کرنے والے اس تاریخی کردار کے حامل رہنما نے اپنے گھر کے اندر بچوں کی تربیت کس انداز میں کی ہوگی، کوئی راز نہیں۔
خرم مراد خود انتہائی ذہین انسان تھے۔ ان کے تمام بچے بھی اللہ کے فضل و کرم سے ذہانت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں۔ حسن صہیب نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد چونکہ خرم مراد مرحوم ڈھاکا چلے گئے تھے ، اس لیے سارا خاندان بھی وہاں منتقل ہوگیا۔ اس لیے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ڈھاکا کے تعلیمی اداروں میں جاری رہا۔ کالج کے زمانے میں حسن صہیب کراچی منتقل ہوئے اور این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے اعزازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کی۔ دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے، مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور کراچی جمعیت کی نظامت کا فریضہ ادا کرتے رہے۔
صہیب بھائی سے میری پہلی ملاقات کراچی میں اُس وقت ہوئی، جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔ میں نیروبی سے پاکستان آرہا تھا۔ اُس زمانے میں نیروبی سے جدہ آیا کرتا تھا اور پھر عمرہ کرنے کے بعد جدہ سے کراچی ۔ نیروبی یا جدہ سے براہِ راست لاہور کی پرواز نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے جاتے اور آتے ہوئے کراچی رکنا پڑتا تھا۔ سید منور حسن صاحب کے حکم کے مطابق بیرون ملک سے آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی دو دن یا کم از کم ایک شب و روز کراچی میں قیام کرنا ضروری تھا۔ یہ سید صاحب کی مثالی محبت کی یادگار مثال ہے، جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ شروع میں تو سید صاحب ائیرپورٹ پر استقبال کرکے اس عام کارکن کی عزت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ میں نے دست بستہ عرض کیا کہ آپ ائیرپورٹ پر نہ آیا کریں، بس ڈرائیور کو بھیج دیا کریں۔ اب سید صاحب ڈرائیور کو بھیجتے تو ساتھ دفتر کا کوئی کارکن یا اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی ذمہ دار بھی ہوتا۔ پہلی مرتبہ جب برادرِ عزیز حسن صہیب مراد سے ائیرپورٹ پر ملاقات ہوئی تو چہرے پر انتہائی دلکش مسکراہٹ اور خوب صورت چمک دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ پھر انھوں نے جب اپنا تعارف کروایا تو گویا یہ ’’سونے پر سہاگہ‘‘ کا مصداق تھا۔ خرم مراد مرحوم سے تحریکِ اسلامی کے کس کارکن کو محبت و عقیدت نہ تھی؟
حسن بھائی کے ساتھ ائیرپورٹ سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی جانے تک بہت سے موضوعات پر انتہائی دلچسپ تبادلہ خیال ہوا۔ اسی ملاقات میں محترم خرم مراد اور تسنیم عالم منظر مرحوم کی بہت سی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔ حسن بھائی نے تسنیم صاحب کو چھوٹی عمر میں اُس وقت دیکھا تھا، جب مرحوم اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ میںنے اپنی یادیں حسن بھائی کو سنائیں اور تسنیم بھائی کے مظفرآباد میں دریا میں ڈوبنے کا واقعہ بتایا تو اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: جس شخص کی جہاں موت لکھی ہو وہ خود وہاں پہنچ جاتا ہے۔ کیا معلوم تھا کہ خود یہ ہونہار نوجوان اسی طرح ایک دن شمالی علاقے میں پہاڑوں کے درمیان شہادت سے ہم کنار ہوجائے گا۔ یونیورسٹی میں چار سال انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت کا حق بھی ادا کیا اور اس کے ساتھ ہر سال امتحانات میں ایوارڈ حاصل کرتے رہے۔ حسن صہیب مراد بہت اعلیٰ پائے کے انجینئر تھے۔ کراچی کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ امریکہ میں انھوں نے واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی، جبکہ برطانیہ میں یونیورسٹی آف ویلز سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ ان دونوں شعبوں یعنی بزنس ایڈمنسٹریشن اور انجینئرنگ میں حسن صہیب پاکستان ہی نہیں بیرونِ پاکستان بھی ایک بہت معتبر نام شمار ہوتا تھا۔
حسن مراد بھائی سے کافی قریبی تعلقات رہے۔ پہلے دن جو مسکراہٹ اُن کے چہرے پر دیکھی تھی، حقیقت یہ ہے کہ زندگی بھر وہ سدا بہار رہی۔ حیاتِ مستعار میں خوشی اور غم ہر طرح کے مواقع آئے، کئی مواقع پر مجالس میں گفتگو اور بحث کے دوران کھچاؤ بھی واقع ہوا، مگر مجال ہے کہ اس فرشتہ صفت انسان کے چہرے پر مستقل کھیلنے والی وہ مسکراہٹ کبھی غائب ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ساخت اور سیرت میں ظاہری اور باطنی سب خوبیاں اپنی قدرتِ کاملہ سے ودیعت فرمائی تھیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد صہیب بھائی لاہور منتقل ہوگئے اور یہاں ایک چھوٹے سے تعلیمی ادارے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ قرآن مجید سے خرم مراد مرحوم کا بھی بہت گہرا تعلق تھا اور ان کے بیٹے حسن صہیب کی بھی یہی پہچان تھی۔ جب بھی ملاقات ہوتی، مختلف دینی موضوعات پر خوب مکالمہ رہتا۔ اسلامی لٹریچر بالخصوص تفسیرِ قرآن، سیرتِ طیبہ اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جدید علوم اور مغربی دنیا کے افکارو تہذیب اور ثقافت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ اور آزما چکے تھے۔
ایک ملاقات میں جو یو ایم ٹی کے نئے کیمپس میں مرحوم کے دفتر میں ہوئی، سیرت اور تاریخ کی مختلف کتب کا حوالہ ان کی زبان سے سنا تو بے انتہا مسرت ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ سیرت ابن کثیر، تاریخ طبری اور سیرت ابن ہشام ان دنوں ان کے زیر مطالعہ ہیں۔ طبری کا تلفظ ٹھیک ادا نہ کیا تو میں نے تصحیح کی، اس پر شکریہ ادا کیا۔ قرآن سے عشق کی حد تک تعلق تھا اور قرآن یاد کرنے کی بھی کوشش کررہے تھے۔ ان کی وفات پر جب میں ان کے گھر حاضر ہوا تو برادرانِ عزیز احمد مراد، فاروق مراد اور خرم بھائی کے داماد سید بلال صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ برادرِ محترم اسامہ مراد (خرم بھائی کے برادرِ خورد) سے بھی نشست رہی۔ غم کی ان گھڑیوں میں احمد مراد نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی سے کہا کرتے تھے کہ میری نماز جنازہ تم پڑھاؤ گے، مگر آج وہ مجھے غم زدہ چھوڑ کر منزل پر پہنچ گیا ہے۔ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے احمد بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں بھی اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ کرسکا۔ برادرِ عزیز کی جدائی اور وہ بھی اچانک، بلاشبہ غم کو دوبالا کررہی تھی۔
اسی ملاقات میں احمد بھائی نے یہ بھی بتایا کہ حسن نے پندرہ پارے یاد کرلیے تھے اور اس کا عزم تھا کہ پورا قرآن یاد کرلے، لیکن اجل مسمّٰی نے مہلت نہ دی۔ احمد بھائی نے ایک یادگار واقعہ سنایا۔ کہنے لگے: حسن بھائی امریکہ آئے اور ایک ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے، جو قرآن زیر مطالعہ رہتا تھا، ہوٹل سے ائیرپورٹ روانہ ہوتے ہوئے یاد نہ رہا اور وہ ہوٹل میں رہ گیا۔ ائیرپورٹ سے مجھے فون کیا کہ میرا قرآن ہوٹل میں رہ گیاہے، وہاں سے جا کر لے لیں اور اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ چنانچہ میں نے ہوٹل جاکر وہ قرآن پاک لیا اور میرے پاس محفوظ ہے۔ نماز جنازہ کے موقع پر بھی احمد مراد نے اپنے بھائی کی یادوں کے کئی ایمان افروز واقعات سنائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ احمد بھائی خود اپنے برادرِ عزیز کا جنازہ پڑھاتے۔ بہرحال ان کی نماز جنازہ مشہور مبلغ اور عالم حضرت مولانا طارق جمیل صاحب نے پڑھائی اور اس سے قبل بہت مؤثر خطاب بھی فرمایا۔ یو ایم ٹی کے گراؤنڈ میں یہ ایک بہت بڑا جنازہ تھا۔
قرآن سے تعلق کی بات ہورہی ہے تو یاد آیا کہ جب حسن مراد نے اپنے تعلیمی ادارے کا آغاز کیا تو اس کا نام الف لام میم رکھا۔ قرآنِ عظیم الشان میں ال م بطور حروف مقطعات کئی سورتوں کے آغاز میں استعمال ہوا ہے۔ ان حروف کے معنی تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے مگر بعض مفسرین نے ان کے معنی بیان کیے ہیں، جو قرآن مجید سے پوری طرح متعلق ہیں۔ عربوں کے ہاں کسی نام کے پہلے حرف یا آخری حرف سے پورا نام مراد لیا جاتا تھا۔ الف اللہ کا مخفف ہے جو قرآن مجید بھیجنے والا ہے۔ لام جبریلؑ کا مخفف ہے جو قرآن پاک کو اللہ پاک کے حکم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کرنے کے مکلف ٹھیرے۔ میم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جن کے قلبِ مصفّٰے پر کلام ربانی نازل ہوا۔ یوں الف، لام، میم کا ایک خاص مقام ہے۔
حسن بھائی نے ان الفاظ کو انگریزی میں قدرے تبدیل کرکے استعمال کیا۔ انگریزی میں یہ ILM بنا، یعنی انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ۔ اسی انسٹی ٹیوٹ سے ترقی کرتے ہوئے انھوں نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کی۔ اب ماشاء اللہ یہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے اور اپنی رینکنگ کے لحاظ سے بھی اعلیٰ پائے کی جامعات میں شمار ہوتا ہے۔ جب نیا کیمپس نہیں بنا تھا اور برکت مارکیٹ میں ایک بلڈنگ کے اندر یہ ادارہ چل رہا تھا تو میرے بیٹے ڈاکٹر حافظ ہارون ادریس یہاں کی لائبریری کے انچارج تھے۔ اب حسن بھائی سے رابطہ بھی قدرے زیادہ ہوگیا اور ان کی بہت سی مزید خوبیاں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ بعد میں ہارون اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں چلا گیا، مگر یہ سب کچھ حسن صہیب صاحب کی رضامندی سے ہوا۔ جب ہارون جرمنی میں ایچ ای سی کی اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کے لیے گیا تو حسن صہیب صاحب نے خصوصی طور پر مبارکباد دی اور خوشی کا اظہارکیا۔ حسن مرحوم خوش خلق، شیریں مقال اور اعلیٰ خصال کے حامل تھے۔ وہ اپنے پورے حلقۂ احباب میں، جو خاصا وسیع تھا، ہر ایک کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ ایسے لوگوں کی صفت ہوتی ہے، جن میں خودغرضی نام کو نہیں ہوتی، اخلاص اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے اور پوری انسانیت سے محبت ان کی رگ رگ میں رچی بسی ہوتی ہے۔ دنیا میں یہ لوگ خال خال ملتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے مختلف شعبوں اور کمیٹیوں میں حسن صہیب بھائی کے ساتھ طویل نشستیں کرنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ دھیمے انداز میں گفتگو کرتے اور گفتگو کے دوران مسکراہٹ ہمیشہ ان کے چہرے پر کھیلتی رہتی۔ حسن صہیب کئی قومی اور بین الاقوامی فورمز اور اداروں کے رکن تھے۔ ہمارے ساتھ جماعتی اداروں میں بھی ان کی خدمات انتہائی قابلِ تحسین تھیں۔ اسلامی نظامتِ تعلیم، آفاق اور تحقیق کے میدان میں تحقیقی اداروں میں بھی بلا معاوضہ ہر طرح خدمات کے لیے حاضر رہتے تھے۔ برطانیہ میں قائم انٹرنیشنل این جی او مسلم ایڈ کی خدمات بھی پوری دنیا میں فلاحِ انسانیت کے لیے وقف ہیں۔ یہ مخلص احباب برطانیہ کے مخیر حضرات سے اعانتیں جمع کرتے ہیں اور دنیا بھر میں جہاں کہیں کوئی آبادی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتی ہے تو اس کی مدد کے لیے فی الفور وہاں پہنچتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے مختلف منصوبہ جات پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ جب اس ادارے نے پاکستان میں اپنی شاخ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے ذمہ داران نے مختلف احباب سے مشاورت کی جس کے نتیجے میں پاکستانی شاخ کے لیے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کو بانی چیئرمین مقرر کیا گیا۔ حسن مراد مرحوم کی خدمات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام خدمات کو ان کے حق میں قبول فرماتے ہوئے انھیں بہترین اجر سے نوازے۔ یہ بندہ بلاشبہ خالق کی بندگی اور خلق کی خدمت کا بہترین نمونہ تھا۔
میرے پوتے حافظ طلحہ ادریس اور میرے بھانجے حافظ ذوالکفل نے ایف ایس سی کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ تاہم یو ای ٹی میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ میں ان کے مطلوبہ شعبے میں ان کا نام نہ آسکا۔ اب ان کے داخلے کے سلسلے میں حسن بھائی سے رابطہ کیا۔ انھوں نے نمبر پوچھے، جب بتایا گیا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ دونوں کو یو ایم ٹی میں بھیج دیں، ان کی فیس برائے نام ہوگی۔ میں نے کہا یہ تو آپ کا بڑا احسان ہے، تو کہنے لگے: نہیں جی، ان بچوں کی اپنی قابلیت کا تقاضا ہے کہ یونیورسٹی ان کی سرپرستی کرے۔ میں نے ان کا بھی اور پروفیسر خورشید صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا۔ خورشید بھائی سے بھی میں نے تذکرہ کیا تھا کہ میرے دو برخوردار یونیورسٹی میں داخلے کے خواہش مند ہیں۔ انھوں نے بھی یہی تجویز دی کہ یو ایم ٹی میں بھیج دیں، حسن صہیب سے میں بھی کہوں گا۔ غالباً انھوں نے بھی حسن بھائی سے کہا ہوگا، چنانچہ ان دونوں نے بی ایس الیکٹریکل اچھے نمبروں کے ساتھ یو ایم ٹی سے پاس کیا۔
یو ایم ٹی میں اپنی تعلیم کے دوران طلحہ کا حسن صہیب صاحب سے بہت قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ وہ اس کی سرپرستی بھی کرتے تھے اور اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔ مجھ سے بھی ہمیشہ حُسنِ خلق کا تذکرہ فرماتے جسے سن کر مجھے یک گونہ اطمینان نصیب ہوتا۔ خود طلحہ ان کے اخلاق اور علمی استعداد سے بہت متاثر تھا۔ اسے اگر کچھ تحفظات تھے تو محض یہ کہ حسن صہیب صاحب کی یونیورسٹی اب اس اسٹیج پر پہنچ چکی ہے کہ مکمل کامیابی کے ساتھ طلبہ و طالبات کے الگ الگ کیمپس قائم کیے جاسکتے ہیں، مگر اس جانب پیش رفت نہیں ہورہی۔ ممکن ہے مرحوم کے ذہن میں آگے چل کر اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی منصوبہ ہو۔ بہرحال حسن بھائی کے خطبات ِ جمعہ اور دیگر مواقع پر لیکچرز سے طلبہ و طالبات، اساتذہ اور دیگر اسٹاف ممبرز بہت متاثر ہوتے تھے۔
حسن صہیب کی اہلیہ عزیزہ ڈاکٹر نوشابہ حسن بھی اپنے میاں کی طرح بہت اعلیٰ اخلاق سے مزین ہیں۔ موصوفہ پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے کراچی میں داؤد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے الٹراساؤنڈ میں اسپیشلائزیشن کی۔ وہ پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتی ہیں اور منصورہ ہسپتال میں بھی کچھ عرصہ بطور ریڈیالوجسٹ خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ ان کے طرزِعمل سے اکثر مریض خواتین بہت خوش ہوکر جاتی تھیں، ورنہ عمومی طور پر ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر خواتین و حضرات سے مریضوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو شکایات ہی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نوشابہ محض اپنے پیشے ہی میں مہارت نہیں رکھتیں بلکہ اللہ نے انھیں اپنے عظیم میاں کی طرح مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کی سعادت بھی بخشی ہے۔ تحریک اسلامی حلقہ خواتین کی طرف سے مفلس اور نادار خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے کئی سال قبل بیٹھک اسکول سسٹم کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اس میں ہماری مختلف بہنوں نے بہت محنت بھی کی اور اس کے لیے فنڈز بھی جمع کیے۔ ڈاکٹر نوشابہ اس تنظیم کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی رہتی ہیں۔ اللہ کرے ان کی مزید خدمات سے یہ کارِ خیر اپنے اثرات معاشرے میں دور تک پھیلا سکے۔ ڈاکٹر نوشابہ ایک بہت اچھی مدّرسہ قرآن بھی ہیں اور دروسِ حدیث میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ اللہ اُن کی ان خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے۔
اللہ تعالیٰ نے حسن بھائی کو ایک بیٹا ابراہیم مراد اور ایک بیٹی مریم نور عطا فرمائے۔ بیٹا بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کرنے کے بعد یو ایم ٹی میں اپنے والد مرحوم کی زندگی ہی میں مصروفِ عمل ہوگیا تھا۔ بیٹی مریم شادی شدہ ہے اور اس نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ یو ایم ٹی کے ایک شعبے میں ڈائریکٹر ہے۔ حسن بھائی کی وفات کے بعد ابراہیم مراد یو ایم ٹی کے ایگزیکٹو چیئرمین ہیں۔ یو ایم ٹی کی انتظامیہ میں حسن صاحب کے بڑے بھائی احمد مراد (مقیم امریکہ) چیئرمین اور چھوٹے بھائی فاروق مراد (مقیم برطانیہ) وائس چیئرمین مقرر ہوئے ہیں۔ ریکٹر کے منصب پر ڈاکٹر محمد اسلم فائز ہیں۔ عابد شیروانی صاحب جو حسن بھائی کے ساتھ شروع سے شریکِ عمل رہے، آج کل یو ایم ٹی کے ڈائریکٹر جنرل کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یو ایم ٹی کے لاہور میں دو کیمپس ہیں، جبکہ ایک کیمپس سیالکوٹ میں بھی ہے۔ آئی ایل ایم ٹرسٹ کے تحت آئی ایل ایم کالجز کا ایک طویل سلسلہ فرنچائزڈ اصولوں کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں چل رہا ہے۔ اسی طرح اس ٹرسٹ کے تحت دی نالج اسکولز کا بھی ایک فرنچائزڈ سسٹم تعلیم کے میدان میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
حسن بھائی کی وفات پر ایک دوست نے بتایا کہ وہ مستحق طلبہ کو مراعات دینے میں بہت زیادہ فراخ دل تھے۔ انھوں نے کئی واقعات بیان کیے، جن سے مرحوم کی عظمت کا سکہ دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ ان کے ایک عقیدت مند محمد حسان کے بقول ’’ایک نوجوان نے ایم بی اے کے لیے یو ایم ٹی میں داخلہ لیا، مگر وہ فیسیں ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، مجبوراً اس کی والدہ نے زیور بیچنے کے لیے دے دیا۔ نوجوان جذباتی ہوکے میرے سامنے رو پڑا کہ میں والدہ کا زیور نہیں بیچنا چاہتا۔ میرا اپنا دل بھی بہت بھاری ہوگیا، میں نے حسن صاحب کو ایک صفحے کا مختصر سا خط لکھ دیا۔ اگلے دن میرے فون پر ان کا میسج آیا کہ ’’یونیورسٹی آکر مجھ سے مل لیں‘‘۔ میں ان کے اسٹاف سے کوئی وقت طے کیے بغیر یونیورسٹی گیا تو پتا چلا کہ کسی فیکلٹی کی میٹنگ کو چیئر کررہے ہیں۔ اسٹاف نے ملنے نہیں دیا کہ ابھی ممکن نہیں۔ میں نے ان کو میسج کیا کہ میں باہر کھڑا ہوں اور اسٹاف ملنے نہیں دے رہا۔ مجھے خود بھی لگا کہ میں ذرا بدتمیزی کررہا ہوں۔ مگر میں حیران ہوگیا کہ حسن صاحب خود باہر آگئے اور مجھ سے بڑے پیار سے بات کرنے لگے۔ ان کو باہر دیکھ کر ہر گزرنے والا ان سے سلام دعا کرنے لگا اور ہمیں بات کرنا مشکل ہوگئی۔ ایک دو اساتذہ نے قریب آکر اپنے کام اور مسئلے بھی حل کروا لیے۔ وہیں کھڑے کھڑے انھوں نے میری بات سنی اور ہمارے ساتھی کی تقریباً اسّی فیصد فیس معاف کردی۔‘‘
حسن بھائی کے سارے حلقۂ تعارف کے احباب کے پاس ایسے بے شمار تجربات ہوں گے کہ انھوں نے کسی مستحق طالب علم کے بارے میں بات کی تو کبھی مایوس نہیں کیا، مکمل فیس معاف نہیں کرسکے تو اچھی خاصی رعایت ضرور کردی۔ وہ بندۂ خدا دنیا سے زیادہ آخرت کا طلب گار تھا۔ آخری وقت میں ان کے بیٹے کے مطابق ان کی زبان پر کلمۂ طیبہ اور استغفراللہ کا ورد تھا۔ آخری سفر بھی بہت عجیب و غریب انداز میں ہوا۔ ستمبر کے مہینے میں خنجراب کی طرف دو گاڑیوں میں قافلہ روانہ ہوا، حسن بھائی کے ڈرائیور کے علاوہ ان کے دو تین دوست اور بیٹا ابراہیم اس سفر میں شریک تھے۔ ان بلند و بالا پہاڑیوں کے درمیان گاڑیاں چلی جارہی تھیں، جس گاڑی پر حسن بھائی سوار تھے، وہ ان کا بیٹا ابراہیم چلا رہا تھا، جبکہ دوسری گاڑی ان کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ حسن بھائی کی گاڑی اچانک اُلٹی تو ان کا بیٹا اللہ کے فضل و کرم سے بالکل محفوظ رہا، ان کے ساتھ دوسرا مسافر بھی جو اُن کا دوست تھا، اگرچہ زخمی تو ہوا مگر اللہ نے جان بچا لی، البتہ حسن بھائی کو ایسی چوٹیں آئیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔
10 ستمبر کو میں مغرب کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جارہا تھا کہ ایک معاونِ دفتر نے کہا کہ حسن صہیب فوت ہوگئے ہیں۔ میں نے پوچھا: کس نے بتایا؟ تو اس نے کہا کہ ایکس چینج والوں نے یہ چٹ لکھ کر دی ہے کہ مسجد میں اعلان کرا دیں۔ میرے استفسار پر ٹیلی فون آپریٹر نے بتایا کہ یہ خبر امیرالعظیم صاحب نے دی ہے۔ میں نے فوراً امیرالعظیم صاحب کو ٹیلی فون کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ مسجد میں جب اعلان ہوا تو ہر شخص سکتے میں آگیا۔ جانے والے کی حسین یادیں بے شمار لوگوں کے دلوں میں موجزن تھیں۔ کئی آنکھیں اشک بار ہوگئیں، ہر زبان پر انا للہ جاری ہوگیا۔ جن لوگوں نے حادثے کے بعد گاڑی دیکھی، ان کا کہنا ہے کہ ابراہیم کا مکمل طور پر محفوظ رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ اسے کوئی خراش تک نہ آئی، اللہ اسے سلامت رکھے۔
حسن بھائی کا جسدِ خاکی اگلے روز لاہور پہنچا، ان کے بھائی، بہن اور والدہ بیرون ملک تھے۔ امریکہ اور برطانیہ سے اگلے روز پہنچ سکے۔ 12ستمبر کو یو ایم ٹی میں بعد نماز عصر ان کا جنازہ ہوا اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں اپنے دیگر اعزہ کے پہلو میں انھیں دفن کردیا گیا۔ اللہ ان کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادے اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ (آمین)