تذکرۂ تابعین

نام کتاب: تذکرۂ تابعین
مصنف: عبدالرحمن رافت پاشا
ترجمہ: ارشاد الرحمن
صفحات: 416 قیمت 350روپے
ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور 54790
فون نمبر: 042-35252210-11
0320-4534909
ای میل: manshurat@gmail.com
یہ مبارک لوگوں کی مبارک کتاب مشہور عرب عالم عبدالرحمن رافت پاشا نے بڑی محنت اور محبت سے تحریر کی ہے۔ اس کا بڑا عمدہ ترجمہ ہمارے بھائی ارشادالرحمن نے عربی سے اُردو میں کیا ہے۔ پہلا ایڈیشن 2002ء میں شائع ہوا تھا، نومبر 2018ء میں اس کا پانچواں ایڈیشن قارئین کی خدمت میں منشورات نے اپنے روایتی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جناب مسلم سجادؒ نے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا تھا:
’’اس گئے گزرے دور میں، ایمان اور یقین کی ہماری اپنی حالت کچھ بھی ہو، اہلِ ایمان کے تذکرے جسم میں ایمان کی رو دوڑا دیتے ہیں۔ ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘ جیسی کتابیں قبولِ عامہ حاصل کرتی ہیں۔ اپنی تربیت، تزکیے اور تذکیر کے لیے، اور زندگی راہِ حق پر گزارنے کے لیے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ (ایک دفعہ نہیں، مسلسل کرتے رہنا) تو اکسیر ہے، لیکن صحابہ کرامؓ کی زندگیاں بھی جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ستارے قرار دیا، مشعلِ راہ ہیں کہ انہوں نے منبعِ خیر و ہدایت سے براہِ راست اکتسابِ فیض کیا تھا۔ اس کے بعد درجہ تابعین کا آتا ہے جنہوں نے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور ان عالی مرتبت ہستیوں سے سیکھا۔
یہ کتاب تابعین کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ عبدالرحمن رافت پاشا کے منظرکشی کے انداز نے ان تذکروں میں زندگی کی رو دوڑا دی ہے۔ پڑھتے ہوئے قاری منظر سامنے دیکھنے لگتا ہے۔ زمان و مکان کے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ پھر تا ثیر کا کیا پوچھنا!
ہمارے عزیز بھائی ارشاد الرحمن نے ترجمے کا حق اَدا کیا ہے۔ (یعنی ایسا ترجمہ کہ اصل لگے!)۔ یہ سب تذکرے ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ میں شائع ہوکر معلوم نہیں کس کس کی زندگی پر اثرانداز ہوچکے ہیں۔
اب یک جا شائع کرنے کا اعزاز منشورات کو حاصل ہورہا ہے۔‘‘
جناب ارشاد الرحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’بھلائی کا کوئی کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا مگر اللہ کی توفیق سے، اور کسی برائی سے دُور نہیں رہا جاسکتا مگر اللہ کے فضل سے! اللہ تعالیٰ کا حقِ شکر اَدا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے مجھے اُن بندوں کے تذکرے کی توفیق بخشی جو اُمتِ مسلمہ کی پیشانی کے جھومر ہیں۔ ان حسین و جمیل زندگیوں کا تذکرہ کرنے کے لیے ایمان و علم کی جس دولتِ فراواں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مجھ کوتاہ کار و گنہگار کے پاس کہاں! یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اور اس کی بے پایاں رحمت و شفقت تھی کہ اس نے مجھے یہ داعیہ اور عزم مرحمت فرمایا کہ میں نے اس کام کی انجام دہی کا آغاز کردیا اور اسی کی توفیق سے یہ کام تکمیل کو پہنچا۔ فالحمد للّٰہ علی ذٰلک۔ یہ ترجمہ ہفت روزہ ایشیا کے مئی 2001ء کے شمارہ 17 سے شروع ہوکر دسمبر 2001ء کے شمارہ 50 تک 29اقساط میں شائع ہوا۔ اب نظرثانی کے بعد یہ اقساط کتابی صورت میں یکجا کردی گئی ہیں۔
میں نے ترجمے میں اپنی پوری کوشش کی ہے کہ مصنف نے جس اسلوب اور طبعی انداز میں یہ تذکرہ رقم کیا ہے، اس کی اصلی روح میں ہی اس کو پیش کروں۔ اردو میں آنے والے اس رومانی رنگ میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ سارا کریڈٹ مصنف کتاب ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا مرحوم کو جاتا ہے جنہوں نے ایمان کی وادی میں انتہائی گہری سطحوں میں اتر کر ان زندگیوں کے تذکرے کو روح افزا اور ایمان افروز بنانے کا ایک منفرد اسلوب اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اس خدمتِ عظیم کا بہترین اَجر عطا فرمائے۔ تابعینؒ کے ساتھ ان کی محبت نے انہیں یہ کام کرنے پر اُبھارا تو اللہ تعالیٰ اس محبت کو ان کے لیے زادِ راہ بنادے۔ اللہ تعالیٰ میرے اساتذہ کرام کو بھی اس کام میں حصہ دار ٹھیرائے کہ ان کی خصوصی توجہ اور محبت و شفقت نے مجھے زبانِ عربی کے فہم کے ابتدائی زینے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہماری اس سعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور ہمیں ان نجومِ ہدایت کی اتباع و پیروی کی توفیق بخشے۔
اللّٰھم الغفرلی ولوالدی ولاساتذتی ولجمیع المومنین والمومنات والمسلمین و المسلمات‘‘
جناب ارشاد الرحمن اُس وقت ہفت روزہ ایشیا لاہور کے مدیر تھے۔
ارشاد الرحمن بیان کرتے ہیں:
’’آپ کو اس تذکرے میں علم کے بحر ذخار، کتاب و سنت کے علم بردار، عبادت و ریاضت کے دھنی، فہم و فراست کے غنی، علم و عمل کے مرقعوں، زہد و تقویٰ کے پُتلوں، دن کے شہسواروں اور رات کے زندہ داروں کے قابلِِ رشک، روح افزا اور ایمان افروز واقعات پڑھنے کو ملیں گے۔ ان کی حق پرستی اور راست روی نے بڑے بڑے جابر اور ظالم انسانوں کے منہ بند کردیے۔ سعید بن جبیرؒ حجاج بن یوسف کے منہ پر وہ تاریخی کلمات کہتے ہیں کہ رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔ عطا ابن رباحؒ وقت کے خلیفہ سلمان بن عبدالملک کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سعید بن مسیبؒ ولید بن عبدالملک کو آگے بڑھ کر سلام عرض نہیں کرتے، طاووس بن کیسان گورنر کا تحفہ قبول نہیں کرتے اور امام ابوحنیفہؒ منصبِ قضا کی پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ اسے آخرت کی کھیتی سمجھتے تھے۔ دنیا کے مال و دولت نے ان کی خدمت گزاری کے لیے اپنا سب کچھ پیش کیا، لیکن خدا کے یہ بندے اس سے پہلو بچا کر یوں گزر گئے گویا یہ دنیا میں نہیں کسی اور جہاں میں رہ رہے ہوں۔ ان لوگوں کی خوبیوں نے انہیں آسمانِِ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ یہ محض قرآن و حدیث کا درس دینے والے ہی نہ تھے بلکہ سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے بھی تھے، یہ دن کو میدانِ جہاد کے شہسوار ہوتے تو رات کو عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرکے اپنے اللہ کو راضی کرتے۔ ان کے دِلوں میں اللہ کا خوف اور عبادت کے شوق کا یہ عالم تھا کہ ربیع بن خثیمؒ، محمد بن سیرینؒ، عامر بن عبداللہ تمیمیؒ، صلہ بن اشیم عدویؒ، زین العابدینؒ اور امام ابوحنیفہؒ ساری رات قیام میں گزار دیتے۔ رب کے خوف سے ان کے دل بیٹھ رہے ہوتے۔
اس تذکرے میں ایاس بن معاویہ مزنیؒ کی ذہانت و ذکاوت اور قاضی شریحؒ کی عدالت و فیصلہ سازی کا ذکر بھی ہے جو تاریخ میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ احنف بن قیس ؒ کی معاملہ فہمی و راست روی اور سالم بن عبداللہؒ اور قاسم بن محمدؒ کی عوامی مقبولیت کا حسین تذکرہ بھی ہے۔ اس تذکرے میں محمد بن واسع ازدیؒ اور عبدالرحمن غافقی جیسے فاتحین اور کشورکشا بھی ہیں جن کی تلواروں کے نقش مشرق و مغرب میں ثبت ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابعین کرام کو بہترین لوگ ہونے کا اعزاز عطا کیا ہے۔
اس کتاب میں جن تابعین کرام کا تذکرہ ہے وہ درج ذیل ہیں:
عطاء بن ابی رباحؒ، عامر بن عبداللہ تمیمیؒ، عُروہ بن زبیرؒ، ربیع بن خثیمؒ، اِیاس بن معاویہ مُزنیؒ، حسن بصریؒ، قاضی شریحؒ، محمد بن سیرینؒ، رَبیعہ رائےؒ، رجاء بن حیوہؒ، عامر بن شراحبیل شعبیؒ، سلمہؒ بن دینار، سعیدؒ بن مسیب، سعیدؒ بن جبیر، محمد بن واسع ازدیؒ، عمر بن عبدالعزیزؒ، عبدالملکؒ فرزند عمر بن عبدالعزیزؒ، محمد بن حنفیہؒ، طاووس بن کیسانؒ، قاسمؒ بن محمد بن ابوبکر، صلہ بن اشیم عدویؒ، زین العابدینؒ، ابومسلمؒ خولانی، سالم بن عبداللہؒ، عبدالرحمن الغافقیؒ، اصحمہ بن ابجر نجاشیؒ، ابوالعالیہ رفیع بن مہرانؒ، اَحنف بن قیسؒ، امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ۔