خدا کی ”بخیلی“ کا یہودی تصور

مولانا ابوالجلال ندویؒ
یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ (مائدہ 64)
یہی بات آج کل یوں کہی جاتی ہے کہ آدمی زیادہ ہورہے ہیں اور روزی ضرورت سے کم اگتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اپنی آئندہ نسل کو پیدائش سے پہلے ہی مار ڈالو، یہی دانش مندی ہے، کیونکہ قدرت کےبخل کا یہی تقاضا ہے۔ یہودکا بھی یہی کہنا تھا کہ خدا بخیل ہے، کافی روزی نہیں دیتا۔ اس لیے اللہ نے فرمایا:
”ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ملعون ہو گئے و ہ اپنے قول کی وجہ سے، جبکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، جسے چاہتا ہے خرچ کو دیتا ہے۔“ (مائدہ: 64)
خدا کی رزاقی کو بخیلی باور کرنے والے نادان مسلمان زادے جو مسلمانوں کی نسل کُشی کو خاندانی منصوبہ بندی کا نام دے رہے ہیں وہ یہودیوں کے فریب میں مبتلا ہیں جو ید اللہ مغلولہ بولا کرتے تھے۔ ہر ملک کے عوام اگر ان کج فہم، بے عقل مدعیانِ دانش وری کو دھکے دے کر ان کی کرسیوں سے گرا دیں اور خدا کی رزاقی پر ایمان والوں کو نظم و نسق کا اختیار دے دیں تو خدا کی زمین اب بھی حسبِ ضرورت روزی اگاتی رہتی ہے جس کو فسق و فجور کے رسیا لوگ اپنی عیاشیوں پر برباد کرتے ہیں اور عوام سے کہتے ہیں کہ خوب اگائو، ہم کو اور ہم جیسوں کو خوب کھلائو، لیکن خبردار اپنی آئندہ نسل بڑھنے نہ دو کیونکہ خدا بخیل ہے کافی رزق نہیں (دیتا)۔ ان بے دینوں کو کتاب و سنت سنانے کی ضرورت نہیں، ان کا علاج یہی ہے کہ ان کو خدا کی رزاقی سے بے جا مفاد اٹھانے نہ دو، ان کو نظم و نسق میں دخیل ہونے سے روکو، ان کو کتاب و سنت سنائو گے تو ان کا کفر و الحاد اور بڑھ جائے گا کیونکہ خدا نے فرمایا:
”اور یقیناً تیرے پاس تیرے رب کے پاس سے جو نازل کیا گیا ہے وہ ان کی سرتابی اور کفر میں اضافہ کردے گا۔ اور ہم نے روزِ قیامت تک ان کے درمیان عداوت اور کینہ ڈال دیا ہے۔ اللہ کی رزاقی کو بخیلی قرار دینے والے لازماً ایک دوسرے کے دشمن ہوجانے پر مجبور ہیں۔ ہر کتا دوسرے کتے کے منہ کی ہڈی چھیننا چاہتا ہے، اس لیے بار بار جنگیں ہوتی ہیں۔
جب جب وہ کوئی آگ لڑائی کی بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے، اور وہ زمین میں فساد مچانے دوڑتے ہیں اور اللہ مفسدوں کو محبوب نہیں رکھتا۔“ (مائدہ :64)
اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے اور خدا ترس ہوتے تو ہم ان سے ان کی خرابیاں دور کردیتے، اور ان کو ارم کے باغوں میں داخل کرتے، اور اگر وہ توراۃ اور انجیل (کی ہدایتوں) پر کاربند رہتے تو کھاتے اور پیتے اوپر سے اور اپنے پائوں کے تلے سے، اور ان میں میانہ رو لوگ بھی ہیں مگر بہتوں کے کام برے ہیں۔“ (مائدہ:65)
اللہ کے ہاتھ کو بندھا کہنے والوں کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو جس قدر روزی درکار ہے قدرت اسی قدر روزی مہیا نہیں کرتی۔ (مائدہ 66) قرآن نے بتایا کہ ان کے گلے کی وجہ غلط ہے، خدا کے آئین کو اہلِ کتاب نے درخورِاتنا نہیں سمجھا۔ اگر توراۃ اور انجیل کی ہدایتوں پر عمل کرتے تو ان کو یہ شکوہ نہ ہوتا بلکہ آسمان ان پر ہُن برساتا اور زمین ان کی معیشت وافر اگاتی۔ لیکن اہلِ کتاب تو اہلِ کتاب ہیں جو بہت کچھ خدا کی نصیحتوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ جن کے پاس قرآن ہے، احادیث ِصحیحہ ہیں، کتبِ فقہ کا انبار ہے وہ بھی آج کل یہی اعلان کرتے ہیں اور عوام کو آئندہ کی نسل کُشی کی ترغیب دینے پر بے دریغ سرمایہ تباہ کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ روزی محدود ہے کھانے والے (16x4x2) کے مرنے سے زیادہ کھانے والے پیدا ہو رہے ہیں، اس لیے آئندہ نسل کو پیدا ہی نہ ہونے دو، اللہ کی بخیلی کا یہی مطالبہ ہے اور سرکار کے سند یافتہ علماء تک ان ملحدوں کے موافق رائے تو نہیں رکھتے لیکن اللہ کے بجائے ان ملحدوں سے ڈرتے ہیں جنہوں نے ہماری حکومتوں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔
(بحوالہ: سویدا،مارچ 2005ء شمارہ نمبر 3، ص 16)

پرواز

اس نظم میں یہ حقیقت بیان کی گئی کہ جو وجود خاک کی کشش سے آزادی حاصل نہیں کرتا اسے پرواز کی لذت نصیب نہیں ہوسکتی۔

کہا درخت نے اک روز مرغِ صحرا سے
ستم پہ غم کدۂ رنگ و بو کی ہے بنیاد!
خدا مجھے بھی اگر بال و پر عطا کرتا!
شگفتہ اور بھی ہوتا یہ عالمِ ایجاد!
دیا جواب اسے خوب مرغِ صحرا نے
غضب ہے داد کو سمجھا ہوا ہے تُو بیداد!
جہاں میں لذتِ پرواز حق نہیں اس کا
وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد

غم کدۂ رنگ و بو: لفظی معنی رنگ بو کا وہ مقام جو غم کا گھر ہے یعنی دنیا۔ عالم ِایجاد :مراد دنیا
-1 ایک دن درخت نے جنگلی پرندے سے کہا کہ اس دنیا کی بنیاد تو ظلم پر ہے۔
-2اگر خدا مجھے بال و پر عطا کردیتا تو اس جہان کی رونق اور چہل پہل اور بھی بڑھ جاتی۔
-3جنگلی پرندے نے درخت کو خوب جواب دیا اور کہا کہ غضب ہے تُو نے انصاف کو ظلم سمجھ رکھا ہے۔
-4اس دنیا میں اُڑنے کی لذت حاصل کرنے کا اسے کوئی حق نہیں، جس کا وجود مٹی کی کشش سے آزاد نہ ہو۔
مقصود یہ ہے کہ ہر وجود اپنی ہمت اور عزم کی بدولت جو چاہے بن سکتا ہے، لیکن ہر حالت کے لیے خاص شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کو پورا کرنا چاہیے۔ درخت یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ مجھے بال و پر عطا نہ ہوئے اور قدرت کا یہ ظلم تھا۔ پرندے نے ثابت کردیا کہ تُو جب تک مٹی میں گڑا ہوا ہے اور اس کی کشش سے نجات نہیں پاسکتا تو بال و پر مل جانے پر بھی کیا کرلیتا؟ تیری حالت کے مطابق جو کچھ تجھے ملا، وہ عین انصاف ہے لیکن تُو غلطی سے اسے ظلم سمجھ رہا ہے۔