انڈیا کے سائنس دانوں نے ایک ایسی سائنسی کانفرنس میں خطاب کرنے والوں پر تنقید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پہلی بار قدیم ہندوؤں نے سٹیم سیل پر تحقیق کی تھی۔سالانہ انڈین سائنس کانگریس کے دوران آئن سٹائن اور آئزک نیوٹن کے نظریات کو بھی مسترد کیا گیا اور اس کے اس میں ہندو دیومالا پر مبنی نظریات پیش کیے گئے۔یہ کانفرنس پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن ماہرین نے کہا ہے کہ اس بارحد ہی ہو گئی ہے۔جنوبی انڈیا کی ایک یونیورسٹی کے سربراہ نے قدیم ہندو تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قدیم ہندوؤں نے ہزاروں سال پہلے سٹیم سیل پر تحقیق کی تھی۔آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشور راؤ نے کہا کہ ہندو مقدس کتاب رامائن میں ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے جن کے پاس 24 قسموں کے ہوائی جہاز تھے اور وہ انھیں سری لنکا کے ہوائی اڈوں پر اتارا کرتے تھے۔تامل ناڈو کی ایک یونیورسٹی کے ایک سائنس دان ڈاکٹر کے جے کرشنن نے کہا کہ آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن دونوں غلط تھے اور دریافت ہونے والی کششِ ثقل کی لہروں کا نام ‘نریندر مودی لہریں رکھنا چاہیے۔انڈین سائنٹفک کانگریس ایسوسی ایشن نے اس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے خیالات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔انڈین سائنٹفک کانگریس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری پریمندو ماتھر نے اے ایف پی کو بتایا: ‘ہم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہیں اور خود کو اس سے الگ رکھتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ ذمہ دار لوگوں کی طرف سے ایسی باتیں کرنا سخت تشویش کا باعث ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا میں جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، ’جعلی سائنس حاشیے سے نکل کر مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے‘۔خود مودی نے 2014 میں ممبئی ہسپتال کے اسٹاف سے کہا تھا کہ ہندوؤں کے بھگوان گنیش کا ہاتھی کا سر ایک انسانی جسم سے جڑا ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدیم انڈیا میں ہزاروں سال پہلے کاسمیٹک سرجری ہوا کرتی تھی۔ان کے بہت سے وزیر بھی ایسے ہی خیالات کے حامل ہیں اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ہندو ایک شاندار ماضی کے وارث ہیں اور انڈیا میں ہزاروں سال پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی عروج پر تھی۔2018 میں ٹیکنالوجی کی جنگ میں نیا تیر شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیو نے چلایا تھا اور کہا تھا کہ انٹرنیٹ قدیم ہندوستان کی ایجاد ہے اور ہزاروں سال پہلے براہ راست نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
مسلم آبادی کا خوف
گزشتہ بیس برسوں میں اس عالمی منظرنامے پر جو تیز رفتار تعصباتی تبدیلیاں آئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ستاون ملکوں میں بٹے ہوئے مسلمان خواہ اپنے آپ کو ایک امت تسلیم کریں یا نہ کریں، پوری مغربی دنیا انہیں اپنا ایک متحدہ دشمن اور ایک امت ضرور تسلیم کرتی ہے۔ گزشتہ تین سو برسوں سے یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا سوشل سائنسز کا رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی فطری تقسیم کا علم ان برسوں میں ناکام ہو گیا ہے۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ ’’کفر ملتِ واحدہ ہے‘‘ اور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود کینیڈا سے لے کر آسٹریلیا تک وہ متحد تو مسلمان کے خلاف تھے ہی، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی اکثریت کا خوف سا بیٹھ گیا۔ سوشل میڈیا اور اکا دکا مضامین تو اس موضوع پر مل جاتے تھے کہ مسلمانوں کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے ایک دن وہ اس دنیا کی غالب اکثریت بن جائیں گے، لیکن کبھی کسی سنجیدہ ادارے یا تعلیمی و تحقیقی مرکز نے خالصتاً مذہب کی بنیاد پر دنیا کی آبادی کے بارے میں کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی تھی۔ عموماً ایشیا، یورپ، جنوبی امریکہ و شمالی امریکہ، مشرق وسطیٰ یا مشرق بعید جیسے دائروں اور علاقائی لکیروں میں آبادی کو تقسیم کرکے بنایا جاتا اور رپورٹوں میں ذیلی سطح پر مذہب کا بھی ذکر کردیا جاتا۔ لیکن اس خوف کا کیا کریں جو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ دنیا کا سب سے معتبر تحقیقی (Reserch) ادارہ PEW ایک بالکل مختلف نوعیت کی ریسرچ لے کر آیا ہے جس کا ٹائٹل ہےThe Changing Global Religious Land Scape (دنیا کا بدلتا ہوا مذہبی منظرنامہ) یہ پینتالیس صفحات پر مشتمل رپورٹ ہے جس میں پوری دنیا میں مذاہب کے اعتبار سے بڑھتی اور گھٹتی آبادیوں کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ یہ ادارہ PEW عالمی سطح پر ایک بااعتبار ساکھ رکھتا ہے۔1990ء میں Times Mirror Company نے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جو امریکہ اور دنیا بھر میں سروے اور ریسرچ کرکے مستند معلومات اکٹھی کرے اور مشہورِ زمانہ صحافی اینڈریو کوہوٹ(Andrew Kohut) کو اس کا سربراہ مقرر کردیا، جو اپنے انتخابی جائزوں کی وجہ سے اتنا مشہور تھا کہ اسے امریکہ میںPollstarیعنی انتخابی جائزوں کا ہیرو کہا جاتا تھا، لیکن اس وقت یہ ادارہ اپنے سروے اور جائزوں سے سالانہ پانچ کروڑ ڈالر کماتا ہے، جبکہ اس کے اخراجات کے لیے ایک ٹرسٹ ہے جو اس کے تمام اخراجات کے لیے فنڈ مہیا کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹیں دنیا بھر کی حکومتیں، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنی آئندہ پالیسی بنانے اور لائحہ عمل طے کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ تازہ رپورٹ دراصل مغربی دنیا کو خواب سے بیدار کرنے کے نقطہ نظر سے مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ کا آغاز ان جملوں سے ہوتا ’’اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بچے عیسائی گھرانوں میں پیدا ہورہے ہیں جس کی وجہ سے عیسائیت ابھی تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی اور صرف بیس سال سے بھی کم عرصے میں مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی۔ اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اموات عیسائیوں میں ہورہی ہیں۔ صرف جرمنی میں 2010ء سے 2015ء تک چودہ لاکھ عیسائی بوڑھے نئے پیدا ہوئے بچوں کی تعداد سے زیادہ مرے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً16فیصد لوگ ایسے ہیں جو کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان میں ازدواجی زندگی اور بچوں کا رجحان کم ہے اس لیے ان کی آبادی بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔ مذہب کی تبدیلی بھی عیسائی آبادی کو کم کررہی ہے۔ 2010ء سے 2015ء تک تقریباً نوے لاکھ عیسائیوں نے مذہب تبدیل کیا جبکہ ان کی آبادی میں اضافہ ایک سو سولہ لاکھ تھا۔ گویا اضافے میں سے 80 فیصد سے زیادہ مذہب چھوڑ گئے۔ جبکہ مسلمانوں میں مذہب کی تبدیلی کا رجحان بالکل نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق عیسائیت افریقہ میں بڑھتی رہے گی جبکہ یورپ میں اسلام سب سے بڑا مذہب اور مسلمان سب سے بڑی آبادی ہوں گے۔ دنیا میں مذہب کو نہ ماننے والوں کا 75فیصد ایشیا خصوصاً چین میں رہتا ہے اور وہاں پر آبادی کنٹرول کا پروگرام اور رجحانات ان کی آبادی کو کم کررہے ہیں۔ رپورٹ میں بہت کچھ ہے جو مغرب اور امریکہ کو خوفزدہ کرچکا ہے، اور یہ خوف ہی ہے کہ تیس سال بعد پاکستان سمیت مسلمان ملکوں میں برتھ کنٹرول کے سوئے ہوئے محکمے زندہ ہورہے ہیں۔ یہ تمام تدبیریں اور مہمات ناکامی کا منہ دیکھیں گی۔ اس لیے کہ یہ مغرب کے اس خوف سے پیدا ہوئی ہیں اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے کہ روزِ حشر مجھے اپنی امت کی کثرت پر فخر ہو گا۔ کون ہے جو اس کثرت کو کم کرسکے! کوئی ہے؟ نہیں، کوئی نہیں ہے۔
(اوریا مقبول جان۔ روزنامہ92 ۔ 17دسمبر2018ء)