فرائیڈے اسپیشل کے سابق مدیر عبدالکریم عابد(مرحوم) درج بالا عنوان سے معاشرتی، سماجی اور نظریاتی موضوعات و مسائل پر فکر انگیز اداریے تحریر کرتے تھے۔ ان فکری مباحث کو سادہ اور دلکش انداز میں تحریر کرنا عابد صاحب کا خاص اسلوب تھا۔ آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے ان تحریروں کو ملاحظہ کیجیے جو آج بھی زندہ ہیں۔
آج ہم میں سے ہر شخص کو احساس ہے کہ دنیا کی سیاست اور ملک و قوم کی سیاست سب غلط ہوگئی ہے اور غلط در غلط ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ غلط سیاست تبدیل کس طرح ہوگی؟ اور سیاست پر ہی منحصر نہیں ہے… معیشت، معاشرت سب میں بگاڑ سرایت کرچکا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بگاڑ انسان کا اپنا بگاڑ ہے۔ اس بگاڑ کی وجہ سے عوام بھی غلط ہوگئے اور ان کے قائدین بھی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے شیطان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو برائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ رہنما حضرات سے اس کی توقع نہیں ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں گے۔ ان رہنمائوں کے لیے اصل مسئلہ پاور پالیٹکس اور مخالف فریق کو ہر قیمت پر نیچا دکھانا ہے۔ لیکن عوام کو خیر و شر کے معیارات کے لحاظ سے سوچنا چاہیے اور اس اعتبار سے اپنا بھی احتساب کرنا چاہیے۔ قائدین کو بھی پرکھنا چاہیے، ورنہ معاشرے کا اخلاقی انحطاط سیاست، معیشت اور ثقافت کو بد سے بدتر کرتا چلا جائے گا اور اس کا زیادہ نقصان عام لوگوں کو ہی ہوگا، اور ہورہا ہے۔
اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے آپ کا تبدیل کریں۔ آدمی بنیادی طور پر حیوان نہیں ہے، اس میں اگر حیوانی خواہشات ہیں تو ملکوتی صفات بھی ہیں۔ اس بنا پر ہر شخص خیر و شر کی پہچان رکھتا ہے۔ سورۃ الشمس میں ہے کہ نفسِ انسانی کو فجور اور تقویٰ کا الہام کردیا گیا ہے، اس کی بنیاد پر جس نے اپنا تزکیہ کیا اُس نے فلاح پائی، اور جس نے نیک و بد کے فطری احساس و امتیاز کو دبا دیا وہ نامراد ہوا۔ آج معاشرہ اس لیے نامراد ہے کہ مجموعی طور پر ہم نیک و بد میں امتیاز اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی ضر ورت محسوس نہیں کرتے۔ یقیناً انفرادی طور پر نیک انسان بہت ہیں، لیکن انفرادی نیکی معاشرے کے بگاڑ کو روک نہیں سکتی اگر بدی کی قوتیں معاشرے پر غالب ہیں۔ اجتماعی شر کے مقابلے میں اجتماعی خیر کا پلڑہ بھاری ہونا چاہیے، اور یہ صرف انفرادی نیکی سے نہیں ہوسکتا، اس کے لیے صحیح قیادت کے تحت اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے، مگر اجتماعیت کی بنیاد بھی انفرادیت پرہے، ہر فرد کے ساتھ نفسِ امّارہ لگا ہوا ہے جو اسے برائی پر اُبھارتا ہے، اور اس نفسِ امّارہ کے مقابلے کے لیے نفسِ لوّامہ بھی ودیعت کیا گیا ہے جو انسان کو برے خیال یا برے کام پر ملامت کرتا ہے۔ اگر ضمیر کی اس ملامت کی آواز کو زندہ رکھا جائے اور اسے سنا جائے تو معاشرہ اچھے انسانوں پر مشتمل ہوگا اور اچھی قیادت پذیرائی حاصل کرے گی، ورنہ برے لوگوں کے حاکم برے لوگ ہی ہوں گے۔ ہر انسان کو اپنی ذات میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ اس کے وجود میں خیر و شر کی کوئی جنگ برپا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شر نے خیر کو شکست دے دی ہے، ضمیر کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ورنہ ضمیر زندہ ہو تو انسان اپنی اندرونی کشمکش کی حالت سے غافل نہیں رہ سکتا، اسے خیر کے جوہر کو اُبھارنے کے لیے مسلسل عمل اور جہدِ پیہم کی ضرورت ہوتی ہے، کوشش کے بغیر نہ خیر کا جوہر اُبھر سکتا ہے نہ شر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ سورۂ عنکبوت میں ہے کہ جو لوگ مجاہدہ کریں گے خدا اُن کی ضرور رہنمائی کرے گا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کہا ہے کہ نیکی پر استقامت ہو تو نیکی نفس کی عادتِ ثانیہ اور انسانی مزاج کی بنیادی خصوصیت ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس ہو تو بدی کا مزاج ہوجاتا ہے۔ نیکی کے مزاج سے اعمالِ حسنہ کا صدور خودبخود بھی ہوتا ہے، اور بدی کا مزاج بچھو کے ڈنک کی طرح ہے جو بربنائے ضرورت نہیں، بربنائے عادت بھی ڈنک مارتا رہتا ہے، لیکن کسی انسان کو اپنی نیکی پر غرّہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور کسی کو جو مبتلائے بدی ہے، مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ انسان نیکی کی راہ پر چلتا رہتا ہے، جنت اس سے ایک قدم دُور ہوتی ہے کہ اچانک وہ بدی کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ اور ایسے ہی بدی کی راہ پر چلنے والا دوزخ کے قریب پہنچ کر اپنی خراب حالت کا احساس کرلے تو نیکی کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی کے راستے پر کوئی شخص بھی خواہ وہ ولی اللہ ہی کیوں نہ بن جائے، اپنی طاقت کے زور پر نہیں چل سکتا، اسے توفیقِ الٰہی اور تائیدِ الٰہی کا ہر وقت طالب رہنا ہوتا ہے، اور وہ اپنی قوت سے نہیں خدا کی مدد سے ہی نیک رہ سکتا ہے۔ اپنی قوت کا غرور نیکوں کو بھی شیطان بنادیتا ہے۔
نیک افراد کو اجتماعی زندگی میں بھی ضمیر کی اقدار کا پابند ہونا چاہیے۔ شیطان یہ فریب دیتا ہے کہ اچھائی کو غالب کرنے کے لیے اگر کوئی برا طریقہ بھی وقتی طور پر اختیار کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے بہتر ہے کہ آپ ناکامی کو سینے سے لگالیں۔ یہ یاد رکھیں کہ آپ خدائی فوجدار نہیں ہیں۔ اللہ کے رسولوں کا بھی کام پیغام پہنچا دینا تھا، اور معاشرہ اس کی طرف سے آنکھیں، کان بند کرلیتا ہے تو آپ زور زبردستی سے اس معاشرے کا رُخ نہیں موڑ سکتے جو عذابِ الٰہی کی طرف جارہا ہے، البتہ غلط طریقے اختیار کرکے آپ اپنی عمر بھر کی نیکی ضائع کرسکتے ہیں۔ اصل مجاہدہ اور ریاضت یہی ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی آپ اپنی اقدار پر قائم رہیں اور ہر وقت اھدنا الصراط المستقیم کی دعا مانگتے رہیں۔
آج کی دنیا میں ہمیں ہر طرف وحشت و سفاکی نظر آتی ہے۔ لوگ نہ صرف قتل کیے جاتے ہیں بلکہ نہایت وحشیانہ طریقوں سے اذیتیں دے کر ہلاک کیے جاتے ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، کمزور کو کسی طرف سے مدد نہیں مل سکتی۔ نوجوان بد رَاہ ہورہے ہیں اور بزرگ کچھ نہیں کرسکتے۔ خاندانی زندگی میں فساد ہے، کاروبار میں دھوکا ہے، دوست اور رشتے دار بھی اعتبار کے قابل نہیں رہے۔ ابھی یہ صورت پورے عروج پر نہیں پہنچی ہے۔ معاشرے میں اب بھی خیر ہے، مگر نیکی کے چراغ کی لو ٹمٹما رہی ہے۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ انسان اپنے اندر کے خیر کو ابھارنے اور شر کو دبانے کی ضرورت سے غافل ہے۔ یہ ضرورت رسمی عبادات سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، اس کے لیے جہدِ پیہم اور عملِ مسلسل ہونا چاہیے۔
(5مارچ؍1999ء)
`