مردکوہستانی قاضی حسین احمد

اوریا مقبول جان
کیسا چہرہ تھا کہ آنکھ اس سے ہٹتی ہی نہ تھی، تبسم ایسا کہ جس سے دلوں کے زخم دھل جائیں، آنکھوں میں گہرائی ایسی، جس میں مجھے اکثر ایک حزن وملال اور درد جھلکتا نظر آتا۔ میں نے جب بھی ان آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، ان کے معصومانہ تبسم نے میری ساری تگ و دو ختم کردی۔ کون جانتا تھا کہ ان آنکھوں میں امتِ مسلمہ کا درد جھیل کے پانیوں کی طرح چھلکتا رہتا ہے، جو کبھی کناروں سے باہر نہیں اُمڈتا تھا۔ مائیکل انجیلو، جسے دنیا ایک بہت بڑا مصور مانتی ہے، جس نے روم کے گرجا گھروں میں عالم بالا کے کئی کرداروں کی تصاویر اور مجسمے بنائے، اگر وہ قاضی حسین احمد کو دیکھ لیتا تو یقیناً کسی مقرب ترین فرشتے کی تصویر ان جیسی ضرور بناتا۔ صوفیہ بھی اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کی ایک پہچان بتاتے ہیں کہ ان کے گرد ایک مقناطیسی ہالہ ہوتا ہے، ایک ایسی کشش جو دوست دشمن سب کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ دنیا بھر کے نفسیات دان ہر شخصیت کے گرد ایک مقناطیسی ہالے کا بتاتے ہیں، جسے اب تو مخصوص کیمروں سے عکس کی دنیا میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس شخص کا باطن جتنا اجلا، صاف اور کردار بے داغ ہوگا، اس کا ہالہ اتنا ہی شفاف اور روشن ہوگا۔آقائے دو جہاں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن چہرے کی پہچان بتاتے ہوئے فرمایا: ’’چہرہ تو اللہ کے نور سے روشن ہوتا ہے‘‘، اور قاضی حسین احمد کا چہرہ ایسا ہی چہرہ تھا جسے دیکھ کر اقبال کے مردِ مومن کی وہ چار علامتیں ’’قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت‘‘ ایسے جھلکتی تھیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ یوں تو قاضی صاحب کے نام سے میں ستّر کی دہائی سے آشنا تھا لیکن اُن سے پہلی ملاقات 1988ء میں اُس وقت ہوئی جب میں اپنی سرکاری نوکری کے آغاز میں اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تعینات تھا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں امیر جماعت اسلامی اور موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ کے سب سے بڑے جہاد، افغان جنگ کے داعی کے لیے میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ میں اس جہاد کو آٹھ سال سے بہت قریب سے دیکھ چکا تھا اور اب اس کے ثمرات کے لٹنے کا خطرہ سب کو پریشانی میں ڈالے ہوئے تھا۔ ایک انتظامی آفیسر کے ایسے کھلے سوالات قاضی صاحب کے لیے حیران کن تھے، لیکن وہ اپنی حیرانی کو مسکراہٹ میں چھپا کر جواب مختصر کرتے جاتے۔ میری تشنگی موجود رہی۔ میں نے انہیں بھرپور گفتگو پر مائل کرنے کے لیے کہا: مجھے صرف ایک اسسٹنٹ کمشنر نہ سمجھیں، میں 1970ء سے ایک بھرپور سیاسی کارکن رہا ہوں، بنگلہ دیش نامنظور، ختمِ نبوت اور 1977ء کی نظام مصطفیؐ تحریک میں تقریروں سے لے کر نعروں اور پولیس کے تشدد تک ہر مرحلے سے گزر چکا ہوں اور اسے چھپاتا بھی نہیں۔میرے ان جذباتی فقروں پر قاضی صاحب کی آنکھوں میں جو محبت اور چہرے پر جو مسکراہٹ آئی وہ میں آج تک نہیں بھول سکا۔ یہ محبت اور مسکراہٹ آج تک میرا پیچھا کرتی ہے۔ میرے ہاتھ میں اُس وقت میری شاعری کی کتاب ’’قامت‘‘ تھی جو چند روز پہلے چھپ کر آئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم میں نے کیوں ایک خالص رومانی شاعری کی کتاب بظاہر ایک مولوی نما شخص کو پیش کردی، لیکن میری حیرت اُس وقت کئی گنا ہوگئی جب انہوں نے وہیں بیٹھے اسے پڑھنا شروع کردیا اور کتنے ہی ایسے شعر تھے جن پر داد دیتے رہے۔ اس کے بعد قاضی صاحب سے محبت اور عقیدت کا ایک ایسا رشتہ استوار ہوا کہ ان کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے والد کے بعد دوسری بار ایک شدید محبت کرنے والے، دعاگو اور ہمدرد سے محروم ہوگیا ہوں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کمرے کی ایک چھت تھی جو اڑ گئی ہے اور میں کھلے آسمان تلے کھڑا ہوں۔ آسمان بھی ایسا جہاں سے غیظ و غضب کی آندھیاں میرے ملک کے تعاقب میں ہیں۔اتحادِ امت کے حوالے سے کتنے دکھ تھے جو قاضی صاحب بڑی خاموشی کے ساتھ میرے ساتھ گفتگو میں بیان کرتے، اس جدوجہد میں کیسی کیسی قیامتیں ان کے دل پر ٹوٹتیں، لیکن آج تک ان کے لہجے کی شگفتگی میں کمی نہ آئی۔ کون سا مسلک ہے جس نے ان پر طنز کے تیر نہ پھینکے ہوں، لیکن محبت کے شہد میں ڈوبی اس زبان سے کبھی کوئی شکوہ نہ نکلا۔ ایک مردِ کوہستانی کی طرح وہ ایک مضطرب دل لے کر پیدا ہوئے تھے۔ سپاہ صحابہ ؓکے ہاتھوں مارے جانے والوں کا جنازہ پڑھا تو ان کی لاٹھیاں اپنے بدن پر کھائیں، اور جب مولانا اعظم طارق کی عیادت کے لیے گئے تو شیعہ مسلک کے لوگوں کے طعنے سنے۔ دیوبند مکتبِ فکر کے گھرانے میں جنم لینے والے قاضی حسین احمد، مشہد میں امام رضا کے مزار کے ساتھ مسجد میں اس قدر قابلِ قبول تھے کہ وہاں مصلیٰ امامت پر کھڑے کیے گئے۔ ترکی میں نجم الدین اربکان جب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک لے کر اٹھے تو لاکھوں کا اجتماع قاضی حسین احمد کی تقریر سننے کو بے تاب تھا۔ مصر کی اخوان المسلمون ہو یا فلسطین کی حماس، قاضی حسین احمد کا احترام سب کے دلوں میں مسلّم۔ افغان جہاد کے حکمت یار ہوں یا برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود ہوں یا عبدالرسول سیاف، سب کے لیے قاضی صاحب کی ذات دلوں کو جوڑنے کا کام دیتی، لیکن اس ملک میں کون سا ایسا تیر ہے جو اُن کی ذات پر نہ برسایا گیا۔گزشتہ بیس سال کے انگریزی اور اردو کے سیکولر لکھاریوں کے نثرپارے نکال لیے جائیں تو آپ کو ان کی ذات پر ایسے ایسے الزامات ملیں گے، جن میں کردار کُشی کے سوا کچھ موجود نہیں، لیکن یہ ایک بڑی شخصیت کا کمال ہے کہ اس کی جانب سے کوئی گلہ، شکوہ اور شکایت سامنے نہ آئی۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں موجود تھے کہ ایک فرد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور آپؐ مسکرا رہے تھے۔ اچانک حضرت ابوبکرؓ نے اس کا جواب دینا شروع کیا تو آپؐ اٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پریشان ہوکر آپؐ سے سوال کیا کہ جب تک میں خاموش رہا تو آپؐ تبسم فرماتے رہے، لیکن میں نے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہوکر اٹھ گئے۔ آپؐ نے فرمایا: جب تک تم خاموش تھے تو اللہ کی جانب سے ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا، لیکن جیسے ہی تم نے جواب دینا شروع کیا، تو وہ فرشتہ رخصت ہوگیا۔ یہ وہ نصرت ہے جو اللہ کی طرف سے ایک مومن کے حصے میں آتی ہے۔ وقت ثابت کرتا ہے کہ کردار کی عظمت کس کا مقدر ہوتی ہے۔قاضی حسین احمد سے میری عقیدت اور محبت ایک باہمی رشتے میں بندھی ہوئی تھی، اور یہ رشتہ علامہ اقبال کی شخصیت کے راستے قرآن فہمی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ داریوں تک جا نکلتا ہے۔ کئی بار مجھے قاضی حسین احمد کی صدارت میں یوم اقبال کی تقریبات میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ جب علامہ اقبال کی نظم ’’بحضور رسالت مآبؐ میں‘‘ پڑھتے جس میں اقبال سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:کہا حضورؐ نے اے عند لیب باغِ حجازگلی گلی ہے تیری گرمیِ نوا سے گدازاس شعر پر آتے ہی قاضی صاحب کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا عشق چھلکنے لگتا اور پھر اقبال سے ان کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی جانب سے دیا گیا لقب ’’عندلیب باغ حجاز‘‘ ان کی تقریر کا محور بن جاتا۔ اقبال کے اشعار ان کی زبان پر یوں وارد ہوتے کہ سماں بندھ جاتا۔ انہیں بیک وقت فارسی اور اردو دونوں پر عبور تھا۔ اردو ادب کے بڑے بڑے نقاد اقبال شناسی میں ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے تھے۔ اقبال کا ایک شعر جو میں نے ان کی زبان سے ایک مجلس میں سنا، میری زندگی میں ایک بہت بڑی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعر میں نے ایک خوش نویس سے لکھوا کر اپنے دفتر میں اُس جگہ مستقل لٹکایا ہوا ہے جہاں ہر کسی کی نظر پہنچتی ہے، اس لیے کہ یہ شعر مجھے حوصلہ دیتا ہے، طاقت عطا کرتا ہے:ہر کہ رمز مصطفی فہمیدہ استشرک را در خوف مضمر دیدہ استترجمہ: ’’جس نے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلمکے رمز کو پہچان لیا، اسے کسی چیز کا خوف بھی شرک لگتا ہے‘‘۔ یعنی جو کسی بھی طاقت سے، اقتدار سے، برادری سے، ظالم سے، افسر سے، بے روزگاری سے، غربت سے ڈرتا ہے وہ دراصل شرک کررہا ہوتا ہے، کیونکہ دل میں خوف صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا ہی بسا ہونا چاہیے۔ ایسے دل کے امین اور ایسے کردار کے مالک شخص کا اِس دنیا سے اٹھ جانا ایک المیہ ہے۔ موت برحق ہے لیکن نفسِ مطمئنہ کی موت خوش نصیبوں کو میسر آتی ہے۔ ایسی موت جس کا استقبال ارواح صالح کرتی ہیں۔ اس لیے کہ اس روح کی منزل ہی وہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں: ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘ قاضی صاحب کی روح اس قید خانے سے آزاد ہوئی، لیکن کتنے ایسے ہیں جو واقعی اس دنیا کو قید خانہ سمجھتے ہیں! (بشکریہ روزنامہ دنیا)