فاٹا انضمام اور عملی مسائل

ایف سی آر کے خاتمے کے بعد قانونی اور انتظامی خلاف پر نہیں ہوا

وزیراعظم عمران خان نے فاٹا کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انضمام شدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی اور ان کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے، پانچ لاکھ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ کی فراہمی جنوری کے آخر تک شروع کی جائے۔ وزیراعلیٰ، صوبائی وزرا اور متعلقہ سیکریٹریز باقاعدگی سے انضمام شدہ علاقوں اور مختلف محکموں کا دورہ کریں اور تعلیم و صحت کے ترقیاتی کاموں کا ازخود جائزہ لیں۔ اس اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر، گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان، وزیراعلیٰ محمود خان، وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب، معاونِ خصوصی افتخار درانی، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم خان اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں انضمام شدہ علاقوں میں انتظامی امور، صحت، تعلیم، لا اینڈ آرڈر اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت اور آئندہ تین ماہ کے لائحہ عمل کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ انضمام شدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی اور ان علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانا حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی کابینہ ہر ماہ ترقیاتی کاموں اور اصلاحات پر پیش رفت کا جائزہ لے گی، انضمام شدہ علاقوں میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کے جلد از جلد نفاذ کے لیے کوششیں تیزکی جائیں گی، انضمام شدہ علاقوں میں تعلیم، صحت اور پولیس کے محکموں کی خالی اسامیوں کو پُر کرنے اور بھرتیوں کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں خیبر پختون خوا کے سینئر وزیر برائے سیاحت، آرکیالوجی، کھیل، ثقافت اور امورِ نوجوانان عاطف خان نے قبائلی ضلع خیبر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں بدھ مت کے مقدس مقامات کے علاوہ انگریز دور کے تاریخی مقامات موجود ہیں جنھیں بحال اور محفوظ بنایا جائے گا۔ طورخم بارڈر تک دوبارہ سفاری ٹرین چلائی جائے گی اور قبائلی اضلاع میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ کھیل کے میدان بھی بنائے جائیں گے۔ سینئر وزیر نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں بدھ مت کے مقدس مقامات موجود ہیں جن میں سو سے زیادہ صرف جمرود تحصیل میں واقع ہیں، چونکہ اب قبائلی اضلاع خیبر پختون خوا کا حصہ ہیں اس لیے قبائلی اضلاع میں بدھ مت کے تمام مقدس مقامات اور انگریز دور کے تمام تاریخی مقامات کی نشاندہی کے لیے باقاعدہ طور پر ایک سروے کیا جائے گا، جس کے بعد ان مقامات کو بحال اور محفوظ بنائیں گے۔ سینئر وزیر نے کہا کہ قبائلی اضلاع قدرتی حسن سے مالامال ہیں، یہاں سیاحت کو ترقی دے کر دنیا پر واضح کریں گے کہ قبائل دہشت گرد نہیں بلکہ پُرامن لوگ ہیں۔ قبائلی اضلاع میں سیاحت کو فروغ دینے سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ ضلع خیبر میں سفاری ٹرین کے حوالے سے سینئر وزیر نے کہا کہ اس سلسلے میں محکمہ ریلوے کو باقاعدہ طور پر خط لکھا گیا ہے اور بہت جلد طورخم تک سفاری ٹرین دوبارہ شروع ہوجائے گی، جس سے آمدورفت میں آسانی کے ساتھ ساتھ علاقے میں تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ صوبائی وزیر عاطف خان نے مزید کہا کہ قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت قرضے فراہم کرے گی، اس کے علاوہ قبائلی اضلاع میں کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے کھیل کے میدان بھی بنائے جائیں گے اور مختلف کھیلوں کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ مقامی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے تمام قبائلی اضلاع میں ثقافتی مراکز بنائے جائیں گے، اس کے علاوہ قبائلی اضلاع میں اضلاع کی سطح پر جوان مراکز بھی تعمیر کیے جائیں گے جہاں نوجوان مثبت سرگرمیوں میں مشغول رہیں گے۔ سینئر وزیر نے کہا کہ محکمہ سیاحت، آرکیالوجی، ثقافت، کھیل اور امورِ نوجوانان کے حکام کو قبائلی اضلاع تک خدمات بڑھانے کا جائزہ لینے کے لیے قبائلی اضلاع کے دوروں کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ ایک جانب موجودہ حکومت قبائلی اضلاع کی تعمیر وترقی کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے، جبکہ دوسری جانب اب تک نہ تو قبائلی اضلاع کے انضمام کو عملی شکل دینے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھا رہی ہے، اور نہ ہی ایف سی آر کے خاتمے کے بعد قبائلی اضلاع میں پیدا ہونے والے قانونی اور انتظامی خلا کو پُرکرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نظر آرہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومتی اعلان کے مطابق قبائلی اضلاع میں ایک ہزار ارب روپے کے اقتصادی پیکیج اور این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ مختص کیے جانے کے خوش نما اعلانات اور بیانات کے علی الرغم باوثوق میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا میں انضمام کے بعد وفاقی حکومت نے سابقہ فاٹا کے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں سے مختلف شعبوں کے لیے مختص فنڈز میں کمی کردی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں سال سالانہ ترقیاتی فنڈ میں سے تعلیم کے شعبے میں تقریباً 40 کروڑ 47 لاکھ، صحت کی مد میں 3 کروڑ 37لاکھ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے شعبے سے 88 کروڑ 12لاکھ، مواصلات میں سے ایک ارب 14کروڑ 92 لاکھ، لائیو اسٹاک سے 13 کروڑ 44 لاکھ، جنگلات کے محکمے سے 15 کروڑ 93لاکھ، علاقائی ترقیاتی فنڈ سے 70 کروڑ 59لاکھ، جبکہ آب پاشی اورآب نوشی کے منصوبوں سے 10 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی ہے، جس کے بارے میں باقاعدہ طور پر اعلامیہ بھی صوبائی حکومت کو موصول ہوچکا ہے۔ اس بارے میں قبائلی علاقوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وفاق کی سطح پر فنڈز کی اتنی زیادہ کمی کے باعث مذکورہ تمام شعبوں کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس میں شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متا ثر ہوگا، کیونکہ فاٹا کے محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ حالیہ ایک رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی علاقوں میں پرائمری سطح پر اسکولوں سے ڈراپ آئوٹ کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ یعنی 73فیصد ہے، جس کا ایک سبب ناقص منصوبہ بندی اور فنڈز کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اس طرح قبائلی علاقوں میں پچاس فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، لہٰذا قبائلی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فنڈز کی حالیہ کٹوتی جلتی پر تیل کا کام کرے گی جس سے قبائل میں پائے جانے والے احساسِ محرومی میں مزید اضافے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے اپنے مخصوص جغرافیائی پس منظر اور قبائلی رسوم ورواج کے باعث ماضیِ بعید میں آزادانہ اور خودمختارانہ حیثیت کے حامل رہے ہیں، لیکن قیام پاکستان کے وقت سے لے کر 2018ء تک قبائل کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھا گیا۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس بحث سے قطع نظر قبائل کو ان مواقع پر بھی پاکستان کے دیگر شہریوں کے برابر بنیادی شہری حقوق نہیں دیئے گئے جب وطنِ عزیز میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کا ڈول ڈالا جارہا تھا۔ یاد رہے کہ قبائلی عوام کو انگریزوں سے آزادی کے پچاس سال بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا بنیادی حق پہلی دفعہ 1996ء کے عام انتخابات کے موقع پر دیا گیا تھا۔ پچھلے ستّر برسوں کے دوران قبائل ایف سی آر کے سیاہ قانون کے تحت زندگی گزارتے رہے، جس میں بعض مواقع پر چند سرسری اور غیر اہم ترامیم تو کی گئیں لیکن اس اندھے، بہرے اور گونگے قانون کے خاتمے کی توفیق کسی بھی حکمران اور حکومت بشمول سول اور ملٹری کو نہیں ہوئی، البتہ اب جب خدا خدا کرکے قبائل کو آئینی لحاظ سے قومی دھارے میں شریک کیا جا چکا ہے اس ضمن میں درکار وہ قدم اٹھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے جن کا فوری اٹھایا جانا ازبس ضروری ہے، کیونکہ اگر یہ اقدامات فی الفور نہ اٹھائے گئے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف فاٹا انضمام کے فیصلے پر ایک شدید ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہے، بلکہ اس سے نت نئے قومی اور بین الاقوامی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں، جس کی سازشیں عرصۂ دراز سے مختلف حیلے بہانوں اور عنوانات کے تحت کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومتی اعلان کے مطابق31 دسمبرتک قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں فائنل ہوجانی چاہیے تھیں، لیکن تادم تحریر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے حکمت عملی بنانے کی غرض سے الیکشن کمیشن اور حکومتی سطح پر کوئی ہلچل نہ ہونے سے یہ انتخابات بروقت منعقد ہونے سے متعلق قبائل کے شکوک وشبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب بعض حکومتی حلقے دیگر اعلانات کو چھوڑ کر صرف پولیس کی قبائلی اضلاع میں تعیناتی اور توسیع پر زور دے رہے ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کے دوروں اور ان دوروں کے خلاف بعض مخصوص مراعات یافتہ افراد کے خودساختہ احتجاج کو ضرورت سے زیادہ اہمیت اور میڈیا کوریج دی جا رہی ہے، جس سے انضمام کے عمل کو مشکوک بنانے کے عزائم کو بآسانی بھانپا جاسکتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ کی قبائلی علاقوں تک توسیع کی مخالفت میں انضمام مخالف سیاسی قوتوں اور مراعات یافتہ ملک حضرات کے علاوہ بیوروکریسی بھی روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے، بلکہ اس کی جانب سے انضمام مخالف قوتوں کو مختلف حربوں سے احتجاج پر بھی اکسایا جا رہا ہے جس پر چیک رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ حکومتی سطح پر تمام اعلیٰ حکومتی حکام ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ وزیراعظم،گورنر، وزیراعلیٰ اور انضمام کے حوالے سے بنائی جانے والی ٹاسک فورس کے درمیان ہم آہنگی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے تک کی اطلاعات منظرعام پر آچکی ہیں۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ آئی جی پولیس جو خود بھی قبائلی ہیں، وہ تو قبائلی اضلاع میں پولیس کی توسیع کے حوالے سے خاصے سرگرم اور پُرعزم ہیں، لیکن مبینہ طور پر موجودہ گورنر اور چیف سیکریٹری اُن کی راہ میں نت نئے حربوں کے ذریعے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
پولیس کی قبائلی اضلاع تک توسیع کے متعلق آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ خاصہ دار اور لیویز فورس کو ریگولرائز کرکے انہیں بھی ترقی، تنخواہوں اور پنشن کی وہ تمام مراعات اور سہولیات دی جائیں گی جو پولیس کو حاصل ہیں۔ خاصہ دار اور لیویز فورس کو پولیس فورس کی طرز پر امن وامان برقرار رکھنے اور مقدمات کی تیاری اور پیروی کی تربیت بھی دی جائے گی۔ اسی طرح نئے تھانوں کی تعمیر پر کثیر مالی وسائل صرف کرنے کے بجائے خاصہ دار اور لیویز فورس کے پہلے سے موجود انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ آئی جی پولیس کے مطابق قبائلی اضلاع میں تیس سے چالیس ہزار پولیس اہلکار درکار ہوں گے جن میں سے آدھے لیویز اور خاصہ دار فورس سے شامل کیے جائیں گے، جبکہ باقی ماندہ کی قبائلی نوجوانوں سے نئی بھرتی کی جائے گی۔ حکومت نے ایف سی آر کے خاتمے سے پیدا ہونے والے انتظامی اور قانونی خلا کوIGR F کے ذریعے پُر کرنے کی بدنیتی پر مبنی جو سطحی اور کمزور کوشش کی تھی اسے بھی پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے کر یہاں قانونی خلا پیدا کردیا ہے۔ لہٰذا حکومت اور خاص کر خود عمران خان کو اس صورت حال کا نہ صرف فوری نوٹس لینا چاہیے بلکہ اس ضمن میں پائے جانے والے قانونی سقم کے خاتمے اور ان علاقوں کو حقیقی معنوں میں قومی دھارے میں لانے کے لیے اگر ایک طرف اقتصادی سطح پر درکار فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے، تو دوسری جانب یہاں قانونی اور انتظامی خلا کو پُر کرنے کے لیے بھی پولیس اور ماتحت عدلیہ کی ان علاقوں میں توسیع کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔