سندھی تحریر: ابراہیم کنبھر
معروف کالم نگار ابراہیم کنبھر کے زیر نظر سندھی کالم کا ترجمہ بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی 27 دسمبر 2018ء کو گڑھی خدا بخش بھٹو لاڑکانہ میں ان کی تندو تیز اُن تقاریر کے تناظر میں کیا گیا ہے جو انہوں نے بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کے موقع پر کیں۔ اس موقع پر جلسۂ عام میں حسبِ روایت بڑی تعداد میں حاضرین موجود تھے۔ سندھی کے کثیرالاشاعت روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں یہ کالم اس کے ادارتی صفحہ پر بروز جمۃ المبارک 28 دسمبر کو چھپا ہے۔
’’گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی تقریر نہ تو دل کو لبھانے والی تھی، نہ ہی سیاسی دانش کا مظہر تھی، اور نہ ہی جمہوری نظام کی بقا یا موجودہ صورتِ حال میں اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لیے کسی بڑی للکار اور سیاسی صورتِ حال میں کسی بڑے ردعمل کے اعلان پر مبنی تھی۔ آصف علی زرداری جس وقت یہ تقریر کررہے تھے اس سے پیشتر کافی کچھ رونما ہوچکا تھا۔ محض جے آئی ٹی رپورٹ ہی سامنے نہیں آئی تھی بلکہ اس کی بنیاد پر کابینہ، ساتھیوں سمیت اُن کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اعلان کرچکی تھی، ان کے پاسپورٹ ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔ اس سارے پس منظر میں آصف علی زرداری کی تقریر بس ایک عام اور روایتی، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ کسی سیاسی رہنما کے بجائے قبائلی لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ بس میں اور میرا بیٹا آپ کو دیکھ لیں گے۔ کہیں پر تو یہ تبصرہ بھی ہوا کہ آصف زرداری کی باڈی لینگویج (بدن بولی) ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ زرداری صاحب نے سیاسی مقابلہ کرنے، انتخابات میں حصہ لینے اور اکثریتی بنیادوں پر حکومت بنانے کی بات کی، لیکن اب قصہ بہت آگے جاچکا ہے۔ اس جلسۂ عام میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر زیادہ وزنی اور ٹھوس تھی۔ انہوں نے ملک کے اصل ٹھیکیداروں کو کافی مثالیں پیش کیں۔ اشاروں میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کے پی کے میں منظور پشتین کی جاری تحریک، بلوچستان سے لوگوں کی گمشدگی، کالا باغ ڈیم کے لیے چلائی جانے والی مہم، نوازشریف کے حامیوں کی طرف سے پنجاب میں کی جانے والی نعرے بازی کا ذکر کرتے ہوئے صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کی۔
عملی طور پر پیپلز پارٹی کیا کرے گی؟ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کے حوالے سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
آصف علی زرداری کی گرفتاری سمیت سندھ حکومت کی تبدیلی کی خبریں گردش میں ہیں۔ سیاست کا صفایا کرنے والے اس ماحول میں پیپلز پارٹی آخر کون سی جدوجہد کرے گی؟ اس کا کہیں بھی کوئی ذکر سننے میں نہیں آیا۔ لڑائی جاری رکھنے اور جدوجہد کرنے والی یہ خبریں تو اب پرانی ہوچکی ہیں (جن کا ذکر تقاریر میں کیا گیا۔ مترجم)۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہتھیار پھینک کر اصل قوتوں کی ’’جی حضوری‘‘ میں لگ جاتی ہے۔ آخری سیاسی جنگ اس نے سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمینی کا عہدہ قبول کرکے ہار دی تھی۔ سینیٹ کے الیکشن میں دو تین نشستیں خریدنے کا آسرا ملنے، میاں رضا ربانی کی بطور چیئرمین مخالفت، سینیٹ کے چیئرمین کے لیے غیر سیاسی فرد کی حمایت… یہ سب باتیں تو حال ہی کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بھلے سے اب کچھ بھی کہے لیکن ذرا پیچھے کی سمت دیکھ کر بتلائے کہ اُس وقت وہ کس کے اشارۂ ابرو پر گامزن تھی؟ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو آگے لاکر جس طرح سے سیاسی میدان صاف کرکے احتساب کے نام پر انتقام لیا جارہا ہے اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ آصف علی زرداری پر سندھ کا الگ کیس ہے۔ سندھ کی تباہی میں اُن کے کردار پر بحث بھی الگ طور سے کی جاسکتی ہے، لیکن قانون کو گھر کی لونڈی بناکر کسی بھی سیاسی جماعت کا بازو مروڑا جائے تو اس پر بھی حق کی بات کی جانی چاہیے۔ بات آصف علی زرداری کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ کی ہو، اس رپورٹ کی بنیاد پر پروپیگنڈا کرکے سیاست کو گندا کرنے کی ہو، یا پھر میاں نوازشریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کے نام پر سات سال تک جیل کے حوالے کردینے کی ہو… جہاں جہاں پر جو سچ ہے، وہاں پر اسے بیان کیا جانا چاہیے۔ ان سارے معاملات کو حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے نئے پاکستان کے نام پر قانون کی حکمرانی کے نعرے کے پردے میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے بالکل درست قرار دے کر اس سے صرفِ نظر کرنا بھی انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔
ایک بات طے ہے کہ کرپشن کی حمایت ہرگز نہیں کی جاسکتی، اسی طرح سے احتساب کے عمل کی مخالفت بھی نہیں کی جانی چاہیے۔ عوام کے حق، پیسے اور وسائل پر ڈاکا ڈالنے والوں کا نہ صرف احتساب ہونا چاہیے بلکہ سزا کے مرحلے سے گزار کر انہیں یہ بھی احساس دلانا چاہیے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ دھوکا کیا ہے، انہیں تکالیف و مشکلات سے دوچار کیا ہے، لہٰذا اس کے بدلے میں آج انہیں بھی برے دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔ لیکن سب چیزوں کو حقیقت بیانی، سچائی اور عقلی دلائل کے پیمانے پر پرکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ہماری خواہش تو ہوسکتی ہے کہ فلاں کو کرپشن کیس میں سزا ہوجائے، فلاں کو چوراہے پر لٹکادیا جائے، فلاں سے پیسے واپس کروائے جائیں… لیکن ہمارے کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس ملک میں ایک قانون ہے۔ کرپشن ہو یا کوئی دوسرا جرم، ملزم کو سزا قانون کے مطابق مل سکتی ہے۔ انصاف کے کٹہرے میں لانے سے قبل محض رپورٹس کی بنیاد پر کسی کے خلاف واویلا کرکے اُس کے خلاف خراب تاثر پیدا کرنے سے سمجھ لیا جائے کہ اس ساری مشق کا مقصد کچھ اور ہے۔ کسی بھی ملزم کو سزا اسی صورت میں مل سکتی ہے جب اس پر کوئی کیس ثابت ہوپائے گا۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں بدعنوان صرف سیاست دان ہی ہیں؟ چالیس برس تک آمریت کے نام پر حکومت کرکے جو وطن عزیز میں سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے رہے، کیا وہ سب فرشتے ہیں؟ چلیے مان لیتے ہیں کہ سیاست دان ہی اکیلے بدعنوان ہیں، تو پھر انہیں ملک کا قانون سزا کیوں نہیں دیتا؟ بالکل سہل بات ہے کہ جن سیاست دانوں کو کرپٹ کہا جاتا ہے اور جو انہیں کرپٹ قرار دے رہے ہیں انہوں نے ہی سیاست دانوں کو قانون کے شکنجے سے آزاد کروایا، اقتدار پر بٹھایا، اور آج بھی وہ اپنے من پسند سیاست دانوں سے اپنے مفادات کی تکمیل کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس نظام کو خراب کرنے، اپاہج بنانے، بے جان اور بے اعتبار و بے اختیار کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ امر بہرکیف ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں ایک ایسا نظام ہے جس کی کوئی ناک ہے اور نہ دُم۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو ستّر برس سے ایک نہیں بلکہ ان گنت تجربات سے گزرتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہم کسی ایسے نظام کو نافذ نہیں کرسکے ہیں جو مکمل اور مؤثر نظام ہو۔ جب نظام نہیں ہوگا تو ملک ایسی ہی افراتفری، ہیجان اور غیر یقینی کی کیفیت سے گزرے گا جس سے ہم بدقسمتی سے آج کل دوچار ہیں۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس ملک کے پسماندہ ہونے، غریب کے غریب ترین ہوجانے، امیر کے امیر ترین ہوجانے کا اہم ترین سبب کرپشن ہے۔ لیکن کیا یہ محض مالی کرپشن ہے؟ کیا مالی کرپشن سے کہیں بڑھ کر بڑا جرم ملک کا نظام مفلوج کرنا نہیں ہے؟ کرپشن سے کہیں زیادہ بڑا جرم کیا ملک کا آئین توڑنا نہیں ہے؟ یا کرپشن سے بھی کہیں بڑا جرم ملک کو دولخت کردینا نہیں ہے؟
یہاں پر ایک سیاسی حکومت جانے والی حکومت کو تمام تر مسائل کا ذمہ دار گردان رہی ہے، لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جو حکومت رُخصت ہوئی ہے اُسے آخر برسراقتدار لایا کون تھا؟ یا جانے والی حکومت کے پاس اختیارات کتنے تھے؟ اس وقت بھی جو کھیل ہماری آنکھوں کے سامنے جاری ہے، یہ کرپشن سے زیادہ سیاست کو گندا کرنے، سیاست دانوں کو بدنام کرنے، ان کے خلاف میڈیا مہم چلانے پر مبنی کھیل ہے۔ اس کے اصل مقاصد وہ نہیں ہیں جو ہمیں دکھائی دے رہے ہیں یا ہمیں سمجھ میں آرہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سندھ ہو یا پھر سارا ملک…کرپشن ناسور ہے، اس میں ہمارے سیاست دان ملوث ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ اس ملک کی خرابی کے ذمہ دار صرف گزشتہ دس سال کے حکمران ہیں۔ پسِ پردہ جو قوتیں ہوا کرتی ہیں وہی آمریتی ادوار میں اقتدار سے لطف اندوز ہورہی ہوتی ہیں۔
آصف علی زرداری کی حمایت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی میں ان کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ کو سو فیصد غلط یا پھر صد فیصد درست گردانتا ہوں۔ جب اس رپورٹ کو سندھ کی تباہی کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ درست دکھائی دیتی ہے۔ جب سندھ میں انفرااسٹرکچرل، سماجی، تعلیمی، میونسپل، شہری، دیہی معاملات کی تباہی کو دیکھا جائے تو سب کی طرح مجھے بھی یقین ہوجاتا ہے کہ سندھ میں تباہی کا سبب حکمرانوں کی کرپشن ہے۔ میں جب بحریہ ٹائون کو سندھ کی زمین کو کوڑیوں کے مول لائسنس (الاٹ) جاری ہونے کو دیکھتا ہوں تو جے آئی ٹی رپورٹ درست دکھائی پڑتی ہے، یا پھر سندھ کو انتظامی طور پر اومنی گروپ کے حوالے کرنے کی روش نظر آتی ہے تو جے آئی ٹی رپورٹ میں تب بھی کچھ نہ کچھ صحیح دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن سندھ سمیت ملک بھر میں کرپشن کی بنیاد محض دس برس کی منتخب حکومت میں نہیں، بلکہ اس سے پیشتر آمریتی حکومت میں بھی پڑی تھی۔ یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جس جے آئی ٹی نے اجمل پہاڑی پر ایک سو افراد مارنے کے ثبوت دیے، اسے معزز عدالت نے ضمانت دے ڈالی۔ کامران مادھوری سمیت چکرا گوٹھ یا 12مئی (2007ء) کے قاتلوں پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کچھ نہ کرپائی تو یہی رپورٹ صرف دو بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کے خلاف ٹھیر (ثابت ہو) سکے گی؟ سیاست دانوں کے خلاف جے آئی ٹیز بنانے کا مقصد اُن کے خلاف پہلے سے تیار شدہ فائلوں پر سویلین اداروں کے ٹھپے لگوانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جے آئی ٹیز کی رپورٹس پر لوگ اسی وقت اعتبار کرسکتے ہیں جب یہ جے آئی ٹیز فقط سیاست دانوں یا مخالف سیاست دانوں کے خلاف بنانے، یا ان کی رپورٹس کی بنیاد پر من پسند نتائج دینے کے لیے نہیں ہوں گی۔ علیمہ خان، جہانگیرترین، علیم خان، پرویز خٹک، بابر اعوان سمیت حکومتی اکابرین پر بھی اسی نوعیت (کرپشن) کے الزامات ہیں لیکن ایک آزاد ہیں اور دوسرے زندان میں اسیر پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو یہ رپورٹس متنازع ہونے کے ساتھ ساتھ اس انواع کے شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوگا کہ ان رپورٹس کا مقصد واقعتاً بھی کوئی ’’خاص نتائج‘‘ کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام میں غیر سنجیدگی سے یہ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ازخود بھی صدارتی نظام کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کی واپسی کے نام پر وفاق کی مضبوطی کا مفروضہ بھی ایک مقصد ہوسکتا ہے۔ کرپشن اس ملک کی تباہی کا ایک جزو ہے لیکن کُل نہیں ہے، لہٰذا ایک ’’سچائی کمیشن‘‘ کی تشکیل ضروری ہے۔‘‘