سینیٹر سراج الحق کا ملتان میں خطاب
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق پنجاب کی تنظیمی تقسیم کے بعد ملتان میں قائم جماعت اسلامی جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹریٹ کے دورے پر پہنچے تو صوبائی امیر و سابق پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر، صوبائی سیکرٹری جنرل راؤ محمد ظفر، میڈیا کوآرڈی نیٹر کنور محمد صدیق سمیت دیگر رہنماؤں نے استقبال کیا، پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور گلدستہ پیش کیا گیا۔ صوبائی امیر ڈاکٹر سید وسیم اخترنے صوبائی ذمہ داران کا امیر جماعت سے تعارف کروایا۔ جنوبی پنجاب میں دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں اور تنظیمی امور کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اجلاس میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بھی شرکت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کہا کہ جماعت اسلامی بہاولپور صوبے کی بحالی اور جنوبی پنجاب کے قیام اور اس خطے کی پسماندگی، غربت کے خاتمے، کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے تحریک چلائے گی، ہر فورم پر اس کے لیے آواز اُٹھائی جائے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جائے گا، تنظیم کو گاؤں اور محلے کی سطح تک قائم کیا جائے گا۔ اس خطے کی پسماندگی اور غربت کے ذمہ دار یہاں کے جاگیر، وڈیرے اور سرمایہ دار ہیں، جو غریبوں کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، اپنی دولت میں اور غریبوں، مسکینوں، مظلوموں کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔ شریف اور دیانت دار لوگوں کے لیے جماعت اسلامی کے دروازے کھلے ہیں۔ احتساب وقت کی ضرورت ہے، یہ کڑا اور بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ اگر صحیح معنوں میں احتساب ہوجائے تو ایوان خالی اور جیلیں بھر جائیں گی۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے۔ کسان اور زراعت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کھاد، بیج اور زرعی ادویہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے کسانوں کو زندہ درگور کردیا ہے، اُن کو پیداواری لاگت بھی نہیں مل رہی۔ لوٹوں، لٹیروں نے اس خطے کو پسماندگی اور غربت کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی غریبوں، مزدوروں، کسانوں کی جماعت ہے جوملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے جو ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ سود کے خاتمے اور اسلامی معیشت سے ہی ملک ترقی کرے گا اور عوام خوشحال ہوں گے۔ جماعت اسلامی صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے بھرپور مہم چلائے گی، تاہم بہاولپور صوبے کو بھی بحال کیا جائے۔ عوام نت نئے ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان برپا ہونے پر فاقے کررہے ہیں، جبکہ حکومت بسنت اور سینما گھروں کی نوید سنارہی ہے۔ نئی حکومت اقتدار میں آنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی لائی ہے، نت نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، ہر روز ایک نیا منی بجٹ آتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے موجودہ حکمرانوں نے تبدیلی کے جو سبز خواب دکھائے تھے وہ تبدیلی بجلی، گیس، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی تبدیلی ہے۔ ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن صورت حال یہ ہے کہ بے روزگار آج روزگار کے لیے جلوس نکال کر سڑکوں پر ہیں۔ غریب عوام کوگزشتہ 70برسوں سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ 2 کروڑ 28لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، 80 ہزار سے زائد لوگ کینسر، 35 ہزار سے زائد بلڈ پریشر ودیگر بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ہسپتال کم ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ تعلیم وصحت کی سہولیات فراہم کرنے اور بچوں کے ہاتھوں میں قلم و کتاب دینے کے بجائے بسنت منانےاور سینما گھر بنانے کی نوید سنائی جارہی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسمبلی میں بیت المقدس کو یہودیوں کے حوالے کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، اور غیر مسلم ڈاکٹر رمیش کمار کی طرف سے شراب پر پابندی کے بل کو پیش کرنے پر اسمبلی کے اراکین واک آؤٹ کرجاتے ہیں۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ ہندو ممبر قومی اسمبلی شراب پر پابندی کا بل پیشکرتا ہے اور مسلمان اراکین پارلیمنٹ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر رمیش کمار کی تحسین کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی برائی کے معاملے میں ایک ہیں خواہ وہ شراب پر پابندی کا معاملہ ہو، یا گستاخِ رسول آسیہ مسیح کی رہائی کاایک اسلامی و فلاحی ریاست میں ایسے اراکینِ اسمبلی کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63کے تحت سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ مسیح کی رہائی پر تینوں جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے خوشی کا اظہار کیا۔ حیرانی کی بات ہے کہ نہ سیلاب آیا ہے، نہ زلزلہ، اور نہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں مگر پاکستانی روپیہ گررہا ہے۔ قوم نے مہنگائی کے لیے مینڈیٹ نہیں دیا تھا، اگر موجودہ حکومت مسائل حل نہیں کرسکتی تو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرے۔
جامعہ مسجد مدرسہ جامع العلوم میں خطبہ جمعہ
سینیٹر سراج الحق نے مدرسہ جامع العلوم کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہدیا، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جہالت، اندھیرا اور علم، روشنی ہے۔ علم کے بغیر حق تک پہنچنا ممکن نہیں، اور نہ ہی زندگی کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کا نظام غالب کرنے کے لیے حکومت حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور عین عبادت ہے، جماعت اسلامی اسی نظام کے لیے جدوجہد کررہی ہے جہاں نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل، حلال کمانا آسان اور حرام مشکل ہوگا۔ اخلاقی، معاشی، سیاسی، نظریاتی کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اللہ ایک، تو اُس کا نظام اسلام بھی ایک ہے جہاں سوشلزم، کمیونزم، سیکولرجمہوریت جیسے نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔ قومیت، فرقہ واریت، لسانیت، علاقائیت کے نام پر اُمتِ مسلمہ کو تقسیم کرنے کے بجائے اُمتِ مسلمہ کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمِ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پونے دو ارب مسلمان ہیں، تیل کے 75فیصد ذخائر، 15 سمندروں میں سے9سمندر، دنیا کی دولت کا 22 فیصد اُن کے پاس ہے۔ پونے تین کروڑ مربع میل رقبہ اور53 لاکھ افواج رکھنے کے باوجود کسی ایک اسلامی ملک میں اسلامی نظام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کررہی ہے، عوام ہمارا ساتھ دیں۔