افغان مفاہمتی عمل،کیا پائیدار ثابت ہوگا؟

پاکستانی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کی رپورٹ

افغان مسئلے کے حل میں ایک بڑی پیش رفت افغان طالبان حکومت اور امریکہ کے درمیان باہمی مذاکرات کا آغاز ہے۔ باہمی مذاکرات بنیادی طور پر وہ نکتہ تھا جسے افغان بحران کے حل میں کنجی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ افغان امور کی سمجھ بوجھ رکھنے والے تمام اہلِ دانش اس بنیادی نکتہ پر متفق تھے کہ مسئلہ افغانستان کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات سے ہی ہوگا۔ ان ہی سیاسی پنڈتوں کے بقول مسئلہ افغانستان کا حل اُس وقت تک ممکن اور پائیدار نہیں ہوگا جب تک خود براہِ راست افغان طالبان کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ ماضی میں امریکہ سمیت دیگر ممالک اور افغان حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی بھی کوشش مثبت نتائج نہیں دے سکی۔ امریکہ اور افغان حکومت نے پاکستان کو باہر نکال کر مفاہمت کی جو کوشش کی وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔ اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔ امریکہ اور افغان حکومت یہ سمجھتے تھے کہ افغان بحران کی بڑی وجہ پاکستان ہے، اور ہمیں پاکستان کو باہر نکال کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ لیکن اب ان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ وہ غلطی پر تھے اورافغان مسئلے کے لیے پاکستان کی شمولیت ناگزیر ہے۔
اب بھی جو سیاسی دربار امریکہ، افغان حکومت اور دیگر ممالک بشمول پاکستان کی مدد سے افغان مفاہمتی عمل کے لیے سجایا گیا ہے اُس کی کامیابی کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ افغان مسئلہ سادہ نہیں بلکہ خاصا پیچیدہ ہے۔ مسئلہ اب محض افغانستان کا نہیں بلکہ اس میں خطہ سمیت باہر کی دیگر بڑی طاقتوں کے فادات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہر فریق بات چیت کا تو حامی ہے مگر اپنے اپنے مفادات کے دائرے میں بھی قید ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو داد ملنی چاہیے کہ حالیہ جو مذاکراتی عمل متحدہ عرب امارت میں ہورہا ہے وہ پاکستان کی کوششوں کا حصہ ہے۔کیونکہ اصل نکتہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا جو یقینی طور پر پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر تو بٹھا دیا ہے مگر ان مذاکرات کا مستقبل امریکہ اور افغان حکومت کے رویّے پر منحصر ہوگا۔ ایک بات یہ سمجھنی ہوگی کہ طالبان اگرچہ مذاکرات کا حصہ بنے ہیں لیکن اُن کے اپنے داخلی محاذ پر افغان حکومت اور امریکہ کے بارے میں بہت زیادہ تحفظات ہیں، اورکچھ بڑے نام مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ اس لیے فوری طور پر ان مذاکرات سے نتائج برآمد کرنے کے بجائے ابتدا میں اعتماد کا ماحول بنانا ہوگا اور اسی بنیاد پر مفاہمت کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان میں موجود افغان امور اور دیگر علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے ایک بڑے تھنک ٹینک ’’انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز‘‘ نے مسئلہ افغانستان پر ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے چند پہلو یا نکات اہم ہیں۔ اول، اس تھنک ٹینک کے بقول حالیہ چند مہینوں میں افغان مسئلے کے حل کے جو نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں وہ امریکہ اور پاکستان کی باہمی کوششوں کا نتیجہ اور امید کی کرن ہیں، تاہم ان کا منطقی نتیجہ اخذ کرنا ابھی مشکل ہوگا۔ دوئم، ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ سمیت دیگر طاقتوں کا یہ احساس مضبوط ہوا کہ افغان طالبان ایک طاقت ہیں اور اُن کو نظرانداز کرکے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ افغان طالبان سے براہِ راست یہ مذاکراتی عمل افغانستان میں ان کے مستقل کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ سوئم، وزیراعظم عمران خان کے بقول پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ ہم افغانستان میں دوبارہ روس کے انخلا کے بعد والی صورت حال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے۔ چہارم، ماسکو فارمیٹ میں افغان طالبان اور افغان حکومت دونوں کی شرکت ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کی رپورٹ میں افغان حکومت کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں مختلف قومیتیں، کابل اورگرد ونواح تک محدود حکومت کی عمل داری، افغان طالبان اور وار لارڈز کی موجودگی اور کچھ عناصر کی داعش سے وابستگی، قومی فوج اور مضبوط معیشت کا نہ ہونا شامل ہیں۔ کیونکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بقول افغان حکومت نہ تو امریکی یا غیر ملکی امداد کے بغیر کھڑی ہوسکتی ہے اور نہ ہی امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کی بقا رہنا، اور حالات سے نمٹنا ممکن ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جو عناصر طالبان میں افغان حکومت کے حامی نہیں وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اور افغان طالبان کے ماسکو اور ایران سے تعلقات بھی کچھ مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں افغان اور بھارت گٹھ جوڑ پر پاکستان میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کے بقول افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹرانزٹ تجارت، امن فارمولا طے کرنے سے قبل الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا، تمام فریقین کا کردار حتمی طور پر طے کرنا، مسئلے کے حل میں کٹھ پتلیاں ختم کرنا، دو طرفہ قیدیوں کی رہائی، سیز فائر، طالبان کے زیراثر علاقوں میں ان کی بالادستی کو تسلیم کرنا یقینی طور پر افغان مسئلے کے حل اور مرکز میں اقتدار کی شراکت داری کو ممکن بناسکتا ہے۔
اس رپوٹ سے ہٹ کر اس پہلو کو بھی سمجھنا ہوگا کہ بھارت افغان گٹھ جوڑ بھی افغان حکومت کو کسی ایسے فارمولے پر متفق نہیں ہونے دے گا جو پاکستان کے اثرونفوذاور اہمیت کو بڑھائے۔ افغان حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت کی حمایت میں کھل کر پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ حال ہی میں افغان صدر نے جو بڑی تقرریاں کی ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیشہ سے پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں ۔ افغانستان میں پاکستان کی مخالفت کی جو شدت غالب ہے اس میں دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ خود بھارت بھی ہے جوخطہ سے زیادہ اپنا مفاد دیکھ رہا ہے۔
افغان طالبان بھی اگر امریکہ سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں تو اس میں پاکستان سمیت کچھ اورممالک نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے، اور ان کے بقول مذاکرات میں جو بھی حتمی فیصلے ہوں گے ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس لیے امریکہ اور افغان حکومت کا خود بڑا امتحان ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دُہرانے کے بجائے ایسا کچھ کریں جو مسئلے کے حل کی طرف بڑھنے میں مدد دے سکے۔
امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی جو بات سامنے آئی ہے اس سے بھی افغان حکومت پریشان ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم میں بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ ٹرمپ پالیسی کا بنیادی نکتہ سب سے پہلے امریکہ کے مفادات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کی افغانستان سے فوجی انخلا کی پالیسی افغان بحران کا حل ہے؟ یا وہاں پر پہلے سے موجود حالات کو اور زیادہ بگاڑ دے گی؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے تناظر میں ٹرمپ سے ہٹ کر پینٹاگون کی پالیسی کیا ہوگی، یا دونوں ایک ہی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں! اسی طرح امریکہ نے چین، ایران، روس کے تعاون کی بھی بات کی ہے اور اس کو احساس ہے کہ ان کی مدد کے بغیر افغان حل پائیدار نہیں ہوگا۔ پاکستان کا افغان مسئلے کے حل میں کلیدی کردار ہے، کیونکہ پاکستان افغان مسئلے کو جہاں خطہ کا مسئلہ سمجھتا ہے وہیں براہِ راست پاکستان کا داخلی استحکام بھی مضبوط اور پُرامن افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے پاکستان کی پوری کوشش ہوگی کہ حالیہ مذاکرات میں ہر حال میں افغان مسئلے کا ایسا حل سامنے آئے جو مثبت بھی ہو اور فیصلہ کن بھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت دیگر بڑی طاقتوںکو اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کو باہر نکال کر افغان مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ بہرحال افغانستان کے تناظر میں اچھی خبروں کے باوجود ہمیں بڑی توجہ سے طویل مدتی اور مختصر مدتی منصوبہ بندی اور فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کے ماحول کو زیادہ مضبوط بنانا ہوگا، کیونکہ اسی میں افغان مسئلے کا پُرامن حل موجود ہے۔

خارجہ محاذ: حکومت کا سب سے بڑا متحان

اس وقت سب سے اہم معاملہ جس کا پاکستان کی سیاست اور اندرونی حالات سے بہت گہرا تعلق ہے، طالبان امریکہ مذاکرات ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی سیاست پر طالبان، امریکہ مذاکرات کے سائے بہت گہرے ہیں۔ یہ مذاکرات کامیاب رہے تو سیاست کا میدان اپوزیشن کے لیے صحرا بن جائے گا، اور مذاکرات ناکام ہوئے تو ناکامی کا سارا ملبہ اسلام آباد کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور تجزیہ کار بھی احتیاط برتیں۔ تجزیہ کاروں اور میڈیا سے ایسے مطالبات درست سہی، لیکن حکومت سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے وزراء کی زبان بندی پر توجہ دے۔شاید اسی لیے پالیسی سازوں نے وزارتِ خارجہ میں ایک تھنک ٹینک تشکیل دیا ہے جس میں ماہر سفارت کار شامل کیے گئے ہیں، تاکہ غیر جانب دار خارجہ پالیسی مرتب کی جاسکے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی تھنک ٹینک کے سربراہ ہوں گے، اور یہ فورم18 رکنی ہوگا۔ مشاورتی کونسل برائے خارجہ امور کے تمام اراکین اعزازی طور پر کونسل کا حصہ ہوں گے۔ کونسل میں سابق سفیروں، سابق سیکریٹری خارجہ اور تعلیمی اداروں سے ماہرین کو منتخب کیا گیا ہے جو اپنے اداروں میں اس حوالے سے ہونے والی تحقیق کے نتائج سے آگاہ کریں گے۔ یہ تھنک ٹینک جارحانہ مزاج کی خارجہ پالیسی تشکیل دے سکتا ہے۔ فارن سروس اکیڈمی اسلام آباد بھی اس فورم کا حصہ بنادی گئی ہے، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز بھی اس ایڈوائزری کونسل میں شامل ہوگا۔ اس کونسل کی تشکیل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کونسل مستقبل کی خارجہ پالیسی کے نکات طے کرے، کیونکہ پالیسی سازوں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ گزشتہ 17 برسوں میں افغانستان اور اس خطے میں امریکہ نے تباہی مچائی ہے۔ ان دو عشروں کے بعد امریکہ، پاکستان، طالبان اور افغان حکومت جس طرح مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیںتاریخ کے فیصلہ کن لمحات ہیں،ان مذاکرات کے نتیجے میں پہلی خوش خبری یہ ہے کہ نیٹو فورسز کی بڑی فوجی طاقت کابل کے محاذ سے دست بردار ہورہی ہے، زیر قبضہ علاقہ رقیبوں کے حوالے کرکے، اور اپنے حلیفوں کو تنہا چھوڑ کر جارہی ہے۔ فوجی قوت مذاکرات پر اس لیے آمادہ ہوئی کہ واشنگٹن کے حریف طاقتور ہورہے تھے۔ یہ مذاکرات اُس ہیجانی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں جس میں امریکہ اس وقت مبتلا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اپنے گھر میں نفسیاتی شکست ہوئی کہ ان کے معتمدِ خاص اور وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ ’’آپ اپنے مزاج کا وزیر دفاع ڈھونڈ لیں‘‘۔ اُن کے بعد چیف آف اسٹاف جنرل (ر) جان کیلی بھی مستعفی ہوچکے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اُن سے مشاورت ترک کردی تھی۔ یہ دونوں استعفے جتنے بھی بھاری تصور کیے جائیں صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ افغانستان اور دیگر محاذوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیں گے، لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ انہیں مسلسل منع کرتی رہی کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے امریکہ کے حریف برتری حاصل کرجائیں، بلکہ افغانستان کے معاملے میں اُن سے مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ کروا لیا۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی بڑھتی کامیابیاں، افغان فوجیوں کے بڑھتے ہوئے جانی نقصانات اور خود اتحادی افواج کے جانی نقصانات ناقابلِ برداشت ہوتے جارہے تھے۔ نومبر کے شروع میں قندھار میں جو اتحادی فوجوں کا قلعہ ہے، ایک اندرونی حملے میں جنرل عبدالرزاق اور سینئر جرنیل مارے گئے، جبکہ امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر بال بال بچ گئے۔ اس حملے کے بعد امریکی صدر نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ افغانستان میں ہزیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی اصل سوچ پلٹ دی۔ اس پس منظر میں امریکہ نے طالبان سے براہِ راست بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ امریکہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنی نصف فوجوں کو آئندہ دو مہینوں میں واپس بلا لے گا۔ کابل اور نئی دہلی سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کابل اور نئی دہلی کو بس کے نیچے کچل کر نکل گئے ہیں۔ سینیٹر لنڈسے گراہم اور سینیٹر مک کین افغان جنگ کے حامی رہے ہیں، انہوں نے امریکی فوجوں کی واپسی کے اعلان کی شدید مخالفت کی ہے کہ اس انخلا سے امریکہ اُن تمام فوائد کو ضائع کردے گا جو اس نے 17 سال کی جنگ میں حاصل کیے ہیں، لہٰذا امریکہ کو ایک اور نائن الیون کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ طالبان کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ اتنی بڑی کامیابی کو اندرونی خانہ جنگی میں ضائع کردیں گے، غیر حقیقی ہے۔ طالبان نے ایک محفوظ افغانستان بنایا تھا اور ان کی شوریٰ نے اسامہ بن لادن کو تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی، لہٰذا امریکی حملہ بے بنیاد تھا، تکبر اور عجلت پر مبنی تھا جو لاکھوں جانوں کے زیاں اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بنا۔ کابل حکومت صرف امریکی طاقت کی وجہ سے قائم ہے۔ امریکی فوجی انخلاء کے بعد طالبان کے سوا کوئی قوت اس کو متحد نہیں رکھ سکتی، ہاں اس بات کا امکان موجود ہے کہ بھارت کی مدد سے شمالی اتحاد واپس اُن علاقوں پر ابتدائی طور پر قابض ہوجائے جہاں وہ امریکی حملے سے پہلے قابض تھا۔ ان مذاکرات کو ایک نئی پیش رفت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا کہ اس خطے میں اب نئی صف بندی ہورہی ہے۔ ایک جانب چین، روس، ترکی اور ایران کااتحاد بن رہا ہے۔ دوسرا اتحادامریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اور اس کے خلیجی حلیفوں کا بن رہا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی ایک گروپ میں کلی طور پر شامل ہونا مشکل عمل ہوگا، لیکن وہ ایک توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ کرے گا۔