مغرب زدہ معاشرے بہ یک وقت فلسفیانہ مایوسی اور سائنسی سرکشی سے دوچار ہیں
جس انسان کے پاس زندگی کے ’کیوں؟‘ کا جواب ہے، وہ زندگی کے ہر ’کیسے؟‘ کا جواب حاصل کرسکتا ہے۔ مجذوب فرنگی نٹشے کی یہ بڑ مغرب کے لیے اتنی بڑی بات بن چکی ہے کہ یقیناً اس سے بڑی بات مغرب کے لیے ممکن نہیں۔ مغرب معنی کی تلاش میں نہ جانے کیسے کیسے ’کیسے؟‘… ’ایسے!‘ کرچکا ہے۔ مگر اس ایک ’کیوں؟‘ نے اسے تاریخ کی بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کیمیا اور حیاتیات کب وجود میں آئے؟ زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی؟ معاشرتی حیوان کیسے کیسے حالات سے گزر کر مال دار انسان تک پہنچا؟ قحط سالی کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ بیماریوں اور وباؤں سے کیسے نمٹا جائے؟ انسانی دماغ کے مالیکیولز کس طرح کام کرتے ہیں؟ آدمی کیسے سپرہیومن بن سکتا ہے؟ مریخ کیسے پہنچ سکتا ہے؟ ورلڈ آرڈر کیسے قائم رکھ سکتا ہے؟ غرض، بے شمار کیسے؟؟؟ اورکیا؟؟؟ نمٹائے جاچکے ہیں۔ اس ایک ’کیوں؟‘ پر آکر سوئی اٹک گئی ہے… اور اس ایک سوئی کی ٹک ٹک ہی کائنات کی وسعت و معنی کا تعین کررہی ہے، یہی زمان و مکان کی انتہاؤں کو سمیٹ کر رکھ دے گی، جب پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی مانند اڑے اڑے پھریں گے، جب آسمان لپیٹ دیے جائیں گے، جب زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کیوں زندہ دفنائی گئی؟ جب تک ’کیوں؟‘ حل نہیں ہوگا، ’کیسے؟‘ کا سلسلہ نہیں تھمے گا۔
غرض ’کیا‘ اور ’کیسے‘ کی دوڑ میں روشنی کی سی رفتار لانے والا انسان اس ایک ’کیوں‘ پر پہنچ کر جس مایوسی اور بے بسی سے دوچار ہوا ہے، اس نے فلسفہ کی جان لے لی ہے، مگر سائنس پرستوں کی سرکشی برقرار ہے۔ مغرب زدہ معاشرے بہ یک وقت فلسفیانہ مایوسی اور سائنسی سرکشی سے دوچار ہیں۔ اس صورت حال میں معنی کی تلاش ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی واضح کرچکی ہیں کہ انسان اپنا بوریا بستر باندھ لے، کیونکہ اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا عہد ہے، کیونکہ ارتقا کا یہی تقاضا ہے کہ امیبا سے شروع ہونے والا سفر جاری رہے۔ جو بندر سے انسان بنا ہے، اب اسے انسان سے روبوٹ اور سائی بورگ بننا ہی ہوگا۔ یہ حقوق، تہذیب، رشتے داریاں، مروتیں اور احترامِ آدمیت وغیرہ سب بے کار باتیں ہیں۔ مگر جیسا کہ ظاہرہے، اکثر مغربی معاشرے بھی انسانی مسائل کی روح سمجھنا چاہتے ہیں، اور اسے نفسیات کا عنوان دیتے ہیں۔ اس حوالے سے نیویارک کا آوارہ مزاج دانشور سپر بلاگر مارک مینسن، جس کے آن لائن مستقل پڑھنے والوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے، dont try کے عنوان تلے لکھتا ہے کہ ’’ہم ’پہلی دنیا کے مسائل‘ پرآن لائن لطیفے چھوڑتے رہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ہی (مبینہ) کامیابی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اعصابی تناؤ اورنفسیاتی مسائل، مزاج میں عدم توازن، اور ڈپریشن نے تیس سال میں انتہائی تیز رفتاری سے ہمیں لپیٹ میں لیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہر شخص کے پاس فلیٹ اسکرین ٹی وی ہے، گھر کی ساری ضرورتیں گھر پر پہنچادی جاتی ہیں، ہمارا بحران صرف مادی نہیں رہا ہے، یہ روحانی اور وجودی بحران (وجود کی معنویت کا سوال) بن چکا ہے۔ ہمارے پاس اتنا زیادہ سامانِ زندگی ہوچکا ہے، اور اس قدر مواقع پیدا ہوچکے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی کے ساتھ مزید کیا کریں!!! (ہل من مزید؟) اب بھی لاتعداد اشیاء ہیں جنہیں ہم جان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، اور محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہرگز اتنا اہم اور عظیم نہیں جتنا کہ ہوسکتا ہے، اور یہی احساس ہمیں اندر سے چیر کر رکھ دیتا ہے۔‘‘
یہ زندگی کیوں ہے؟ انسان کیوں وجود میں آیا ہے؟ خوشی وغم کا احساس کیوں ہے؟ باہم تہذیب واحترام کیوں ہے؟ اچھے برے کا ادراک کیوں ہے؟ خیروشر کا امتیاز کیوں ہے؟ کائنات پر غور و فکر کیوں ہے؟ تخلیق میں یہ کامل توازن کیوں ہے؟ زمین پر انسان کی زندگی کا سارا سامان کیوں ہے؟ یہ سورج، چاند، ستارے کیوں ہیں؟ یہ رنگ وبو، یہ اشعار، یہ افسانے کیوں ہیں؟ کائنات کے ذرے ذرے میں یہ کمالِ اتفاق کیوں ہے؟… جب اس ’کیوں؟‘ سے مایوسی طاری ہوجاتی ہے، تو زندگی کے تین ہی راستے بچتے ہیں: بے خودی، لاتعلقی، یا خودکشی۔ ایسا ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد دیکھا گیا، جب بڑے بڑے ادیبوں نے فلسفیانہ خودکشی کرلی۔ وجودیت اور مابعد جدیدیت وجود میں آئیں۔ اسی راکھ سے امید کی ایک چنگاری پیدا ہوئی۔ نازی کونسنٹریشن کیمپ سے رہائی پانے والے ایک ماہر نفسیات وکٹر فرینکل نے مختصر سی قید بیتی لکھی۔ Man’s search for meaningکے سوصفحات قید کی بدترین صعوبتوں پر مشتمل ہیں، جبکہ دیگر پچپن صفحات پر ’لوگوتھراپی‘ اور ’صبر و استقامت‘ کی نفسیاتی (روحانی) فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ گوکہ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں خریدی اور پڑھی گئی، مگر عالمی اشرافیہ نے وکٹر فرینکل کی بطور ماہر نفسیات پذیرائی ممکن نہ ہونے دی، اور ہولوکاسٹ ماہرین نے انہیں ہم خیال نہ پاکرمتنازع بھی بنایا۔ جبکہ یہ سگمنڈ فرائیڈ کے مقابلے میں بہت بڑے ماہر نفسیات تھے۔ تجربات کی جس بھٹی میں وکٹر فرینکل کندن بنے تھے، اس کا تصور ہی سگمنڈ فرائیڈ جیسے جنسی مریض کی جان لینے کے لیے کافی تھا (کہاں نازی کیمپوں کے قیدیوں کا نفسیاتی مشاہدہ، اور کہاں نرم صوفے پر خواتین کی نفسیاتی ہراسانی!)، مگر فرائیڈ مغرب کی اہم ضرورت ہے، اس کے بغیر خواہشاتِ نفس کا کاروبار چلنا ممکن نہیں۔ فرائیڈازم سرمایہ دارانہ نظام کا اہم ستون ہے۔ وکٹر فرینکل کے معاملے میں عالمی اشرافیہ کے رویّے کی چند وجوہات بالکل واضح ہیں: مذہب کی حقانیت پرایمان، انسانی نفس میں خدا کی قوتِ محرکہ پر یقین، سگمنڈ فرائیڈ کی مریضانہ جنس پرستی سے عدم اتفاق، اور اسرائیل کے وجود میں عدم دلچسپی۔ وکٹر فرینکل ہولوکاسٹ ہیرو کہلائے جانے کے باوجود اسرائیل کے شہری نہیں بنے، انہوں نے ویانا میں زندگی گزارنا اور مرنا پسند کیا۔
وکٹر فرینکل جب آزاد ہوئے، سوالوں کا تانتا بندھ گیا۔ انہوں نے زندہ بچ جانے کی دو وجوہات بیان کیں: زندگی کی معنویت پر ایمان، اور مایوسی سے ممکنہ گریز۔ انہوں نے علم نفسیات میں نئے مکتب فکر اور طریقہ علاج logotherapyکی بنیاد رکھی، جسے Third Vienna school of Psychology کا نام دیا گیا۔ گسٹاپوکونسنٹریشن کیمپ سے زندہ بچ نکلنا ایک عظیم تجربہ تھا، سوائے خدائے بزرگ و برتر، کسی کا خوف باقی نہ رہا تھا… لوگو تھراپی نام تھا انسانی زندگی کے لیے معنویت کی تلاش کا، یعنی کوئی کیوں کر زندہ رہے؟ یا رہنا چاہے؟ زندگی کے معنی کا تعین لوگوتھراپی کی بنیادی تھیوری تھی۔ وکٹر فرینکل نے کہا کہ زندگی کی معنویت انسان کی محدود دماغی صلاحیتوں سے ماورا حقیقت ہے۔ یہی ماورا حقیقت انسانی زندگی میں معقولیت اور مقصدیت کا نہ صرف محرکِ اعلیٰ ہے، بلکہ نفسِ مطمئن کی ضامن بھی ہے۔ معنویت (logos) میں منطق(logic) سے زیادہ گہرائی اور سچائی ہے۔ انسانی نفس کی اولین اور ناگزیر ضرورت معنویت ہے۔ انسان پر سماجی حالات، معاشی ضروریات، اور حیاتیاتی کیفیات کی اثر پذیری کا تعین معنوی صورت حال سے ہی ہوتا ہے۔ اگر معنویت موجود نہیں، بقا دشوار ہوجائے۔ انسان کسی ماحول یا فطری چناؤ کا نتیجہ نہیں۔ حیاتیاتی نظریات تباہ کن نفسیات تشکیل دے رہے ہیں۔ دورانِ قید جس معنویت نے آزمائشوں کو مفہوم عطا کیا، وہ ہرگز سماجی اور حیاتیاتی صورت حال کا نتیجہ نہ تھا۔ آدمی کسی مادی وکیمیائی تعامل کا محتاج نہیں، بلکہ فیصلہ سازی سے زندگی کی راہ کا تعین کرتا ہے۔ یہ انسان کی روحانی ونفسیاتی قوتیں ہیں، جو حیاتیاتی وکیمیائی کیفیات کی تقدیر ترتیب دیتی ہیں۔ کوئی نیورولوجسٹ یا بائیولوجسٹ کبھی کسی انسان کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ انسان مادی معاملات سے ماورا ہے۔ انسان اصلاح کی خاطر دنیا بدل سکتا ہے۔ اپنی زندگی میں بھی انقلاب لاسکتا ہے۔ انسان جتنا خودمختار ہے، اتنا ہی ذمے دار بھی بن سکتا ہے، اور یہی مطلوب ہے۔ یہی انسان کا جوہر ہے کہ وہ ذہانت اور خودمختاری میں احساسِ ذمے داری سے حُسنِ توازن قائم کرے۔ نصف صدی سے (یہ 1946ء کی تحریر ہے) ماہرینِ نفسیات انسانی دماغ کی میکانکی تشریح کررہے ہیں۔ انسان کو مشین سمجھ کر تکنیکی خرابیاں تلاش کی جارہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں انسان کہیں تنہا رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلا کی شراب نوشی کا مطالعہ یہ سامنے لاتا ہے کہ 90 فیصد عادی افراد بے معنویت کا شکار ہیں۔ یہ ہے وکٹر فرینکل کی فکر اور تجربے کا لب لباب۔
مضمون کا مدعا یہ ہے کہ مغرب معنویت کی جس محرومی سے عالمی جنگوں میں دوچار ہوا، وہی محرومی اکیسویں صدی میں عالمی عفریت بن چکی ہے۔ مغرب نے عالمی جنگوں میں جس طرح ڈارون کی تھیوری اور فرائیڈ کی جنسیات سے اپنی تباہی کا سامان کیا تھا، وہی سامان اب پوری دنیا کی بربادی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ماہرینِ حیاتیات عالمی گاؤں میں بے خودی، خودکشی اور لاتعلقی ہولناک طرز پر پھیلا رہے ہیں۔ سال 2012ء میں 5 کروڑ 60 لاکھ انسان فوت ہوئے، 6 لاکھ 20 ہزار افراد پُرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئے، ان میں ایک لاکھ 20 ہزار جنگوں میں مارے گئے۔ جبکہ 8 لاکھ افراد نے خودکشی کی۔ قتل وغارت سے جان لینے والے طاقتور مغربی ممالک تھے، اور خودکشی کرنے والے بھی مال دار مغربی ممالک ہی تھے۔ اگر زمین پر ایک بھی قتل نہ ہو، تب بھی یہ مشینی زندگی سالانہ آٹھ دس لاکھ صاحبِ حیثیت افراد سے جینے کی خواہش چھین لیتی ہے۔ جاہلیت کی جدتیں نازی نفسیات کی جگہ آج بے حس جنگی آلات اور سپاہ تیار کررہی ہیں۔ اس بات کا برملا اظہارکیا جارہا ہے کہ انسانی اقدار اور اخلاقیات سب بے وقعت ہوچکی ہیں۔ اب دنیا پر سپرہیومن راج کریں گے۔ یہ وہ اشرافیہ ہوں گے، جو انفوٹیک اور بائیوٹیک پر اجارہ دار ہوں گے۔ یہ جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اعلیٰ دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ یہ باقی دنیا کو اتنا لاتعلق کردیں گے کہ جیسے جانور ہماری زندگی کے معاملات سے لاتعلق ہیں۔ یہ جدید سائنس پرستوں کی فکری حالت ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی معنویت توکجا، انسان کی بقاء تک خطرے میں پڑچکی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مغرب میں اس خطرے کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ پاپولرازم سیاست، عیسائی انتہاپسند سیاست، اور صہیونی ایجنڈا اپنی جگہ ہیں، مگر یہ خود سائنس پرستی اور سرمایہ پرستی کے مارے لوگ ہیں۔ ان کی کسی تحریک میں انسان کے لیے کوئی عالمی معنویت نہیں ہے۔ یہ بھی ’کیوں؟‘ کے مدلل اور مکمل جواب سے عاری ہیں اور چپ چاپ سائنس کی ہدایات پر ہی چلتے ہیں۔
اب انسان کی زندگی میں معنویت کہاں تلاش کی جائے؟ ظاہر ہے جہاں ’کیوں؟‘ کا جواب مل سکے۔ سوائے اسلام، روئے زمین پر کوئی ایسا آفاقی نظریہ موجود نہیں جو انسان کو انسان ہی سمجھتا ہو۔ ایک ایسا انسان جو رنگ، نسل، زبان، قومیت و حیثیت میں کسی بھی دوسرے انسان سے برتر نہیں۔ سوائے اچھے پسندیدہ عمل(تقویٰ)کے، کسی بھی دولت و حیثیت اور وابستگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کائنات کے خالق کا نائب ہے۔ کیا انسان کی اس سے بہتر معنویت ممکن ہے؟ تمام مخلوقات میں سب سے اشرف ہے۔ کیا اس شرف سے ارفع کوئی احساس کہیں ہوسکتا ہے؟ یہ انسان باپ ہے تو تعظیم و تکریم ہے۔ یہ انسان ماں ہے تو جنتیں قدموں تلے ہیں۔ یہ انسان بیٹی ہے تو رحمت ہے۔ یہ انسان بیٹا ہے تو نعمت ہے۔ کون سا انسانی رشتہ ہے، جسے معنویت سے معتبر نہ بنایا گیا ہو؟ کون سا انسانی کردار ہے، جس کی معنویت واضح نہ کی گئی ہو؟ یہاں تک کہ فرعون ونمرود سے جدید سائنس پرستوں تک، ظالم انسانوں کی نفسیات بھی کھول کر بیان کردی ہے… اور صرف یہی نہیں، انجامِ کارسے بھی خبردارکیا ہے۔
گو کہ سائنس پرست سمجھتے ہیں کہ وہ جہالت میں ایسی جدت لائے ہیں، جس پرتنقید کی گنجائش نہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ان کی نفسیاتی بیماری وہی پرانی ہے، جس کی تشخیص دہائیوں پہلے استاذ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی، اور علاج بھی پیش کیا تھا۔ وہی تشخیص اور علاج آج بھی اکسیرہے، اورآئندہ بھی یہی نسخۂ کیمیا ثابت ہوگا۔ وہ ’تنقیحات‘ میں ’دورِجدید کی بیمار قومیں‘ کے باب میں واضح کرتے ہیں کہ:
’’مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ہو یا غیر مسلم، بلا استثنا سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک ایسی تہذیب مسلط ہوگئی ہے جس نے سراسر مادیت کی آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری وحکمت عملی، دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پراٹھائی گئی ہے۔ اس کا فلسفہ، اس کی سائنس، اس کا اخلاق، اس کی معاشرت، اس کی سیاست، اس کا قانون، غرض اس کی ہر چیز ایک غلط نقطہ آغاز سے چل کر ایک غلط رخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے، اور اب اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظر آرہی ہے۔ اہلِ مغرب جنہوں نے اس شجرِ خبیث کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا، اب خود اس سے بیزار ہیں۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی الجھنیں اور پریشانیاں پیدا کردی ہیں جن کو حل کرنے کی ہرکوشش بہت سی الجھنیں پیدا کردیتی ہیں۔ غرض فساد کا لامتناہی سلسلہ ہے جو تہذیب و تمدن کے بداصل درخت سے نکل رہا ہے اوراس نے مغربی زندگی کو از سر تا پا مصائب وآلام کا ایک پھوڑا بنادیا ہے جس کی ہر رگ میں ٹیس اور ہر ریشے میں دُکھن ہے۔ ان کی روحیں کسی امرت رس کے لیے تڑپ رہی ہیں، مگرانہیں خبر نہیں کہ امرت رس کہاں ہے؟… یہ وقت ہے کہ مغربی قوموں کے سامنے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو پیش کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ یہ ہے وہ مطلوب، جس کی طلب میں تمہاری روحیں بے قرار ہیں… یہ ہے وہ شجرِ طیب، جس کی اصل بھی صالح ہے اور شاخیں بھی صالح، جس کے پھول خوشبودار بھی ہیں اور بے خار بھی… یہاں تم کو خالص حکمتِ عملی ملے گی، یہاں تم کو فکرونظر کے لیے ایک صحیح نقطہ آغاز ملے گا، یہاں تم کو وہ علم ملے گا جو انسانی سیرت کی بہترین تشکیل کرتا ہے۔‘