باب کے بارے میں بیٹی کے تاثرات
سمیحہ راحیل قاضی
محبت اور شفقت سے گندھا ہوا آغا جان کا وجود نہ رہا تو زندگی بقول مریم گیلانی بہت ہی خاموش ہوگئی ہے۔ یہ بے لوث رشتہ بہت ہی بھرپور تھا۔ سر پر سایہ بھی اور منزل کا نشان بھی۔ اپنے ہاتھ خالی سے لگنے لگے ہیں کیونکہ جس انگلی کو پکڑکر چلنا سیکھا تھا، جن قدموں کے نشان پر بے خطر چلی تھی کہ یہ ہمیشہ منزل تک ہی لے جائیں گے، اور جن کندھوں کو ہمیشہ سے اپنے سامنے یوں پھیلے ہوئے دیکھا تھا کہ ان سے گزر کر کبھی کوئی مشکل مجھ تک پہنچ ہی نہیں پائے گی وہ یوں اچانک ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے،کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آغا جان کی جدائی کی اذیت نے زندگی سے بے فکری کو ایسے اڑا دیا ہے جیسے تیز دھوپ میں رنگ اڑ جاتے ہیں۔ ایک درد بھرا احساس ہے جو پورے وجود میں پھیل گیا ہے کہ اب وہ سراپا محبت وجود جس میں سب غموں کا علاج اور سارے جہان کا تحفظ میسر تھا، وہ اب نہیں رہا۔
غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں کے جنگل میں
کئی شجر تھے مگر سایہ دار کوئی نہ تھا
اوریا مقبول جان نے میرے آغا جان کے بارے میں لکھا کہ ان کا کیسا چہرہ تھا کہ آنکھ اس سے ہٹتی نہ تھی۔ تبسم ایسا کہ دلوں کے زخم دھل جائیں، آنکھوں میں گہرائی ایسی جس میں اکثر حزن و ملال اور اُمتِ مسلمہ کا درد جھیل کے پانیوں کی طرح چھلکتا رہتا تھا۔ مائیکل اینجلو جسے دنیا ایک بڑا مصور مانتی ہے، جس نے روم کے گرجا گھروں میں عالم بالا کے کئی کرداروں کی تصاویر اور مجسمے بنائے، اگر وہ قاضی حسین احمد ؒ کو دیکھ لیتا تو یقیناً کسی مقرب ترین فرشتے کی تصویر ان جیسی ضرور بناتا۔ چہرہ اللہ کے نور سے روشن ہوتا تھا اور قاضی حسین احمد ؒ کا چہرہ ایسا ہی تھا جسے دیکھ کر اقبال کے مردِ مومن کی وہ چار علامتیں ’’قہاری وغفاری و قدوسی و جبروت ‘‘ایسے جھلکتی تھیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔
وفات سے چند روز قبل جب وہ بم دھماکے کے بعد عافیت سے گھر لوٹ آئے تھے تو گھر میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔ مگر جب میں اُن سے ملنے گئی تو مجھے اُن کا وہ نورانی چہرہ اتنا چمکتاہوا نظر آیا کہ میں حیرت زدہ ہوگئی ، اُس وقت مجھے آغا جان ایسے لگے ،جو اپنے رب کے بہت قریب اور اُس کی خاص رحمت سے نوازے گئے بندے ہوں، کیونکہ انہوںنے ساری عمر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک وفادار غلام کی مانند زندگی بسر کی اور اس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ مجھے ایک بزرگ نے اُن کی وفات کے بعد کہاکہ راحیل بیٹا تمہارے آغا جان اللہ کے ولی تھے اور ولی کی ولایت برقرار رکھنے کے لیے اُس کی زندگی میں کسی کو اُس کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ بڑے خشوع و خضوع سے اللہ کے دربار میں حاضری دیتے۔ آخری دنوں میں اپنے گھٹنوں کی تکلیف اور سانس کی بیماری کی وجہ سے جب مسجد نہ جا پاتے تو ہم سب کو اپنے پیچھے کھڑا کرکے اپنی خوبصورت آواز میں ایسی تلاوت کرتے کہ لگتا تھایہ آیات ابھی اسی موقع کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ نیوز ویک نے اپنے شمارے کے سرورق پر انہیں جب Saint Qaziکاخطاب دیا تو مجھے اپنے احساس پر یقین ہوگیا۔
دیوبند کے کبار علماء کے گھرانے کے فرد ہوتے ہوئے جن کا نام ہی میرے دادا جان نے حسین احمد اپنے قائد کے نام کی وجہ سے رکھا تھا۔ آغا جان بتاتے تھے کہ میں بچپن میں بولتا نہ تھا اور جب مکرم المقام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ہمارے گائوں میں ہمارے گھر تشریف لائے تو میرے داد ا جان نے انہیں کہا کہ حضرت آپ کے نام کی وجہ سے اس کا نام رکھا تھا مگر اب یہ بولتا نہیں ہے، تو انہوں نے اپنا لعاب میرے منہ میں ڈالا تھا اور پھر میرے بیان میں فصاحت و بلاغت رواں ہوئی۔ لیکن میرے آغا جان مسلک کی قید میں نہ رہ سکے اور اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے ایسے پرستار ہوئے کہ علمائے دیوبند کے آگے بھی ہمیشہ سرتسلیم خم رکھا اور حافظِ اقبال بھی ٹھیرے، اور مولانا مودودیؒ کو بھی اپنا مرشد بنائے رکھا۔ شیعہ، سنی اختلاف کو ایسے ختم کیا کہ امام رضا ؒ کے روضے پر بھی اُن کو مصلے پر امامت کے لیے کھڑا کیا گیا اور راولپنڈی میں جس مدرسہ تعلیم القرآن پر حملہ ہوا وہ میرے نانا جان کے بھائیوں جیسے دوست مولانا غلام اللہ خان ؒصاحب کا قائم کردہ ہے۔ وہ دیوبندی مسلک کا مدرسہ ہے اور میرے آغا جان ہمیشہ اس میں مہمان خصوصی ہوتے۔ آغا جان نے اس طرح کے سانحات سے بچنے کے لیے کبھی ایک پلیٹ فارم بنایا اور کبھی دوسرا، تاکہ لوگ مسالک کی قیود سے باہر نکل کر اُمت کے گلدستے میں متحد ہوسکیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کو اپنے بڑے بھائیوں جیسا عزیز رکھا اور مولانا فضل الرحمن کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح۔ دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات کے باوجود اپنے ذاتی روابط ایسے برقرار رکھے کہ چاہے نوازشریف ہوں یا شہبازشریف ،آصف علی زرداری ہوں یا چودھری شجاعت حسین، عمران خان ہوں یا محمودخان اچکزئی، سندھی قوم پرست ہوں یا پختون نیشنلسٹ… مجھے اپنے گھر اور خاندان کے افراد ہی لگتے ہیں۔ اور وہ بھی سب جواباً وہی احترام کے رویّے رکھتے ہیں۔
ورق ورق پر تری حقیقت ، ترا فسانہ ، تری محبت
کتابِ ہستی جہاں سے کھولی ، تری ہی یادوں کا باب نکلا
آغا جان ! آپ ساری زندگی نمود و نمائش اور اپنی ذات کو نمایاں کرنے سے بے نیاز رہے، مگر آپ کی رحلت پر قوم نے آپ کو ایسا خراج تحسین پیش کیا ہے کہ میں اگر صرف کالم نگاروں کے نام ہی لکھنے بیٹھ جائوں تو یہ کالم اُسی کی نذر ہوجائے گا۔ کیا اپنے اور کیا نظریاتی مخالف، آپ کے بارے میں سب کے قلم اتنی خوبصورتی سے چلے ہیں کہ بہت ہی خوبصورت گواہیاں رقم ہوئی ہیں۔ اور واقعی آپ اس شعر کے مصداق ٹھیرے ہیں جو آپ سے ہم نے بار ہا سنا :
ہو اگر خودنگر، خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مرنہ سکے
آپ نے ساری عمر اپنی خودی اور خودداری کی ایسی پرورش کی کہ آپ غیرت اور شجاعت کا استعارہ بن گئے۔ آپ کی پیشانی نے اُس سجدے کا مزا چکھا تھا جو انسان کو ہزار سجدوں سے نجات عطا کردیتا ہے۔ آپ نے ساری عمر لوگوں کے دلوں میں محبت، عزت و احترام کے بیج بوئے ہیں اور اس کے ثمرات سے ہم مستفید ہورہے ہیں۔ آپ ہماری یادوں میں تو بستے ہی ہیں مگر سال ہونے کو آیا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ آپ کے نام کی وجہ سے ہماری عزت افزائی نہ ہوئی ہو، پذیرائی نہ ہوئی ہو۔ آپ نے ورثہ میں ہمارے لیے جو نیک نامی چھوڑی ہے، اللہ ہمیں اُسے برقرار رکھنے کا اہل بنادے،آمین۔
آپ کی جان جماعت اسلامی جسے آپ نے اپنے کردار کی خوبصورتی کی وجہ سے اپنے اتنے بڑے علماء کے خاندان کی جان بنا کر ہی چھوڑا، آپ کا ہمارے لیے ایک اور قیمتی ورثہ ہے، اور آپ کی وصیت کے مطابق جو آپ نے آخری دنوں میں بارہا
کی کہ نظم جماعت سے جڑے رہنا اور اس کی اطاعت کرنا۔ آپ نے ہی ہمیں بتایا تھاکہ جماعت حفیظ بھی ہے اور امین بھی، تم یہاں سے کردار کی حفاظت بھی پائو گے اور امانت کا سلیقہ بھی سیکھو گے۔ لوگ تم سے بہت محبت کریں گے اگر تم نظم جماعت کی اطاعت میں زندگی بسر کرو گے۔ آغا جان! واقعی ہمیں یہاں سے اتنی محبت ملی ہے کہ آپ کا اتنا بڑا غم تقسیم ہوگیا ہے۔ آپ پر جان نچھاور کرنے والے نوجوان آج بھی آپ کا ذکر سنتے ہی بے قرار جذبوں سے ’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔
جمعیت کے ناظم اعلیٰ محمد زبیر صفدر آپ کی تعزیت کے لیے آئے ہوئے عرب و عجم کے راہنمائوں کو بتارہے تھے کہ یہ محض ایک نعرہ ہی نہیں تھا، ہم انہیں دیکھ کر واقعی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتے تھے۔ وہ ہمارے جوان جذبوں اور ولولوں کے لیے مہمیز کاکام دیتے تھے اور اُن کی شخصیت ہمارے لیے جوشِ جنون کی علامت تھی اور ہم اپنے آپ کو ان نعروںکو دیوانہ وار لگانے پر مجبور پاتے تھے۔
آغا جان کی زندگی اتنی بھرپور اور ہماری زندگیوں میں اس قدر پیوست تھی کہ اُن کی آواز اور اُن کے روشن خوبصورت چہرے کی مسکراہٹ مجھے اپنے آس پاس ہی چمکتی نظر آتی ہے۔ ہر بیٹی کو اپنا باپ دنیاکا سب سے خوبصورت مرد نظر آتا ہے، مگر شاید میں اس بات میں حق بجانب ہوں کہ میرے آغا جان واقعی وجاہت کا نمونہ تھے۔ اور بڑھاپے میں تو اُن کی شخصیت شفقت و جمال سے پُرنور ہوگئی تھی۔ وہ عورت کے ہر روپ کے لیے… چاہے وہ ہم بیٹیاں تھیں، یا اُن کی بہنیں یا اُن کی عزیز ہم سفر میری امی، یا اُن کی ہزاروں کارکنان… اتنے شفیق اور محبت کرنے والے تھے اور اُن کے پاس اُن کے لیے صرف عزت اور محبت تھی۔ وہ ہر وقت ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنایاکرتے تھے کہ یہ عورتیں آبگینے ہیں۔ بیک وقت ہیرے کی طرح مضبوط اور کانچ کی طرح نازک ہوتی ہیں۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو خوشبو اور نماز کے ساتھ یاد کیا ہے۔ انہوں نے بھی نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عاشق اُمتی کی حیثیت سے ہمارے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیے رکھا۔ اسی لیے بشریٰ رحمن آپا نے مجھے کہاکہ راحیل میری بہن! آغا جان کی جدائی کا درد ایسا نہیں ہے کہ آنسوئوں میں بہہ جائے۔ یہ تو کلیجے میں جاکر کھڑا ہوجاتا ہے، کیل ہوجاتا ہے، پھر زندگی کے کڑے کوس زندہ ہوجاتا ہے، جاگ اُٹھتا ہے،کوئی لمحہ اُن کی یادوں کے بغیر نہیں گزرتا۔ بیٹی کے آنچل میں باپ کے آدرش کی قندیل ہمیشہ جلتی رہتی ہے جسے وہ زمانے کی آندھیوں سے بھی بچا کر رکھتی ہے اور اپنے آنسوئوں سے اُسے بجھنے بھی نہیں دیتی۔ تم آگے بڑھ کر قندیل اُٹھالو۔ اس کی روشنی میں اُن کے نقوشِ قدم پر چلنا، تمہارے پاس اُن کی تربیت ہے، صبر وتحمل کا ترکہ ہے، رزقِ حلال کی لذت ہے، آگہی کی لگن ہے ۔ ان کے بنائے ہوئے راستوں پر ملک اور ملت کی خدمت کرنا، قوم کی بیٹیوں کی راہنمائی کرنا۔ یہی مرہم ہے زخم جدائی کا، اور یہی سلیقہ ہے انہیں زندہ و تابندہ رکھنے کا۔