سترہ ممالک کے 40اداروں نے اسٹال لگائے
ملک کے نامور پبلشرز کے تین سوسے زائد اسٹال
ادارۂ نورِ حق کے اسٹال پر تمام مہمانوں کو خوبصورت بیگ میں سید مودودیؒ کے اصلاحی کتابچے مفت دیے گئے
کراچی میں 14ویں انٹرنیشنل بک فیئر کا انعقاد نہایت اچھے انتظامات کے ساتھ ہوا۔ پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس سال تین سو سے زائد اسٹال لگائے گئے ہیں جن میں ایران، ہندوستان، ترکی، سنگاپور، چین، ملائشیا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات سمیت 17 ممالک کے بڑے پبلشرز کے اسٹال بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ امر توجہ طلب ہے کہ وہ سینکڑوں چھوٹے پبلشرز جو کم قیمت پر کتابیں شائع کرتے ہیں، مہنگے نرخوں پر مہیا کیے گئے اسٹال حاصل نہیں کرسکتے، چنانچہ وہ اپنی مطبوعات پیش نہیں کرسکے، امید ہے کہ انتظامیہ آئندہ اس مسئلے کے حل پر بھی توجہ دے گی، اور یوں کتابوں کی فروخت میں کئی گنا اضافہ ہوسکے گا اور شائقین مہنگی کتب کے ساتھ ارزاں کتابیں بھی حاصل کرسکیں گے۔
کتاب میلے کا افتتاح صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کیا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ کراچی کی طرح سندھ کے دیگر شہروں حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپورخاص، سکھر وغیرہ میں بھی ایسے کتب میلے منعقد کیے جائیں، آئندہ محکمہ تعلیم و ثقافت بھی میلے میں بھرپور شرکت کرے گا۔ انہوں نے تمام پبلشرز کو اپنے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ تمام بڑے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھی بڑے کتب میلوں کا انعقاد کیا جائے کیونکہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں، کتاب زندگی ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ نئی نسل کتابوں سے دُور ہوتی جارہی ہے، ہمیں اسے کتاب سے جوڑنا ہوگا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں کتاب میلہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اُردو زبان کا استعمال ہمارے لیے فخر کی بات ہے، مگر ہمیں دوسری علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے کہا کہ ہمیں فروغِ کتب اور کتب بینی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، ہم اسی ماہ سے فریئر ہال میں ہفتہ وار کتب بازار کا اہتمام کررہے ہیں، جہاں ہر اتوار کو شائقینِ کتب کے ساتھ طلبہ و طالبات بھی رعایتی نرخوں پر کتابیں حاصل کریں گے، اور یہ سلسلہ کراچی کے دوسرے تفریحی مقامات تک لے جایا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں کمشنر کراچی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈی سی سائوتھ صلاح الدین، چیئرمین ڈی ایم سی سائوتھ ملک فیاض، ایس ایس پی سائوتھ پیر محمد شاہ، کے ایم سی سائوتھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر انفارمیشن عبدالمعیز قاضی کے علاوہ دیگر اراکین بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر سید سلطان خلیل ہیں جنہوں نے اس ضمن میں ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی جس میں راقم الحروف عبدالصمد تاجی، سید عبداللہ شاہ، محسن علی ناریجو، قادر بخش سومرو، عبدالغفار، محمد قاسم، ارشد کریم، عبدالرزاق و دیگر علمی، ادبی شخصیات شامل ہیں۔
کتاب میلے میں پہلے دن سے ہی حاضرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اور آخری دن تو ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ ادارۂ نور حق کا اسٹال بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، جہاں آنے والے مہمانوں کو ادارے کی جانب سے خوبصورت شاپنگ بیگ میں سید مودودیؒ اور دیگر اکابرین کی اصلاحی کتب تحفتاً پیش کی گئیں۔ نیشنل بک فائونڈیشن، اکادمی ادبیات پاکستان، انجمن ترقی اردو، رنگِ ادب پبلی کیشنز اور ماہانہ ’’اطراف‘‘ کی جانب سے بھی خوبصورت اسٹال لگائے گئے۔ کتاب میلے میں ہر موضوع پر معیاری کتابیں موجود تھیں۔ بچوں کی کتابوں کے اسٹال بھی خوبصورتی سے سجائے گئے۔ اس موقع پر کئی کروڑ کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ فروغِ کتب بینی کے لیے یہ سلسلہ پورے سال رہنا چاہیے اور گھروں میں قائم ادیبوں، شاعروں اور دیگر اہلِ قلم کی ذاتی لائبریریوں کی بھی سرپرستی ہونی چاہیے، تاکہ ہر محلے میں کتاب دوست ماحول قائم ہوسکے۔ (راقم کے پاس بھی کئی ہزار کتب موجود ہیں، ڈی سی کورنگی اس سلسلے میں تعاون فرمائیں تو ضلع کورنگی میں بھی فروغِ کتب بینی مہم چلائی جاسکتی ہے)
بک فیئر میں انتظامیہ نے استقبالیہ کائونٹرز پر جن لوگوں کو تعینات کیا اُن کی کارکردگی غیر تسلی بخش تھی۔ معلومات تو درکنار، وہ خوش اخلاقی سے بھی عاری تھے۔ اس کا انتظامیہ ضرور نوٹس لے۔
کتب میلے میں دیگر شہروں سے آنے والے اہلِ قلم اصحاب کی وجہ سے کراچی میں دیگر ادبی سرگرمیاں بھی بڑھ جاتی ہیں، چنانچہ ڈی سی سائوتھ سید صلاح الدین اور چیئرمین ڈی ایم سی سائوتھ نے بک ایمبیسیڈر سید سلطان خلیل کے تعاون سے اسلام آباد سے آئے ہوئے معروف شاعر ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور معروف شاعرہ ہما طاہر کے اعزاز میں اکادمی ادبیات میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا، جس میں بڑی تعداد میں اربابِ ذوق نے شرکت کی۔ بک فیئرمیں شرکاء سے جب راقم نے ان کے تاثرات دریافت کیے تو بیشتر شرکاء کا کہنا تھا کہ یہ میلہ سال میں دوبار ہونا چاہیے اور اس کا دورانیہ بھی کم از کم 10 دن رکھا جائے۔