’’سر تسلیمے خم ہے‘‘

تلفظ بگاڑنے کی ذمے داری ہمارے برقی ذرائع ابلاغ بخوبی نباہ رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے (یکم جنوری 2019ء) نیب کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اپنے ادارے پر تنقید کے جواب میں کہہ رہے تھے ’’سرِ تسلیم خم ہے‘‘۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پر صحیح تلفظ ادا کیا، لیکن جب ایک چینل کے نیوز کاسٹر نے ان کی بات دہرائی تو سرکو تسلیمِ خم کردیا یعنی سرے تسلیم کے بجائے سر تسلیمِ خم فرمایا (تسلیمے خم)۔ جب یہ صورتِ حال ہو تو کوئی کہاں تک غلط تلفظ سے بچے۔ پھر بھی کئی لوگوں کو اس کی فکر رہتی ہے۔
لتمبر، خیبر پختون خوا میں محترم عدنان صاحب اردو کے استاد ہیں لیکن امتحان ہمارا لیتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش مستحسن ہے کہ بچوں کو صحیح تلفظ کے ساتھ اردو پڑھائی جائے ورنہ ہمیشہ کے لیے زباں پر غلط تلفظ چڑھ جائے گا جیسے ہمارے سینئر سیاست دان چودھری نثار کو اسکول میں استاد نے یہ نہیں بتایا ہوگا کہ ’’ذمہ وار‘‘ نہیں ذمہ دار ہوتا ہے۔ اب وہ اتنے پختہ کار ہوگئے ہیں کہ اصلاح کرنے پر تیار نہیں۔ ہمارے کچھ وزرا غلَطْ کو غلط کہنے پر مُصر ہیں۔ اب ان کا کچھ نہیں ہوسکتا، بقول محترم انور مسعود
مصرع میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
انہوں نے تو شاعری کے حوالے سے مصرع کی بات کہی تھی لیکن اس کا اطلاق نثر پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
عدنان صاحب نے دریافت کیا ہے کہ ’’عِطْر‘‘ کا تلفظ کیا ہے اور کیا ’ع‘ پر زبر ہے یا زیر۔ ہم بھی لغت دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ عِطْر کی ’ع‘ کے نیچے زیر بھی ہے اور ’ط‘ پر جزم ہے جیسے فکر۔ اب یہ اور بات کہ کوئی فکر کو ’’فِ۔کر‘‘ پڑھتا ہو۔ جزم حرف ساکن کی علامت ہے اور اس کا مطلب مصمم، پکا، مضبوط بھی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے ’’عزم بالجزم‘‘۔ گویا عطر کو زیر کرنا ہی صحیح ہے۔ ویسے یہ زبر سے ہو یا زیر سے، اصل بات تو یہ ہے کہ خوشبو کیسی ہے اور کس چیز کا عطر ہے۔ شوقین حضرات گرمی اور سردی کے لیے الگ الگ عطر استعمال کرتے ہیں، اور سردی میں اگر کوئی خس کا عطر استعمال کرے تو اسے بدذوقی سمجھا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین پسندیدہ چیزوں میں سے ایک خوشبو بھی ہے۔ حج اور عمرے سے واپس آنے والے عموماً وہاں سے عطر بھی لاتے ہیں۔ لیکن اب تو ولایتی خوشبو، سینٹ وغیرہ نے عطر کی بھینی بھینی خوشبو چھین لی۔
ایک اور لفظ ’عصمت‘ کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا یہ عَصمت ہے یا عِصمت؟ یہاں بھی عین کے نیچے زیر ہے۔ بعض علاقوں میں لوگ اپنے طور پر کسی لفظ کا تلفظ اختیار کرلیتے ہیں جو آگے بڑھتا جاتا ہے۔ عدنان جیسے لوگ کم ہیں جنہیں صحیح تلفظ کی فکر ہو۔
عِصمت عربی کا لفظ ہے اور اس کی صفت عاصم ہے جس کا مطلب ہے: محفوظ، باعصمت، بچا ہوا، نگاہ رکھنے والا، باز رکھنے والا اور بچانے والا۔ عدنان کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ کئی اردو لغات میں ایک ہی لفظ کے دو تلفظ دے دیے ہیں اور وضاحت نہیں کی کہ کون سا درست، فصیح یا قابلِ ترجیح ہے۔ مثلاً ایک لغت میں ’لاپروائی‘ بھی ہے اور اسی میں ’لاپرواہی‘ بھی ملتا ہے۔ یہ لاپروائی کی انتہا ہے۔
ایسا ہی ایک لفظ ہے ’عنصر‘ جس کا تلفظ عموماً غلط کیا جاتا ہے۔ اس میں ’ع‘ اور ’ص‘ دونوں پر پیش ہے یعنی عُنصُر۔ لیکن یہ تلفظ کچھ مشکل سا ہے اس لیے لوگ عام طور پر دونوں جگہ زبر لگاکر اسے آسان بنالیتے ہیں۔
عدنان صاحب نے ایک لفظ ’اگلو بہاری‘ کے بارے میں پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ ان کے مطابق بارہویں جماعت کی اردو کی کتاب میں اشفاق احمد کی ایک کہانی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اب یہ تو اشفاق احمد ہی بتا سکتے تھے کہ یہ کیا ہے، لیکن ان سے پوچھنا مشکل ہے۔ کوئی صاحب جانتے ہوں تو یہ مشکل آسان کریں۔ اگلو تو برفانی اسکیموز کے گھروں کوکہتے ہیں اور اس نام سے آئس کریم بھی بکتی ہے، لیکن یہ ’اگلو بہاری‘ کیا ہے! ہمیں تو کسی لغت میں نہیں مل سکا۔
کرفیو کے لفظ سے پاکستانی خوب واقف ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آج بھی لگتا رہتا ہے۔ اس کا ترجمہ ’خانہ بندی کا حکم‘ کیا جاتا ہے۔ ازمنۂ وسطیٰ کے یورپ میں غروبِ آفتاب کے وقت گھنٹی بجتی تھی کہ اب لوگ آگ اور بتیاں بجھا دیں اور جو لوگ گھروں سے باہر ہیں وہ گھر کو لوٹ جائیں۔
کرفیو کا لفظ انگریزی میں فرانسیسی سے آیا ہے۔ قدیم فرانسیسی میں اس کا املا ہے Covrefeu۔ یہ دو اجزاء سے مرکب ہے۔ پہلے جز Covre کے معنی ہیں ’’ڈھانک دو‘‘ (جسے کور کہا جاتا ہے)۔ اور دوسرے جز Feu کے معنی ہیں ’’آگ‘‘۔ پورے لفظ کے معنی ہوئے ’’آگ کو ڈھانک دے‘‘۔ آج کل کی فرانسیسی میں اس کی صورت یوں ہے: “Couvre-Feu” اللہ کا شکر ہے کہ آج کل کے کرفیو میں آگ جلانے پر پابندی نہیں ہے لیکن یہ ضرور یاد رہے کہ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو سونے سے پہلے آگ بجھانے اور پانی کے برتن ڈھانپنے کی تاکید کی ہے۔
اب ایک استاذ العلماء مفتی محمد لطف اللہ (مرحوم) کے حوالے سے کچھ باتیں۔ ان کے سامنے کسی نے کہا ’’پسلیاں مائوف ہوگئیں‘‘۔ برجستہ فرمایا ’’مائوف غلط ہے، موئوف بروزن ’’مقول‘‘ صحیح ہے‘‘۔ اسی طرح ایک بار کہا کہ ’’مشکور بمعنی شکر گزار استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی الٹے ہیں، یعنی مشکور وہ ہے جس کا شکر ادا کیا جائے نہ کہ شاکر۔ اسی طرح شکر خود مصدر ہے، ’ی‘ اور ’ت‘ بڑھاکر ’شکریہ‘ غلط ہے کیونکہ ی ت کا اضافہ ان کلمات پر کیا جاتا ہے جو مصدر نہ ہوں اور بطور مصدر ان کو استعمال کرنا ہو جیسے فاعلیت وغیرہ۔ اسی طرح تابعدار بھی غلط ہے کیونکہ بمعنی متبوع کے ہے اور لوگ اس کو تابع کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔
عمداً بمعنی قصداً بفتح میم بولا جاتا ہے جب کہ صحیح سکون المیم ہے۔ طوالت عام طور پر بولتے ہیں جو غلط ہے، صحیح طول ہے۔‘‘
اب یہ بڑی گاڑھی قسم کی اردو ہے جو مشیخت کے دعویداروں کے لیے ہے۔ ہم تو آدھی بات ہی سمجھ سکے۔ مشکور بمعنی شکر گزار سے ہم نہ صرف خود گریز کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کی تصحیح کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں۔ شکریہ تو اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ اس سے گریز ممکن نہیں، اب اسی کو فصیح قرار دے دینا چاہیے۔ تابع دار والی بات بھی سمجھ میں آگئی ہے۔ بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ اس کا مطلب ہے: تابع رکھنے والا۔ تب سے گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ’عمداً‘ میں ’م‘ پر زبر لگا کر پڑھنے کی غلطی کے سزاوار ہم بھی ہیں، آئندہ ’’عم دن‘‘ یا عمْداً پڑھیں اور کہیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اتنی ثقیل اردو قارئین کو ہضم نہیں ہوگی۔ اس لیے اتنا کافی ہے۔ لاہور سے افتخار مجاز نے بڑے دکھی دل سے شکوہ کیا ہے کہ زبان کی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ ہر طرف سے بگاڑی جارہی ہے۔ ہم کہاں تک دل جلاتے رہیں! بھائی ایسا نہیں ہے۔ اپنی سی کوشش تو کرنی چاہیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک نیوز کاسٹر کہہ رہا ہے ’’مدرسۃ البنات، گرلز ہائی اسکول‘‘۔ ارے بھائی بگڑتے کیوں ہیں! کتنے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ مدرسۃ البنات کا مطلب گرلز کالج ہے۔ اچھا ہوا وضاحت کردی۔ آپ جی نہ جلائیں۔