ڈاکٹر اسلم انصاری
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کے نام نامی سے تو کان نوعمری ہی میں آشنا ہو گئے تھے ۔کالج کے زمانہء طالب علمی میں ان کے کالم پڑھنے کا بھی اتفاق ہوتا رہتاتھا ۔یہ کالم جوان کے مخصوص طرزِ بیان کے مظہر ہوتے تھے پاکستان کے ایک ممتا ز اخبار میں ’صدقِ جدید‘ سے نقل ہوتے تھے ۔ میں ان کے یہ کالم پڑھتا تو تھا لیکن ان کا طرزِ بیان مجھے خاصا غیر مانوس لگتا تھا ۔حیرت ہوتی تھی کہ یہ بزرگ کس طرح لکھتے ہیں ؟ ایسا لگتاتھا جیسے کوئی سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہے ۔ہلکے پھلکے طنز کے تیر بھی چلائے جاتا ہے اور ہمدردانہ پند و نصیحت سے بھی کام لے لیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دینی عقائد پر سختی سے قائم ہے ۔ اس زمانے میں ان کے الحاد کا چرچا بھی ہوا ،جسے لگتا تھا انھوں نے خود ہی ہوا دے رکھی ہے ۔ یہی زمانہ تھا جب میری نظر سے مولانا ابوالکلام آزاد کے شہرئہ آفاق ’’الہلال‘‘ کی فائل بھی گزری جس کے مندرجات نے ذہن و جذبات میں ہلچل مچا دی تھی۔’الہلال‘ ہی کی فائل میں وہ بحث بھی نظر سے گزری جو مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابوالکلام کے درمیان چلی ۔اس وقت مولانا عبدالماجد دریا بادی’’مسٹر عبدالماجد بی اے (لکھنؤ) ‘‘تھے اور ان کی کتاب ’’فلسفہء جذبات ‘‘ کے چند ابتدائی باب الہلال میں قسط وار شائع ہوئے تھے ۔ہوا یہ تھا کہ ان کی مجوزہ کتاب (فلسفہء جذبات ) کے دو یا تین ابواب ’’مفرداتِ جذبات‘‘ کے عنوان سے ۱۲،جون ۱۹۱۲ء سے لے کر ا،اکتوبر ۱۹۱۲ء تک کے الہلال کے شماروں میں ’حظ و کرب ‘ کے ذیلی عنوان سے شائع ہوئے۔’حظ‘ انھوں نے Pleasureکے معنوں میں اور کرب Painکے معنوں میں استعمال کیا تھا ۔مولانا ابوالکلام آزاد کو جو ’الہلال ‘ کے مدیر مسئول بلکہ سب کچھ تھے ان تراجم پر اعتراض ہوا ، ان کے خیال میں متذکرہ انگریزی اصطلاحات کے تراجم ’لذت و الم ‘ ہونے چاہیں ۔اس پر اچھی خاصی بحث جاری ہوئی۔ مولانا آزاد نے اپنے ایک اداریے میں شدید ردعمل کا اظہار کیا اور مولانا دریا بادی کی روش کو ’’فتنہ لسانیہ ‘‘ کا عنوان دیا جو سچ تو یہ ہے کہ بہت نامناسب ردعمل تھا ۔حضرت اکبرالہ آبادی نے بحث میں مداخلت کی اور مولانا آزاد کے نقطہء نظر کو درست قرار دیتے ہوئے اپنی جانب سے ’راحت و الم‘‘ کے متبادل بھی پیش کیے ۔اہم بات یہ ہے کہ مسٹر عبدالماجد بی اے (لکھنؤ) ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنی بات پر ڈٹے رہے ۔بعدازاں جب ان کی کتاب فلسفہ ء جذبات ‘ شائع ہوئی تو اس میں بھی ’حظ وکرب ‘ ہی کی اصطلاحات برقرار رکھی گئیں۔ مجھے اس کتاب کے مطالعے کا بارہا اتفاق ہوا لیکن جب میں نے اردو شاعری میں المیہ تصورات کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا تو مجھے فلسفہء جذبات کے حوالوں کی بہ شدت ضرورت محسو س ہوئی ۔چنانچہ میں نے مذکورہ بالا بحث کو اپنے مقالے کے دیباچے میں تفصیل کے ساتھ درج کیا اور جناب دریا بادی کی دو اور کتابوں ’مقالاتِ ماجد‘‘ اور ’مبادیِ فلسفہ ‘ کو بھی حوالے کی کتابوں میں شامل کیا اور ان سے بیش از بیش استفادہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ نقطہ نظر (بہ حوالہ درد والم ) مولانا ابوالکلام آزاد ہی کا درست تھا لیکن جدید و قدیم نفسیات کی روشنی میں علمی بحث مولانا عبدالماجد دریابادی ہی کی فکر انگیز تھی اس لیے کہ وہ بہرحال جدید فلسفے کے طالب علم رہے تھے اور جب وہ الحاد کا ڈنکا بجا کر ایمان و اعتقاد کی طرف بہ خلوص نیت لوٹے اور مولانا اشرف علی تھانوی کی رہنمائی میں سلوک کی منزلیں طے کرنے لگے تو ان کے مرشد نے ایک بار تحدیث نعمت کے طور پرکہا :’’الحمد للہ کہ میرے حصے میں عقلا ہی آئے ‘‘۔ یہ عقلا تھے علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا عبدالماجددریا بادی اور ایک اور بزرگ (غالباً مولانا عبدالباری ندوی) مولانا عبدالماجد کے حوالے سے مرشد و مستسرشد کے خطوط بھی اب تاریخ ادب کا حصہ ہیں۔مولانا عبدالباری ’فہم انسانی‘ (اعظم گڑھ ۱۹۳۸ء) کے حوالے سے مشہور ہوئے ۔
پچھلے عرصے میں مجھے جن مہربان ادب دوستوں کی توجہات حاصل ہوئیں ان میں سر فہرست دو نام ہیں:پروفیسر غازی علم الدین (میرپور آزاد کشمیر ) اور محمد راشد شیخ (کراچی) ہر دو حضرات اعلی درجے کے محقق اور مضمون نگار ہیں۔موخر الذکر کرم فرمانے مجھے گزشتہ چند ماہ میں کچھ کتابیں تحفتاً بھیجی ہیں جن میں سے دو مولانا عبدالماجد دریا بادی کے رشحات قلم پر مشتمل ہیں۔ ایک کتاب کا نام ہے
’’سیاحت ماجدی ‘‘ اور دوسری کا عنوان ہے’ ’انشائے ماجد یا لطائف ادب ‘‘۔ ان سطور میں اول الذکر کے بارے میں مختصر سی گفتگو مقصود ہے ۔ یہ کتاب مولانا دریا بادی کے سفر ناموں کا مجموعہ ہے جسے محمد راشد شیخ نے مرتب کیا ہے اور جو بعض حیران کن تفصیلات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں مولانا کے گیارہ اسفار کا احوال بیان ہوا ہے ۔ہر سفر کسی خاص شہر یا علاقے یا ملک سے مخصوص ہے ۔ملک اس لیے کہا کہ اس میں اولین سفر نامہ پاکستان کے حوالے سے ہے اور عنوان بھی انوکھا ہے یعنی ’’ڈھائی ہفتہ پاکستان میں ‘‘۔ باقی تمام اسفار بھارت کے مختلف شہروں سے متعلق ہیںاور شہروں ہی کے عنوان سے شامل کتاب کیے گئے ہیںمثلاً بمبئی، بہار، بھوپال ، حیدرآباد دکن وغیرہ ۔شہروں کے ذیل میں ایک بار پھر لاہور کا سفر نامہ بھی ہے۔ یوں درحقیقت یہ برصغیر پاک و ہند کے مختلف شہروں اور علاقوں کے سفر کی رودادیں ہیں جن کو مو لانا نے اپنے اسلوبِ خاص سے ادب و انشا کا شاہکار بھی بنا دیا ہے ۔
یہ بات اردو ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے مختلف اوقات میں ’سچ‘ اور ’صدق‘ اور ’صد ق جدید‘ کے نام سے ہفتہ وار اخبار جاری کیے جن میں ’صد قِ جدید‘ کو پور ے برصغیر میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ۔یہ ’صد قِ جدید‘ ہی کے کالم تھے جو ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں پاکستان میں مکرر شائع کیے جاتے رہے۔ ان کے یہ سفر نامے بھی وقتاً فوقتاً ’صد قِ جدید‘ ہی میں شائع ہو کر مقبول اور معروف ہوئے ۔ عرض مصنف کو چھوڑتے ہوئے اصل عنوانات یہ ہیں:
۱۔ڈھائی ہفتہ پاکستان میں،۲۔ بمبئی،۳۔ بہار، ۴۔بھوپال، ۵۔حیدرآباد دکن، ۶۔ دہلی، ۷۔کلکتہ، ۸۔ لاہور، ۹۔مدراس، ۱۰۔ علی گڑھ ، ۱۱۔آگرہ ؍ جے پور
پاکستان کا پہلا سفر انھوں نے ۱۹۵۰ء کی دہائی کے اواخر میں اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کی دعوت پر کیا ۔اس دعوت پر لوگوں کو کئی طرح کی غلط فہمیاں ہوئیں کہ شاید انھیں ملک کامفتیِ اعظم مقرر کیا جا رہا ہے لیکن یہ لکھنؤ میں ماضی میں ہونے والی ملاقاتوں کی یاد میں ایک دوستا نہ ملاقات کی دعوت تھی ۔اس سفر کے آغاز میں وہ کتنے پُر شوق تھے انھیں کے الفاظ میں سنئے:
’’زیارت پاکستان کی تمنا کس مسلمان کے دل میں نہیں؟ سرِ گیسو ئے تو درہیچ سرے نیست کہ نیست
ایک تو مسلم ملک پھر پڑوسی اور پڑوسی بھی کیسا ، اپنے ہی گوشت پوست کا پتلا اپنے ہی دل و جگر کا ٹکڑا ،اپنے کتنے بھائی بند ،عزیز دوست ،مخلصین اس سرزمین پر آباد او رپھر قائم اسلامیت کے کن کن دعوئوں اور کیسے کیسے وعدوں کے ساتھ ہوا تھا ۔ سب چیزیں مل ملا کر اشتیاق دید کو حدِ کمال تک پہنچائے ہوئے :
از غم عشق تو پُر خوں جگر ے نیست کہ نیست ‘‘
مولانا حسِ مزاح سے عاری نہیں تھے۔کراچی کے سفر کے زمانے میں انھوں نے ایک کھڑے ڈنر میں شرکت کی جس کا حال بیان کرتے ہوئے انھوں نے اپنا خاکہ خوب اڑایا ہے :
’’اسٹیٹ ڈنر میں شرکت کا زندگی میں پہلا موقع تھا۔ جگمگاہٹ اور ہر قسم کے تکلفات کی آب و تاب الفاظ میں کیا بیان ہو، چیز دیکھنے کی ہے سننے کی نہیں۔ مختلف گوشوں میں نیزہ بردار سپاہی ایک مخصوص قسم کی وردی میں ملبوس درو دیوار سے پیوستہ اسی طرح بے حس و حرکت کھڑے ہوئے تھے کہ انسان سے کہیں زیادہ پتھر کے نصب شدہ بت نظر آتے تھے۔ مہمان آپس میں مل جل رہے تھے ، ہنسی چہل ہو رہا تھا۔ سارے مجمع میں سب سے زیادہ بے جوڑ ان سطور کا راقم ہی تھا اور تماشائی سے کہیں بڑھ کر اس وقت تماشا بنا ہوا تھا۔ کھدر کی خلافتی ٹوپی، رنگین عبا، بے ہنگم داڑھی۔ اس وضع و قطع کا شخص ، زرق برق ، چست لباس والوں، سوٹ پوشوں کے درمیان اگر ہیولا یا اضحوکہ بن کر نہ رہ جائے تو آخر کیا ہو۔ مہذب و شائستہ لوگ تھے۔ زبان سے کسی نے کچھ نہ کہا لیکن دل ہی دل میں جتنا بھی ہنس رہے ہوں کم ہے… ہاں میرے سوا کچھ مستثنیات اور بھی تھے۔ عربی لباس عقال و عبا میں دو بزرگ غالباً سعودی سفیر اور ان کے نائب ہوں … عورتیں نہیں لیڈیاں بہت بڑی تعداد میں تو نہ تھیں کوئی ۲۵ ہوں گی لیکن الحمد للہ کہ سب بے حجاب نہ تھیں۔ بعض اچھے خاصے ساتر لباس میں ملبوس اور اسلامی حیا و شرافت کی لاج رکھے ہوئے تھیں بعض بین بین۔ صرف چار یا پانچ ایسی تھیں جو پوشاک ساتر سے زیادہ عریاں زیب تن کئے ہوئے خاص الخاص فرنگی انداز میں ہنس بول رہی تھیں اور خوش فعلیوں میں مشغول۔ ‘‘
اس طرح انھوں نے سفر کے موانعات ، راہ کی مشکلات ، قانونی تقاضوں کے التزام کی گراں بار ی کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور پھر قیامِ پاکستان کے دنوں میں اپنی مصروفیات اپنے قدردانوں اور عقیدت مندوں کے وفور عقیدت و مودت کا تذکرہ مناسب عجز و انکسار کے ساتھ خوب کیا ہے ۔ان سفر ناموں سے ان کے مزاج او رطبیعت کے تقاضوں پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے ،انھیں ہجوم سے گھبراہٹ ہوتی ہے ،البتہ خواص کے مجمعے میں راحت محسوس کرتے ہیں ،جہاں کہیں یوپی یا لکھنو کا کوئی شخص ملتا ہے اس کے بارے میں کہتے ہیں : ’’وہ تو اپنے ہی ہیں‘‘۔ لاہور کا دوسرا سفر انھوں نے ۱۹۵۷ء کے اواخر میں لاہور میں منعقد ہونے والے انٹر نیشنل اسلامی کالوکیم میں شرکت کے لیے کیا ۔اس سفر کی تفصیلات کو انھوں نے جس پُر شوق طریقے سے پھیلا کر دلکش انداز میں لکھا ہے وہ انہی کی خصوصیت ہے۔ یہ دنیا بھر کے مسلمان علما کا اجتماع تھا جن میں سے کچھ کے نام اب تک معروف چلے آ رہے ہیں ،کچھ پہلے سے معروف لوگوں سے ملاقاتوں کا احوال انتہائی دل چسپ اور معنی خیز ہے ۔ان کے رواں تبصرے ان کے عمومی نقطہ ء نظر کے ترجمان اور ان کے معتقدات کی مجمل تفسیریں ہیں۔ مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے ۔
خیال رہے کہ مولانا دریا بادی لکھنؤ کے نہیں تھے بلکہ ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبے دریا باد سے تعلق رکھتے تھے ۔لیکن زندگی انھوں نے لکھنؤ ہی میں بتائی اور ایک دنیا پر اپنی زبان دانی کا سکہ بٹھایا ۔یہ اور بات ہے کہ وہ خود کو ’’دیہاتی قصباتی‘‘ بھی کہتے رہے اور خوبیِ زبان کے دریا بھی بہاتے رہے ۔ان کے سفر ناموں کی سب سے بڑی خصوصیت جو واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے ان کے وسیع المشربی اور رواداری ہے جس کی حدیںانھوں نے خاصی وسیع کر رکھی تھیں ۔اسی طرح ان سفرناموں کی بدولت برصغیر کی اسلامی دنیا کا ایک ایسا منظر نامہ ابھرتا ہے جو آثار و مقامات کے علاوہ اسما ء و رجال کو بھی محیط ہے۔ان سفرناموں میں اتنے لوگوں کے نام سامنے آتے ہیں کہ اس تعداد پر حیرت ہوتی ہے ۔وہ ساتھ کے ساتھ اپنے احباب اور میزبانوں اور لکھنے والوں کا شکریہ بھی ادا کرتے جاتے ہیں۔چونکہ زیادہ تر سفرانھوں نے اپنے ملک کے شہروں ہی کے کیے اس لیے ان سفرناموں کو ۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۰ء اکی دہائی کے اوائل تک کے Muslim sub-continentکا Living Landscapeبھی کہا جا سکتا ہے ۔آثار و مقامات کی تفصیل دینے میں بھی انہیں لطف آتا ہے مثلاً ایک حوالہ دیکھئے :
’’ایک دن اب کی ایسا ہوا کہ بمبئی کے ایک انتہائی فیشن ایبل علاقہ مالابار ہل سے گزرتے ہوئے جگمگاتی کوٹھیوں کے درمیان ایک ویرانہ پر گزر ہوا ۔ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین کا ایسا نظر پڑا کہ جس پر کبھی کوئی عمارت رہی ہو گی، رہبر نے بتایا کہ یہ جنجیرہ ہائو س تھا یعنی وہ محل جس میں بیگم صاحبہ جنجیرہ مع اپنی دونوں بہنوں زہرا فیضی اور عطیہ فیضی کے ساتھ رہتی تھیں۔ اب کیا تھا کہ شبلی کے اس پرستار کے سامنے نفاستِ مجسم عطیہ فیضی اور ان کی ساری لطافتوں ،نفاستوں اور نزاکتوں کا نقشہ پھر گیا۔مکان کیسا پُر رونق ،دلکش اور سجا سجایا ہوا اور اپنے اس انجام سے بے خبر ۔ابھی مسافرکو اس تذکر و تفکر سے فراغت نہیںہوئی تھی کہ ایک دوسرا پلاٹ بہت بڑا نظر کے سامنے آگیا ،سرتا سر کھنڈر ،ملبہ پرملبہ او ررہبر نے بتایا اسے سننے کے لیے دل کسی طرح تیار نہ تھا ۔ہاتف غیب کے بجائے رہبر کی زبان سے نکلا : نظام حیدرآباد کا محل تھا ۔یقین آئے یا نہ آئے بہرحال یقین کرنا ہی تھا ۔
انقلابِ حال اور اس درجہ تیزی کے ساتھ، عبرت کے ذخیرے میں اپنی مثال آپ ہے ۔‘‘
یہ عبرت آموزی اور درسِ اخلاق و انسانیت مولانا دریا بادی کی ہر تحریر کی پہچان ہے ۔ اصل میں ان کا دل بھی ایک مصلح کا دل تھااور دماغ بھی مصلح کا دماغ تھا البتہ ان کا قلم اعلیٰ درجے کے انشا پرداز کا قلم تھا ۔چنانچہ یہ تینوں اپنے فرائض کی بجا آوری سے کہیں نہیںچوکتے تھے ۔یہاں ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مولانا دریابادی کے قلم پر مولانا محمد حسین آزاد کے قلم کی پرچھائیں ضرور پڑی ہوگی۔
’سیاحتِ ماجدی‘ کو سفرناموں کے ساتھ ساتھ اصلاح و اخلاق کے دفتروں کے اوپر رکھنا چاہیے ۔ یا پھر بلند تر انشا کے صحیفوں پر ۔
رابطے کے لیے: راشد شیخ ادارۂ علم و فن بی۔ 101، الفلاح ملیر ہالٹ کراچی
Email:ras1989pk@gmail.com
فون: 0331-2582148,0305-264233