احتساب کا سلسلہ

احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو سات سال قیدِ بامشقت،25 ملین ڈالر جرمانہ اور 10سال کے لیے کسی بھی حکومتی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ پاناما لیکس میں سینکڑوں پاکستانیوں کے نام آئے لیکن باقاعدہ ٹرائل کرکے سزا صرف نوازشریف کو دی گئی، اور اُن کے حامیوں کی جانب سے اب تک اس ناروا سلوک پر واویلا کیا جارہا ہے۔ تمام کرپٹ لوگوں کا کڑا احتساب وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس کو ہر صورت شفاف اور غیر جانب دارانہ بنانا ہوگا۔ شریف خاندان کے علاوہ پاناما انکشافات میں جن پاکستانیوں کے نام آئے تھے اُن میں سے ابھی تک کسی ایک فرد کا احتساب شروع نہیں ہوسکا، جس پر ملک کے سنجیدہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس صورت حال سے سخت پریشان نظر آتی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور دیگر رہنماؤں کے حوالے سے جے آئی ٹی کے انکشافات کے بعد پیپلزپارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز کھلنے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نوازشریف کی حمایت کرنے پر مجبور ہوچکی ہے، جبکہ اس سے پہلے کے حالات کچھ اور ہی تھے۔ کرپٹ افراد کا تعلق چاہے حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، عدلیہ سے ہو یا فوج سے…. سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ ملک میں مقدس گائے کا تصور ختم ہونا چاہیے۔ احتساب کا نظام بلاتفریق چلنا چاہیے اور اس سے سیاسی انتقام کی بو نہیں آنی چاہیے۔ ملک و قوم کے لیے یک طرفہ احتساب ہرگز قابل قبول نہیں۔ ملک کو کرپٹ افراد نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا۔ ملک میں بدعنوانی ایک ناسور بن چکی ہے۔ قوم منتظر ہے کہ پاناما لیکس میں بے نقاب ہونے والے دیگر 436 پاکستانیوں، کرپٹ عناصر اور کمیشن مافیا کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟ کرپٹ عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے، پھر چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو، انہیں فی الفورگرفتار کرکے لوٹی گئی قومی دولت کی پائی پائی وصول کی جائے۔ جس کسی نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اس کا محاسبہ ہونا چاہیے، اور اس حوالے سے بلاتفریق کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہر سال ایک ہزار ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، جو کہ تشویش ناک امر ہے۔ منی لانڈنگ کیس 2015ءمیں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکائونٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ، اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے، اور یہ تمام اکائونٹس 2013ءسے 2015ءکے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35 ارب روپے ہے۔ دسمبر 2017ءمیں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ کے مطابق مشکوک ترسیلات جن اکائونٹس سے ہوئیں، اُن کی تعداد 29 تھی، جن میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8، اور یو بی ایل کے 5 اکائونٹس ہیں۔ ان 29 اکائوٹس میں 2015ءمیں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکائونٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018ءکو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ اگر آصف زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں نے منی لانڈرنگ نہیں کی ہے تو پھر ڈر اور خوف کا اظہارکیوں کیا جارہا ہے؟ کرپٹ عناصر چاہے ان کا تعلق پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ(ق) یا تحریک انصاف سے ہو، سب کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے، اور ایسے بدعنوان عناصر سے قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت وصول کی جائے۔ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ کیے بغیر ترقی و خوشحالی کی منزل نصیب نہیں ہوسکتی۔ 70 برسوں سے ملکی اقتدار پر قابض اشرافیہ سے حساب لینے کا وقت آگیا ہے۔ قومی ارتقا میں شفاف اور غیر جانب دار احتساب ناگزیر ہے۔ اگر کسی کو تحفظات ہیں تو عدالتوں سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔
سمیع الرحمان ضیا…. لاہور

فرائیڈے اسپیشل میں تخلیقی ادب

’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نمبر ۵۰ کے حوالے سے عرض ہے کہ مجھے حسن افضال صاحب کی تجویز سے اتفاق نہیں ہے کہ چند صفحے افسانوں، غزلوں، نظموں کے لیے مختص کیے جائیں۔ اس طرح کے تخلیقی ادب کے لیے کراچی اور دیگر شہروں سے بھی بہت سے ادبی پرچے شائع ہوتے ہیں۔ البتہ تنقیدی علمی تحریریں کبھی کبھی دینے میں ہرج نہیں۔ اسی طرح اچھی معیاری کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ بھی مفید ہے۔ مگر تبصرے بعض اوقات طویل (دو دو، تین تین صفحات۔۔۔۔) ہوتے ہیں۔ تعارفی تبصرہ ایک، اور تنقیدی تبصرہ ایک ڈیڑھ صفحے کا کافی ہے۔
ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی
منصورہ، لاہور

پی ٹی سی ایل کے پنشنروں کا مسئلہ

نئے پاکستان کے دعویدار حکمران چار مہینے گزارنے کے باوجود پرانے پاکستان کی مصیبتوں کو ختم نہیں کرسکے، بلکہ بعض مسائل پر تو ان کی بے رحمانہ خاموشی ان کی بے بسی کا عندیہ دے رہی ہے۔ پی ٹی سی ایل (PTCL) پنشنرز کے مسئلے پر کوئی حکمت عملی آج تک وضع نہیں کی گئی، بلکہ اس اہم انسانی المیے پر متعلقہ وزارت اور ذمہ داران مکمل خاموش ہیں۔ جب کہ یہی وزیر خزانہ صاحب جب کنٹینر پر تھے تو ٹی وی چینلز پر اُس وقت کی حکومت پر اس حوالے سے شدید تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے اور اس مسئلے کو فوری حل کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ انہی دنوں میں شاہ محمود قریشی کے ہمراہ موجودہ صدر عارف علوی صاحب جب سکھر ڈسٹرکٹ بار کے دورے پر آئے تو پی ٹی سی ایل پنشنرز کے ایک نمائندے کے اس گمبھیر مسئلے کی طرف توجہ دلانے پر صدر صاحب نے فرمایا تھا کہ اس مسئلے پر پی ٹی آئی کی ایک کمیٹی اسد عمر صاحب کی سربراہی میں کام کررہی ہے اور یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی اٹھائے گی۔ لیکن افسوس اب جب ان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور تمام اختیارات ان کے پاس ہیں، ان کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔ پی ٹی سی ایل پنشنرز گزشتہ دس سال سے اپنے جائز قانونی حق کے لیے… جس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پنشنرز کے حق میں موجود ہے… دربدر پھر رہے ہیں، اس دوران دوہزار سے زائد پنشنرز سخت مالی پریشانی میں مبتلا ہوکر اپنے جائز حق سے محروم ہی دنیا سے گزر چکے ہیں، لیکن یہ تیسری حکومت ہے جو پی ٹی سی ایل کی غیر ملکی برادر اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والی انتظامیہ کے سامنے بے بس ہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ مسئلہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے، تو کیا حکومت اس معاملے پر بھی کسی انسانی المیے کے جنم لینے کا انتظار کررہی ہے؟ حکومت سے درخواست ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دے اور ہنگامی بنیاد پر اس کو حل کرنے کی کوشش کرے۔
عبدالقیوم قریشی… روہڑی