پیشکش:ابوسعدی
بدنصیبو! یہ آنکھ، کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ تم ان سے بس وہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو، اور ہر وقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہوسکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان، اور بن کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف راہ نمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں، جن کانوں سے سب کچھ سنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے؟ حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں!
[المومنون میں] علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرفِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشان دہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کرسکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کی ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی برحکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جواب دہ ہونا اور بس یونہی مرکر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۵، عدد۱،محرم ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۵ء ،ص۲۳)
رواداری ؟
اس فتنۂ عظیم [قادیانیت] سے جو لوگ ’رواداری‘ برتنے کا ہمیں مشورہ دے رہے ہیں وہ صرف یہی نہیں کہ رواداری کے معنی اور اس کے حدود نہیں جانتے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام سے ناآشنا ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بڑی نیک نیتی مگر بڑی نادانی و بے فکری کے ساتھ مسلم ملّت کی قبر کھودنا چاہتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حق میں تو ان کی یہ غلطی قطعی طور پر ہلاکت کا پیغام ہے اور اِس ریاست کا کوئی بڑے سے بڑا بدخواہ بھی اس کے ساتھ وہ بدخواہی نہیں کرسکتا جو یہ رواداری کے پیغمبر کررہے ہیں۔
یہ ملک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش سے بنا ہے، اور اُسی وقت تک یہ ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے قائم ہے جب تک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش اس کی پشت پناہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں، جہاں زبان ایک ہے، نسل ایک ہے، اور جغرافی حیثیت سے قومی وطن یک جا ہے، مسلمانوں کو اپنی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسری بنیادیں بھی مل سکتی ہیں۔ مگر پاکستان جس میں نہ نسل ایک، نہ زبان ایک، اور جغرافی حیثیت سے جس کے دو ٹکڑے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہیں، یہاں قومیت کی کوئی دوسری بنیاد تلاش کرنے والا اور اس کو ممکن سمجھنے والا صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو لاطائل خیالات کی دنیا میں رہتا ہو، اور جسے عملی سیاست کی ہوا تک نہ لگی ہو۔ یہاں مسلمانوں کے لیے بنائے وحدت اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے، اور اسلام میں بھی صرف ایک ختمِ نبوت وہ چیز ہے جو اس وقت عملاً بنائے وحدت بنی ہوئی ہے۔ اس بنیاد کو رواداری کی مقدس دیوی کے آستانے پر بھینٹ چڑھا دیجیے، پھر دیکھیے کہ کون سی طاقت اِس عمارت کو مسمار ہونے سے بچاسکتی ہے۔ آج اِس اجرائے سلسلۂ نبوت کے اثرات زیادہ تر پنجاب تک محدود ہیں، اس لیے اس کے پورے کرشمے ہماری قومی قیادت کو نظر نہیں آتے۔ مگر جب یہ فتنہ اپنی تبلیغ سے دوسرے صوبوں تک پھیل جائے گا تب ان عقلائے روزگار کو رواداری کے معنی اچھی طرح معلوم ہوجائیں گے۔
مولانا مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں تیسرا بیان‘،
ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۳، رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ،جون ۱۹۵۴ء، ص۲۲۔۲۳
خودغرض آدمی
ایک کوّا اخروٹ کو چونچ سے توڑ رہا تھا، مگر اخروٹ پر کچھ نہیں ہوتا تھا۔ گلہری نے دیکھا تو کوّے سے کہا: ’’کیوں اتنی زحمت اٹھاتا ہے!‘‘
کوّے نے کہا: ’’میں نے سنا ہے اخروٹ بہت مزے کی چیز ہے، اور جب خدا نے اس سختی کے ساتھ اس کو بند کیا ہے تو ضرور اس کے اندر کچھ بڑی نعمت ہوگی، سو میں جس طرح بن پڑے گا اس کو توڑ کر رہوں گا۔‘‘
گلہری نے کہا: ’’میں ایک آسان تدبیر بتائوں۔ اخروٹ کو بڑی دور ہوا میں لے جاکر پتھر کے سامنے کی بڑی چٹان پر چھوڑ دے۔ گرنے کے صدمے سے خود پاش پاش ہوجائے گا۔‘‘
کوّے نے ایسا ہی کیا لیکن نیچے اتر کر دیکھتا ہے کہ واقعی میں اخروٹ تو پاش پاش ہوگیا مگر مغز گلہری لے کر چل دی۔ صرف چھلکے چھوڑ گئی۔
حاصل
خودغرض آدمی جو صلاح دیتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ اپنا فائدہ ضرور سوچ لیتا ہے۔
(’’منتخب الحکایات‘‘…نذیر احمد دہلوی)