احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو منی ٹریل پیش نہ کرنے پر العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ 1.5ارب روپے اور 2.5 ملین ڈالر جرمانہ اور العزیزیہ اور ہل میٹل جائدادیں بحق سرکار ضبط کرنے کا بھی حکم جاری کیا گیا ہے اور 10سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے مقدمے کی طویل سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔ تفصیلی فیصلہ 131صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور محمد نوازشریف منی ٹریل نہیں دے سکے۔
سابق وزیراعظم محمد نوازشریف بھی عدالتی فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے۔ مختصر فیصلے کے بعد نیب حکام نے محمد نوازشریف کو حراست میں لے لیا۔ ریفرنس میں شریک ملزمان محمد نوازشریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھاکہ فلیگ شپ ریفرنس میں کیس نہیں بنتا، اس لیے محمد نوازشریف کو بری کیا جاتا ہے۔فیصلہ سنتے وقت نواز شریف کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی رہی۔ احتساب عدالت کے اطراف کم و بیش ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔ کمرۂ عدالت میں محمد نوازشریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔ عدالت کے باہر رینجرز کے دستے بھی موجود تھے۔ اس سے قبل جولائی میں احتساب عدالت نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ فلیٹس ریفرنس میں سزا دے چکی ہے، تاہم اس کیس میں تینوں اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ اپیل زیر التواء ہے۔ نوازشریف پاناما پیپرز میں اپنے صاحب زادوں حسن نواز اور حسین نواز کی آف شور کمپنیوں کے نام آنے پر عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی برطرف ہوئے اور احتساب عدالت سے سزایاب ہوئے۔ وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری متعدد بار یہ بات کرچکے ہیں کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف اپنا آخری الیکشن لڑچکے ہیں اور اب سیاست میں ان کی واپسی ممکن نہیں۔ فواد حسین چودھری کا دعویٰ اپنی جگہ… تہمینہ درانی، شجاعت عظیم اور شاہد خاقان عباسی بیک ڈور چینل کے ذریعے معاملات کے سدھار کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار نوازشریف کے رویّے پر ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی باور کرائی جارہی ہے کہ چودھری نثار علی خان بھی کسی نہ کسی حد تک ایسی کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم چودھری نثار علی خان نے کبھی بھی ایسی کسی کوشش میں شریک ہونے کی تصدیق نہیں کی۔ نوازشریف کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ وہ اگر مریم نواز کے سیاست میں آنے اور سیاسی کردار کی حمایت یا سرپرستی کا فیصلہ تبدیل کرلیں تو عین ممکن ہے کہ حالات تبدیل ہوجائیں۔ یہ مسلم لیگ(ن) کے حامی حلقے کا دعویٰ ہے۔ دوسری جانب یہ بات کہی جارہی ہے کہ مستقبل میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں میں وہ تمام لوگ جو نیب ریفرنسز کی زد میں آئیں گے، سب ایک ایک کرکے گرفتار کیے جائیں گے، کسی کے لیے کوئی رعایت۔ علامہ طاہر اشرفی کو بھی نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے آئیکون ٹاورز کو آصف زرداری کی ملکیت قرار دیا ہے۔ جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ اس میں فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ آصف علی زرداری کی ضمانت میں توسیع سے ان کی فوری گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ تاہم نااہلی کی تلوار کسی بھی وقت چل سکتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے نوازشریف نااہل ہوئے اور اقتدار سے بے دخل کیے گئے، اور پھر احتساب عدالت نے انہیں جیل بھیجا۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری الگ الگ پس منظر کے حامل دو کردار ہیں۔ دونوں کے سیاست کے بارے میں الگ الگ نظریے ہیں۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں سیاست میں ان کی وارث رہیں۔ آصف علی زرداری کو جعلی اکائونٹس کیس اور نوازشریف کو احتساب ریفرنسز کا سامنا ہے۔ ان سب کے پیچھے طاقت اپنا کام کررہی ہے۔ اس کا مقصد کچھ موضوعات ہیں۔ نوازشریف اور زرداری فی الحال خاموشی کا وعدہ کرنے کو تیار ہیں نہ کسی آئینی تبدیلی کا، لیکن آصف علی زرداری کے خلاف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ نیب کو اپنے قوانین کے تحت کمیشن/کک بیکس پر کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کے مطابق 8 ارب 30 کروڑ کا یہ کمیشن بحریہ ٹاؤن سے اے پی ایس مشتاق احمد کے مشترکہ/ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لیا گیا، اور اس کے علاوہ آئیکون ٹاورز منصوبے میں 50 فیصد حصہ داری بھی لی گئی۔ یہ کُل 30 ارب روپے بنتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کو یہ ٹاورز بنانے کے لیے سمندر کے ساتھ مہنگی ترین باغ ابن قاسم کی زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی۔ منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ملوث تمام افراد کے نام جے آئی ٹی کی سفارش پر اسٹاپ لسٹ میں شامل کردیے گئے ہیں جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بیرون ملک سفر نہیں کرپائیں گے۔ 6 جولائی کو ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل نے میگا منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ 2015ء میں جعلی بینک اکائونٹس سے متعلق شروع ہونے والی انکوائری کے بعد مشکوک اکائونٹس کو انکوائریز میں ضم کردیا گیا۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت کے بعد جے آئی ٹی کی رپورٹ میں شامل افراد کے نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔ اسٹاپ لسٹ وہ فہرست ہوتی ہے جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)کسی انکوائری، مقدمہ یا تفتیش میں مطلوب شخص کا نام ڈالتا ہے۔ اس فہرست میں شمولیت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملزم ملک سے باہر نہ جاسکے۔ ای سی ایل، بلیک لسٹ یا اسٹاپ لسٹ میں نام ہونے کے باوجود ملک سے باہر جانے کی کوشش پر ایف آئی اے ملزمان کو گرفتار کرسکتی ہے۔ ان تمام مقدمات کا اثر ملکی سیاست پر بھی پڑرہا ہے اور نظام تبدیل کیے جانے کی بات بھی ہورہی ہے۔