کشمیر کے ہر گھر سے جنازہ اُٹھ رہا ہے،عورتیں بیوہ،بچے یتیم،نسلیں تباہ ہورہی ہیں

کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپٹر (گیلانی) کے نمائندے عَبداللہ گیلانی سے انٹرویو

فرائیڈے اسپیشل: آج ستّر سال ہوچکے ہیں، کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ عالمی برادری کا متفقہ فورم اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں اب تک ناکام نظر آرہا ہے۔ آپ کے خیال میں ایسی صورت حال کیوں ہے؟
عبداللہ گیلانی: اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے جہاں ہمیشہ امن کی بات کی گئی ہے، اور دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کی بات کی جاتی رہی ہے۔ لیکن یہاں پلوامہ کے حالیہ مظالم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس پہلے بھی ہوتے رہے، لیکن اِس بار جو اجلاس ہوا اس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں اقوام متحدہ کا کمیشن حالات کا براہِ راست جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ کشمیر کا دورہ بھی کرسکتا ہے، لیکن اس دوران پلوامہ خون میں نہا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اہم موقع پر پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کو جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ کی سطح پر ہوئی، اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بہت زور دار بات کی، لیکن اس اجلاس میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد جانا چاہیے تھا جس کی سربراہی صدرِ پاکستان یا پھر وزیراعظم عمران خان کرتے، تاکہ عالمی برادری ہمارے مقدمے کو اہمیت دیتی۔ جہاں تک ہمارے مقدمے کا تعلق ہے، کشمیر برصغیر کی تقسیم کا تصفیہ طلب مسئلہ ہے، اور اقوام متحدہ اس کا ضامن ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کا کیس یہ ہے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، لیکن بھارت وعدے کے باوجود اس پر عمل نہیں کررہا۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی بھارتی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات سے گریز کی پالیسی اپنائی۔
فرائیڈے اسپیشل: کشمیری عوام کی جدوجہد اور آزادی کے لیے تحریک کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
عبداللہ گیلانی: ہری سنگھ کا معاہدہ کالعدم ہوچکا، اسے کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بنیادی اصول یہ تھا کہ عوام فیصلہ کریں گے کہ کس کے ساتھ جانا ہے۔ حیدآباد اور جوناگڑھ کے بھارت کے ساتھ جانے کی تاریخ پڑھیں، سارے حقائق سامنے آجائیں گے۔ کشمیری عوام بھی تو رائے شماری ہی چاہتے ہیں۔ ہندوستان خود اقوام متحدہ میں گیا تھا کہ وہ رائے شماری کرائے گا۔ بہت عرصے تک یہ سلسلہ رہا کہ ہندوستان کا کوئی بھی لیڈر اجازت لیے بغیر کشمیر نہیں آسکتا تھا، اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورے کے موقع پر یہ مشکل اسے پیش آئی تھی، اس لیے کٹھ پتلی لیڈرشپ کے ذریعے یہ انتظامی حکم تبدیل کرایا گیا۔ کشمیر کے مستقبل کے لیے سب سے بڑی اور بنیادی قانونی شق اقوام متحدہ کی قرارداد ہے جس کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو فیصلہ کرنا ہے۔ ہمارا تو بنیادی مطالبہ ہی حقِ خودارادیت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کشمیری عوام کو ووٹ کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اِس سال انسانی حقوق کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش ہوئی، اسے جنرل اسمبلی میں بحث کے لیے پیش ہونا چاہیے تھا اور اس کے بعد سلامتی کونسل میں پیش کیا جانا چاہیے تھا، تاکہ اس پر بحث ہو۔ بھارتی فوج جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے، کشمیر میں مظالم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ یہ بات رپورٹ میں بھی لکھی گئی ہے۔ یہ رپورٹ کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے رکن تمام ممالک کی آواز ہے۔ لہٰذا ہندوستان اس رپورٹ کو تسلیم کرے اور انسانی حقوق کمیشن کو کشمیر میں آنے دے، تاکہ وہ فیکٹ فائنڈنگ کرسکے۔ اس وقت کشمیر میں عام آدمی بھی اور کشمیری لیڈرشپ بھی اذیت کا شکار ہے۔ شبیر شاہ، شاہد یوسف، ایاز اکبر، شکیل، سیف اللہ، معراج الدین، نعیم خان، عبدالغنی گونی، الطاف احمد شاہ، محترمہ آسیہ اندرابی، محترمہ نسرین، محترمہ فہمیدہ اور محترمہ ناہید جیسی پاکیزہ خواتین اذیت سہہ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ ہم نہیں مانتے بھارتی اصولوں کو۔ کشمیری عوام نے آج تک اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے بھارت نے وہاں فوجیں اتاری ہیں۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت عوام کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ چلے جائیں۔ کشمیری عوام تو پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے تھے اور آج بھی یہی چاہتے ہیں لیکن اُس وقت کی سیاسی قیادت نے دھوکا دیا اور بھارت کے ساتھ ایک جعلی دستاویز کے ذریعے کشمیری عوام کے سیاسی حق کا سودا کرنے کی کوشش کی۔ اپنی مرضی کے مطابق بنیادی حق کے ساتھ زندگی بسر کرنا کشمیری عوام کا حق ہے۔ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق کشمیری عوام کے اس حق کو جائز سمجھتی ہے، لیکن اس کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے۔ بھارت دو طرح کے قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، پہلا یہ کہ کشمیری عوام کے حق رائے دہی کے لیے کوئی انتظام نہیں کررہا، یہ وعدہ اقوام متحدہ میں اس نے کررکھا ہے… دوسرا یہ کہ گھروں میں سرچ آپریشن اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی فوج نے آپریشنز کے دوران اسرائیلی ساختہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں، یہ انسانی اور سیاسی معاملہ ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے ہے، اور بنیادی حقوق کا معاملہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے اندر ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: گلگت اور بلتستان کے لیے ایک الگ اسٹیٹس کی بات کی جارہی ہے، اس پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟
عبداللہ گیلانی: بہت واضح مؤقف ہے۔ محترم سید علی گیلانی صاحب نے بھی دوٹوک بات کی تھی اور اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر پر پاکستان کے عالمی مؤقف کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قراردادیں متاثر نہیں ہونی چاہئیں، پاکستان کی کشمیری عوام کے لیے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت پر حرف نہیں آنا چاہیے۔ ان تمام باتوں کا خیال رکھ کر حکومتِ پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کی بھلائی کے لیے جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی فوج کے سربراہ تو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں؟
عبداللہ گیلانی: بھارتی آرمی چیف کی دھمکی گیدڑ بھبھکی ہے، اس کا سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے بھی ردعمل دیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان انتہائی نامناسب ہے۔ اقوام عالم اس بات کی گواہ ہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار بنایا گیا۔ پاکستان کی حکومت کی جانب سے درست کہا گیا کہ بھارتی آرمی چیف کو سمجھنا چاہیے کہ وہ بی جے پی کے عہدیدار نہیں۔ واقعی جنرل بپن راوت کو سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ بھارتی حکومت کی ترجیح یہی رہی کہ یہاں امن قائم نہ ہونے پائے، اور دنیا میں پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کیس تیار رکھا جائے۔ لیکن پاکستان نے بھی بہت جان دار اور بہترین مؤقف اپنایا اور بار بار کہا کہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ بھارت کی طرف سے ہمیشہ ہرزہ سرائی کی گئی۔ ابھی کرتارپور راہداری کھولنے کے وقت بھی یہی کچھ ہوا۔
فرائیڈے اسپیشل:کشمیری مجاہدین کے نام سے جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں کے اجرا پر بھی بھارت نے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اس کا یہ مؤقف کیسا تھا؟
عبداللہ گیلانی: بالکل غلط تھا، پاکستان نے انسانی حقوق کے دن کی مناسبت سے یہ ٹکٹ جاری کیا تھا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں ایسا ہوا اور ہورہا ہے۔ بھارت میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، بی جے پی اور کانگریس انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کو اپنا وتیرہ بنا لیتی ہیں۔ آئندہ سال الیکشن ہونے ہیں، نریندر مودی وعدے اور دعوے پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، ریاستی انتخابات میں انہیں شکست ہوئی ہے۔ اسلام آباد کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی بھی دوطرفہ مذاکرات پائیدار اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے، جس کی بنا پر تیسرے فریق کو ثالث کا کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین، او آئی سی اور اقوام متحدہ سمیت بااثر ممالک مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کے لیے بھارت پر دبائو بڑھائیں۔ اس کے لیے سب سے مؤثر فورم اقوام متحدہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کی جانب سے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
عبداللہ گیلانی: اسے چھوڑیں، یہ سب بکواس اور جھوٹ ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت اس دعوے کو اپنی پارلیمنٹ میں ثابت نہیں کرسکیں۔ لیکن یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ بھارتی قیادت مایوسی کا شکار ہے، اسے ریاستی انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مکروہ کھیل کھیلے۔
فرائیڈے اسپیشل: وادی میںکیا تبدیلی آرہی ہے؟
عبداللہ گیلانی: مقبوضہ کشمیر میں پولیس افسروں نے بغاوت کردی ہے، وہ دھڑادھڑ استعفے دینے لگے ہیں۔ پہلے تو سرکاری حکام ان اطلاعات کی تردید کرتے رہے، لیکن بھارتی میڈیا نے اعتراف کیا کہ پولیس افسر ملازمت چھوڑ رہے ہیں۔ کشمیری پولیس افسر استعفوں کے ساتھ قوم سے معافی بھی مانگ رہے ہیں۔ بعض مقامات پر مساجد کے ائمہ نے پولیس اہلکاروں کی جانب سے استعفے کے خطوط پڑھ کر سنائے ہیں۔ استعفوں کا یہ سلسلہ حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر ریاض نیاکو کے آڈیو پیغام کے بعد شروع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسپیشل پولیس افسروں سے کہا تھا کہ وہ اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت مذاکرات سے کیوں بھاگ رہا ہے؟
عبداللہ گیلانی: بھارتی حکومت نے پاکستان کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرنے کے چند ہی گھنٹوں بعد مذاکرات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ بھارت نے مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا یہ جواز دیا کہ ’’ایل او سی‘‘ پر بھارتی فوجی کی ہلاکت اور پاکستانی حکومت کی جانب سے برہان مظفر وانی کا ڈاک ٹکٹ جاری کیے جانے کے باعث پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اس اعلان کے بعد بھارتی آرمی چیف بھی بولے، بھارتی حکومت کے حامی کارپوریٹ میڈیا میں بھی پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگی فضا بنائی جانے لگی، مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف نام نہاد ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دن منانے کا بھی اعلان کردیا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ انہیں انتخابات میں شکست سے نہیں بچا سکا۔ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر کانگریس نے بھی واضح مؤقف اختیار کیا کہ مودی سرکار ’’رافیل اسکینڈل‘‘ سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالفت کا ڈھونگ کررہی ہے۔ راہول گاندھی اور کانگریس کے دوسرے راہنمائوں نے مودی کے بارے میں کہا کہ حقیقت میں یہ رافیل اسکینڈل ہی ہے جس کے باعث مودی سرکار مکمل طور پر حواس باختہ ہوچکی ہے، مودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت کے دامن پر کرپشن کا کوئی ایک چھوٹا داغ بھی نہیں لگے گا، مگر اب رافیل اسکینڈل بھارتی تاریخ ’’میگا کرپشن اسکینڈل‘‘ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ معاہدہ ہے کیا؟
عبداللہ گیلانی: بنیادی طور پر ’’رافیل‘‘ کا معاہدہ کانگریس کی حکومت نے اگست2007ء میں کیا۔ بھارتی ائرفورس کو جدید لڑاکا طیاروں کی فوری ضرورت تھی۔ 126 لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے 10.2 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی، جنوری 2012ء میں لڑاکا طیارے بنانے والی فرانس کی کمپنی Dassault Aviation نے یہ طیارے بنانے کا ٹینڈر حاصل کیا، چونکہ انتخابات نزدیک آرہے تھے، اس لیے کانگریس کی حکومت فرانس سے یہ معاہدہ نہ کرسکی۔ مودی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آتے ہی اس رافیل ڈیل کے لیے تیزی کے ساتھ کام شروع کیا۔ مودی حکومت نے فرانس کے صد فرانکوس اولاند کے ساتھ 10 اپریل 2015ء کو 36 لڑاکا طیارے لینے کے لیے 8.7 ارب ڈالر کی ایک نئی ڈیل کی۔ بھارت کے دفاعی قانون میں ایک offset کلاز رکھی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی بیرونی ملک سے کیے گئے دفاعی سودے کو پورا کرنے کے لیے کچھ حصوں کی بھارت میں ہی مینو فیکچرنگ کرنا ہوتی ہے، اور اس کے لیے کسی بھارتی کمپنی کی ہی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اور یہ بات طے ہوچکی تھی کہ فرانس کی کمپنی Dassault Aviation بھارت کی جس کمپنی کے ساتھ مل کر رافیل طیارے تیار کرے گی وہ Hindustan Aeronautics Limited ہوگی، جس کے پاس لڑاکا طیارے بنانے کا طویل تجربہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے انتہائی قریبی ارب پتی بزنس مین ساتھی مکیش امبانی نے، جن کی بیٹی کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، اس معاہدے سے12روز پہلے Relianceگروپ کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور فرانس کی کمپنی Dassault Aviationکا امبانی کی اس کمپنی Reliance کے ساتھ فروری 2017ء میں باقاعدہ پارٹنرشپ کا معاہدہ ہوگیا۔ امبانی کی کمپنی کو رافیل طیاروں کی ڈیل دینے پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید اعتراض کیا اور مودی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی گئی، مگر رافیل معاہدے میں کرپشن اُس وقت واضح طور پر عیاں ہوگئی، جب فرانس کے سابق صدر فرانکوس ہولاند نے واضح طور پر کہہ دیا کہ رافیل معاہدہ کرنے کے لیے فرانس کے سامنے صرف Reliance group (امبانی کی کمپنی) کا آپشن ہی رکھا گیا تھا۔ یوں 12,600 کروڑ کی کرپشن بالکل واضح طور پر سامنے آئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی وزیراعظم تو دنیا کو دھوکا دینے کے لیے ہمیشہ کہتا رہا کہ وہ کرپٹ نہیں۔ اس اسکینڈل کے بعد کیا ہوسکتا ہے؟
عبداللہ گیلانی: مودی کا یہ دعویٰ غلط تھا، کوئی اسے نہیں مانتا تھا۔ 2014ء کے انتخابات سے پہلے مودی کا دعویٰ رہا کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر ان کی ذات پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں لگا، اس لیے ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی کرپشن نہیں ہوگی۔ مگر سرمایہ داری نظام پر مشتمل جمہوری نظام کی صداقتوں کو سمجھنے والوں کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ امبانی اور بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر 2014ء میں مودی کو وزیراعظم بنانے کے لیے کروڑوں لگا رہا ہے تو وہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کھربوں بنائے گا۔ ہم ان اخراجات کے اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو ایک ’’چائے فروش‘‘ کے بیٹے کو بھارت کا وزیراعظم بنانے کے لیے2014ء کے انتخابات میں کیے گئے۔ انتخابات میں بی جے پی نے 5,000 کروڑ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کیے۔ ٹی وی اشتہارات پر بی جے پی نے 800 سے 1000 کروڑ روپیہ صرف کیا۔ جن اخراجات کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے ان کا اشتہار ساز کمپنیوں، اخبارات اور کئی اداروں میں ریکارڈ موجود ہے، جبکہ اربوں روپے کے اخراجات ایسے ہیں جن کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے۔ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز، ہوائی جہاز، پارٹی کارکنوں کو روپے کی فراہمی اور ووٹروں کو کھلانے پلانے کے اخراجات کا اندازہ کیا جائے تو یہ رقم بھی اربوں میں ہوگی۔ مودی کے امبانی برادران سے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی اور مودی پر اربوں روپیہ صرف کرنے والے بڑے بڑے بزنس مینوں اور کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کے چار سالہ اقتدار میں کھربوں بنائے، اور ایسا کرپشن کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ بات درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سیکورٹی رسک کا بہانہ بناکر کشمیریوں کے روایتی لباس پر پابندی عائدکردی گئی ہے؟
عبداللہ گیلانی: مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھارہی ہے، وہیں انتظامیہ نے روایتی لباس پر بھی پابندی عائد کردی۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نئے حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اور سول سیکڑیٹریٹ میں پھیرن پہن کر آنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جبکہ فوجی اداروں اور پولیس کیمپوں میں پھیرن پہن کر داخل ہونا پہلے ہی ممنوع ہے۔ پھیرن کشمیریوں کا روایتی لباس ہے جو عموماً سردیوں میں پہنا جاتا ہے۔ پھیرن پر پابندی کے خلاف سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کشمیریوں نے پھیرن کو صرف پہناوا نہیں بلکہ اپنی ثقافت قرار دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا راج ہے،عورتیں بیوہ،بچے یتیم اور نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔انڈین آرمی اور حکومت تمام مسلمہ بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے ظلم کی ایسی داستان رقم کررہی ہیں جس سے زمین و آسمان بھی پنا ہ مانگ رہے ہیں۔کشمیر میں ایک ہی دن 14 معصوم کشمیریوں کو جس بے دردی سے بھارت کی دہشت گرد اور قاتل افواج نے شہید کیا ہے اس کی مثال دنیا بھر میں نہیںملتی۔ کشمیر کے ہر گھر سے جنازہ اٹھ رہا ہے مگر مقام افسوس ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بھارت نے اگر معصوم کشمیریوں پر ظلم بند نہ کیا تو پھر پورے خطہ میں ایٹمی جنگ ہوگی جس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر چھائونی میں تبدیل ہوچکا ہے، نہتے مسلمانوں کی نسل کُشی بڑھ چکی ہے، انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے کے ساتھ ساتھ ننھے بچوں پر مظالم بھارتی بزدل فوج کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بھرپور انداز میں آواز بلند کی۔ اقوام عالم سمیت دیگر تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حقِ خودارادیت دلوانے کے لیے کردار ادا کریں۔ سلام پیش کرتا ہوں اُن مائوں، بہنوں کو جو اپنے بیٹوں کو قربان کرتی ہیں۔ گولی کے سامنے سینہ تان کر آزادی لینا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ انسانی حقوق کے علَم برداروں کی خاموشی بھی بہت ہوچکی، اب عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بھارت نے جموں وکشمیر میں ظلم و سفاکی کی انتہا کردی ہے۔ نریندر مودی اگر اتنا ہی ایمان دار ہے تو اقوام متحدہ یا دیگر صحافیوں کو جموں وکشمیر میں کیوں نہیں جانے دیتا! جموں وکشمیر میں بھارت آئے روز بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرتا ہے، اور ماؤں، بہنوں کی سرعام عزتیں لوٹی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض انڈین آرمی نے ظلم و ستم کی انتہا کررکھی ہے۔ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے، پیلٹ گن سے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو نابینا کیا جارہا ہے، لیکن آزادی کے خواب کوئی نہیں چھین سکتا۔ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی شہداء کو پاکستانی پرچم میں دفنایا جاتا ہے۔