جمال خاشق جی کے بہیمانہ قتل اور یمن کی خانہ جنگی پر ساری دنیا میں پھیلی بے چینی کی لہریں اب امریکہ میں بھی محسوس کی جارہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کرلی، جس میں سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل پر ولی عہد محمد بن سلمان المعروف (MBS) کا نام لے کر ان کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ تحریک سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ کے سربراہ باب کروکر (Bob Croker) نے پیش کی جسے سینیٹروں نے صدائی ووٹ (Voice Vote)کے ذریعے منظور کرلیا۔ تحریک کے متن میں بڑی صراحت سے درج ہے ’’ہمیں یقین ہے کہ (سعودی) ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشق جی کے قتل کے ذمے دار ہیں‘‘۔ امریکی سینیٹ نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’قتل کے ذمے داروں کا تعین کرکے قرار واقعی سزا دی جائے‘‘۔ قرارداد پر تقریر کرتے ہوئے ری پبلکن رہنما سینیٹر لنڈسے گراہم (Lindsay Graham) نے کہا کہ MBS کی سبک دوشی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب ہمارا تزویراتی اتحادی ہے لیکن انسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند نہیں رکھی جاسکتیں۔ یہ قرارداد باقاعدہ بل کی شکل میں پیش نہیں گئی ہے، لہٰذا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن سینیٹ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے اور یہاں منظور ہونے والی قرارداد امریکیوں کے جذبات کی عکاس ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ اگلے سال 3 جنوری کو امریکہ کی نئی مقننہ کے حلف اٹھانے کے بعد سعودی عرب کو امریکی اسلحہ پر پابندی کا بل پیش کیا جائے گا۔
خاشق جی کی موت اور اس میں MBSکے مبینہ کردار سے یمن کی خانہ جنگی پر بھی گفتگو شروع ہوگئی ہے اور لگتا ہے کہ بے گناہ خون کے چھینٹوں نے سوئے ہوئے انسانی ضمیر کو بیدار کردیا ہے۔ ولی عہد کی مذمت سے پہلے امریکی سینیٹ نے 41 کے مقابلے میں 56 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی، جس میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یمن تنازعے میں سعودی عرب کی عسکری حمایت بند کردی جائے۔ یہ قرارداد ری پبلکن کے سینیٹر لنڈسے گراہم اور ڈیموکریٹک پارٹی کے باب میننڈیز(Bob Mennendez) کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی۔ امریکی سینیٹ نے جمال خاشق جی کے قتل کے ساتھ یمن خانہ جنگی کا ذمے دار بھی سعودی ولی عہد کو قراردیتے ہوئے MBSکی برطرفی اور سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد کو آئینی تحفظ دینے کے لیے بل پر رائے شماری کے دوران امریکی سینیٹ نے 39 کے مقابلے میں 60 ووٹوں سے ایک تحریک کی منظوری بھی دے دی، جس میں جنگ سے متعلق امریکی صدر کے اختیارات یا War Power Act پر بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گویا یمن کی جنگ سے امریکہ کی علیحدگی کے لیے قانونی راہ ہموار کرنے کا ابتدائی کام شروع ہوچکا ہے۔
اب تک ہونے والی کارروائیاں رسمی نوعیت کی ہیں۔ اس ضمن میں ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) خاموش نظر آرہا ہے، جبکہ کسی بھی قرارداد کا نافذالعمل ہونا اور دستخط کے لیے صدر کی میز تک جانا کانگریس کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان سے منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ موجودہ کانگریس کا آخری اجلاس ہے، جس کے بعد اس کی مدت پوری ہوجائے گی، اور 3 جنوری کو نیا ایوان حلف اٹھائے گا۔ خیال یہی ہے کہ جنوری میں نئی کانگریس کی تشکیل کے بعد جب ایوانِ زیریں صدر کے مخالفین کے قابومیں آجائے گا تو یمن جنگ کے مخالف امریکی نئی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آئیں گے۔
صدر ٹرمپ سعودی عرب اور MBSکی پشتیبانی کے حوالے سے انتہائی پُرعزم نظر آرہے ہیں، اور وہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ جمال خاشق جی کے قتل کی اخلاقی ذمے داری تو سعودی حکومت پر اس اعتبار سے یقیناً عائد کی جاسکتی ہے کہ واردات سعودی قونصل خانے میں ہوئی اور تمام ملزمان اعلیٰ سرکاری ملازم ہیں، لیکن ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جن کی بنیاد پر ولی عہد یا سعودی حکومت کو براہِ راست ملوث قرار دیا جاسکے۔ یمن تنازعے پر صدر ٹرمپ ایران کو اس انسانی المیے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادی ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے دیوار بنے ہوئے ہیں، اور ان کی پسپائی کی صورت میں تیل سے مالامال علاقے پر ایران کا قبضہ ساری دنیا میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی کی قراداد کانگریس کے دونوں ایوانوں نے منظور بھی کرلی تو وہ صدارتی ویٹو استعمال کرکے اسے غیر مؤثر کردیں گے۔ متوقع سیاسی مضمرات کے علاوہ صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات پر ہے کہ اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے نتیجے میں سعودی عرب نے امریکہ سے 120 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدنے کا جو معاہدہ کیا ہے اسے منسوخ کرنا پڑے گا۔ اس سودے کے بارے میں صدر ٹرمپ کہتے پھر رہے ہیں کہ امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی صدر نے اس حجم کا سودا نہیں کیا۔
ستمبر میں یمن خانہ جنگی کو بنیاد بناکر اسپین سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی معطل کرچکا ہے۔ چند ہفتہ پہلے فن لینڈ، جرمنی اور ڈنمارک بھی سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی لگاچکے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پابندی کے فیصلے سے پہلے اپنے رفقا سے مشورے کررہے ہیں۔
صدر ٹرمپ خود کو یمن تنازعے کا ذمے دار نہیں سمجھتے کہ اس کا آغاز یمن میں 2010ء کے اختتام پر ہوا جب صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف عوامی تحریک سارے ملک میں پھیل گئی۔ یہ دراصل بحالیٔ جمہوریت کی تحریک تھی، جس کی قیادت اخوان المسلمون کی جواں سال رہنما توکل کرمان کررہی تھیں۔ یہ ایک نظریاتی تحریک تھی جسے اخوان کے سربراہ شیخ عبدالمجید زندانی کی سرپرستی حاصل تھی۔ بھرپور تحریک کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح کے اعصاب جواب دے گئے اور دارالحکومت صنعا کی صالح مسجد کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تمام صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ صدر کے اس خطاب کو قومی ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا گیا، جس میں یمنی صدر نے وزارتِ قانون کو آئین میں ترمیم اور اس کی توثیق کے لیے قومی ریفرنڈم کرانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے 2013ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کے اپنے گزشتہ فیصلے کا اعادہ کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمایا کہ ان انتخابات میں ان کے صاحبزادے احمد صالح یا خاندان کا کوئی اور فرد بھی حصہ نہیں لے گا۔ تاہم انھوں نے مظاہرین کے مطالبے پر مستعفی ہونے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہذب معاشروں میں تبدیلی کا طریقہ انتخابات ہیں، عوامی مظاہرے نہیں۔ صدر کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے توکل کرمان نے کہا کہ اب صدر ’’غیر‘‘ صالح کے استعفے سے کم کوئی بات یمنی عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ محترمہ کرمان نے کہا کہ یمنی صدر ایک عادی جھوٹے ہیں، انھوں نے 2002ء میں بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا جس کے بعد انہوں نے نہ صرف 2006ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا بلکہ دھاندلی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے، اور اس کے صرف تین ماہ بعد پارلیمنٹ سے ایک ترمیم منظور کرا لی جس کے تحت مدتِ صدارت پانچ سے سات سال کردی گئی۔ یہی نہیں بلکہ موجودہ عوامی تحریک سے پہلے ایک اور آئینی ترمیم کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی جس کے تحت جناب عبداللہ صالح کو تاحیات صدر مقرر کیا جانا تھا۔
اُس وقت بارک اوباما امریکہ کے صدر تھے اور ان کے دفتر خارجہ نے صدر صالح کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے یمنی حزبِ اختلاف کو جمہوریت کے قیام کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا مشورہ دیا، لیکن توکل کرمان نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔ اپنے ایک بیان میں جمعیت الاصلاح کے ترجمان نے کہا کہ عرب دنیا میں سامراج کا کھیل اب ختم ہوچکا۔ امریکہ کو یمنیوں کی فکر میں دبلا ہونے کے بجائے اپنے ملازم کے لیے فرار کا راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور مظاہرین نے صنعا یونیورسٹی کے سامنے میدان میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اس چوراہے کو تحریر یا آزادی اسکوائر کا نام دیا گیا۔ جامعہ صنعا، جامعہ ایمان اور دوسرے تعلیمی اداروں کے طلبہ، صنعتی کارکنوں، بندرگاہ کے مزدوروں اور عوام کے ساتھ ڈاکٹر اور وکلا بھی خیمہ زن ہوگئے۔ دھرنے کے دوسرے دن تحریر اسکوائر کو تغیر (تبدیلی) اسکوائر نام دینے کی تقریب ہوئی جو ’’شب بیداری‘‘ میں تبدیل ہوگئی اور ہزاروں افراد شمعیں اور مشعلیں لے کر ساری رات نعرہ زن رہے۔ جلد ہی یہ تحریک دوسرے شہروں اور دیہات تک پھیل گئی۔ سارا ملک مفلوج ہونے پر صالح کے لیے استعفے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اور حزبِ اختلاف کے مشورے کے بعد انھوں نے اقتدار نائب صدر عبدالرب منصور ہادی کے حوالے کردیا۔
زیدی فرقے کے حوثی اس بندوبست پر مطمئن نہ تھے اور ان کا خیال تھا کہ منصور ہادی سعودی عرب کے تنخواہ دار ہیں۔ حوثیوں کے پُرامن مظاہرے جلد ہی مسلح تصادم میں تبدیل ہوگئے۔ ایران نے حوثیوں کی عسکری مدد شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی سعودی عرب صدر ہادی کی پشت پر آکھڑا ہوا۔ حوثیوں اور سعودی عرب کی مدد سے لڑنے والی یمنی فوج کی لڑائی میں اخوانیوں کی پُرامن جمہوری جدوجہد سکڑ کر جامعات تک محدود ہوگئی، جبکہ چوکوں اور چوراہوں پر مسلح جتھوں نے مورچے سنبھال لیے۔
23 جنوری 2015ء کو ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی نئے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے صاحبزادے MBS کو وزیردفاع بنادیا اور عقاب صفت شہزادے نے اپنے خلیجی اتحادیوں کو علاقے پر متوقع ایرانی قبضے سے ڈراکر یمن جنگ میں تیزی لانے پر رضامند کرلیا۔ دوسری طرف یمن میں حوثیوں کا دبائو اس قدر بڑھا کہ یمنی صدر ہادی دارالحکومت صنعا سے فرار ہوکر سعودی عرب آگئے۔
26 مارچ 2015ء کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فضائیہ نے یمن پر بمباری کا آغاز کرکے یمن تنازعے کو علاقائی جنگ میں تبدیل کردیا۔ یمن پر بمباری کے لیے مصر کے جنرل السیسی بے حد پُرجوش تھے اور انھوں نے اپنی پوری فضائیہ یمن کے خلاف جھونک دی۔ بے ایمان و بدعنوان السیسی کے لیے بمباری مہم نہ صرف کمائی کا ایک ذریعہ تھی بلکہ ایران کا ہوّا دکھاکر انھوں نے امریکہ اور یورپ سے سیاسی فوائد بھی حاصل کیے۔ تباہ کن بمباری کا سلسلہ آج تک جاری ہے جس نے یمن کے بڑے حصے کو راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ امریکہ نے سرکاری طور پر اس جنگ میں شرکت کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اسلحہ کی فروخت کے ساتھ امریکہ کے ایندھن بردار طیارے حملہ آور سعودی و خلیجی بمباروں کو دورانِ پرواز ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ یمن میں القاعدہ کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کے لیے بھی امریکی اور خلیجی فوج مشترکہ کارروائی کررہی ہے، جبکہ سیاسی و سفارتی محاذ پر امریکہ اور نیٹو سعودی عرب کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔
اس تباہ کن بمباری سے معلوم نہیں حوثیوں کو کتنا نقصان پہنچا، لیکن یمن کی بنیادی تنصیبات تباہ ہوگئیں۔ ملک کے بڑے حصے میں بجلی منقطع ہوگئی۔ ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا۔ آب پاشی و آب نوشی کے ذخائر تباہ ہونے سے جہاں زراعت کا نظام متاثر ہوا، وہیں غریب یمنی پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے اور ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ غلے کی شدید قلت نے بہت سے علاقوں پر قحط طاری کردیا۔ متحارب گروہوں نے بندرگاہوں پر قبضہ کرکے بین الاقوامی برادری سے امداد کاراستہ مسدود کردیاجس کی وجہ سے یہ انسانی المیہ دوچند ہوگیا، لیکن المیے سے بڑا المیہ مسلم امت سمیت اقوامِ عالم کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ قحط و بیماری کے حوالے سے روح فرسا خبریں آنے کے باوجود بھی عالمی اداروں نے جنگ رکوانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔
چند ماہ پہلے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گریفتھ (Martin Griffiths) کی کوششوں سے حوثی اور صدر ہادی کے حامی بات چیت پر راضی ہوگئے اور دسمبر کے آغاز پر سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے رمبو (Rimbo)میں گفتگو کا آغاز ہوا۔کئی روز کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد دونوں فریق پائیدار امن کے لیے تعمیری بات چیت پر راضی ہوگئے، اور 13 دسمبر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی موجودگی میں حوثیوں کے نمائندے محمد عبدالسلام اور یمنی وزیرخارجہ خالد الیمانی نے یمنی بندرگاہ الحدیدہ کے قرب و جوار میں جنگ بندی کا اعلان کردیا تاکہ متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کا آغاز ہوسکے۔ بحر عرب میں کھلنے والی اس بندرگاہ سے متصل کھلے پانیوں میں امدادی سامان اور ادویہ سے لدے کئی ترک جہاز کھڑے ہیں جنھیں جنگجو بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اسی کے ساتھ قیدیوں کی رہائی اور تعز شہر میں لڑائی بند کردینے پر اصولی اتفاق ہوگیا۔ بحر احمر کے ساحل پر واقع یمن کا تیسرا بڑا شہر تعز خانہ جنگی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
امن معاہدے پر اب تک ٹھیک طرح سے عمل درآمد شروع نہیں ہوا، اور لڑائی کی شدت میں کمی آجانے کے باوجود بندرگاہ کے قریب فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں اب تک بحال نہیں ہوسکیں۔ سیاسی مبصرین اس معاہدے کے بارے میں بہت زیادہ پُرامید نہیں، کہ تنازعے کے اصل فریق یعنی سعودی عرب اور ایران نے رمبو معاہدے کی حمایت کا ابھی تک اعلان نہیں کیا اور خلیجی طیاروں کی بمباری ہنوز جاری ہے۔ اس پس منظر میں امریکی سینٹ کی حالیہ قرار داد سعودی عرب پر دبائو ڈالنے کی ایک کوشش ہے واضح رہے کہ دنیا کے دیگر تنازعات کی طرح یمن کی خانہ جنگی کے حل کی کنجی بھی واشنگٹن کے پاس ہے۔