پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم و مغفور) کو دُنیا سے رُخصت ہوئے چھے برس بیت گئے۔ مگر ان کی جدائی اور غم کی شدت جناب الطاف حسن قریشی کے اس شعر کے مصداق ہے کہ:
کتنی شدت سے تیری یاد آئی
شادی غم ہے اور ہم تنہا
پروفیسر عبدالغفور احمد سے ساٹھ کے عشرے کے ابتدائی سالوں میں میری شناسائی اس وقت ہوئی تھی۔ جب میں ان کے نظریات اور سیاسی مسلک کی مخالف طلبہ تنظیم این ایس ایف سے وابستہ تھا۔ بعد ازاں میرے پیارے دوست ڈاکٹر ممتاز احمد (مرحوم) مجھے اسلامی جمعیت طلبہ میں لے کر آئے تو ان سے شناسائی، ذاتی تعلق، محبت اور نیاز مندی میں تبدیل ہوگئی۔
پروفیسر عبدالغفور احمد نے بانیٔ جماعت اسلامی مجدّدِ عصر سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے براہِ راست استفادہ اور تربیت حاصل کی تھی۔ پروفیسر صاحب سیّد مودودیؒ کے دورِ امارت سے مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے تھے۔
۱۹۶۴ءمیں ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگاکر امیر جماعت اسلامی سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ سمیت مجلسِ شوریٰ کے تمام ارکان کو پابندِ سلاسل کیا تو پروفیسر عبدالغفور احمد بھی مولانا مودودیؒ کے ساتھ ساڑھے نو ماہ کی قید کاٹنے والوں میں شامل تھے۔ (سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی پر پاکستان مخالف جماعت کے الزام کو کالعدم قرار دے کر غداری کے مقدمہ سے جماعت کے بانی اور تمام راہنمائوں کو باعزت بری کر کے رہا کردیا تھا)۔ پروفیسر عبدالغفور کی جماعت اسلامی اور پاکستانی سیاست میں خدمات کا دورانیہ۶۸ سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔
اس وقت جماعت اسلامی کے جو راہنما اور قائدین حیات ہیں ان میں پروفیسر خورشید احمد اور جھنگ شہر میں تعلیم کے فروغ کے حوالہ سے جھنگ کے ’سرسیّد‘ کی شہرت رکھنے والے پروفیسر گوہر صدیقی کے علاوہ کوئی دوسرا راہنما اور قائد ایسا نہیں ملے گا جسے بانیٔ جماعت اسلامی سیّد مودودیؒ کے دورِ امارت میں مجلسِ شوریٰ میں منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہو۔
پروفیسر خورشید احمد نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’پروفیسر عبدالغفور احمد کو محترم نعیم صدیقی کے بعد اس کمیٹی کے سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ جو جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ میں منظوری کے لیے پیش کی جانے والی قرار دادوں کا مسوّدہ تیار کرتی تھی۔ اس کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں چوہدری رحمت الٰہی اور پرفیسر خورشید احمد شامل رہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے لکھا کہ پہلے قراردادیں مولانا مودودیؒ خود لکھتے تھے۔ بعد میں یہ ذمّہ داری محترم نعیم صدیقی صاحب کے سپرد ہوئی تھی۔
پروفیسر خورشید احمد نے لکھا ہے کہ پروفیسر عبدالغفور کو جب سے اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو ہمیشہ قرار دادوں کا ابتدائی مسوّدہ انھی کا تحریر کردہ ہوتا تھا۔ بوقت ضرورت کمیٹی کے دیگر ارکان اور مجلسِ شوریٰ اپنا مشورہ دے دیا کرتی تھی۔
پروفیسر عبدالغفور احمد طویل عرصے تک جماعت اسلامی کے سیاسی اُمور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بھی رہے جن کی مساعی سے دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ بہتر رابطوں کی فضا اور اختلافی مسائل پر افہام و تفہیم کی راہیں کشادہ ہوئیں۔ بے عیب ذات تو خداوندکریم کی ہے اور اس نے اپنے پیغمبروں کو معصوم عن الخطا قرار دیا ہے باقی تمام مخلوق میں سے کوئی بھی خطا و نسیان سے محفوظ نہیں ہے، اور نہ ہی بشری کمزوریوں سے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب سے بھی خطا و نسیان اور بشری کمزوریاں سرزد ہوئیں ہوں گی۔ تاہم ان کے جاننے والے خواہ ان کا تعلق ان کے سیاسی و مذہبی نظریات کے حامیوں سے ہو یا سیاسی و نظریاتی مخالفوں سے سب کا اس پر اتفاق ہے کہ خیر ان کی زندگی میں ہمیشہ غالب رہا۔ وہ کسی کی مدد اور فیض رسانی میں اپنے پرائے کی تمیز کرتے نہیں پائے گئے۔ وہ اپنے شائستہ اندازِ گفتگو اور اختلافی مسائل پر مخالف کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کا کمال درجہ حوصلہ رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنے کسی غلط موقف پر اظہارِ تاسف اور معذرت کرنے میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لیتے تھے اور نہ ہی کسی قسم کی حیل و حجت کرنے کے قائل تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء حکومت میں انھوں نے وزارت کا حلف نہ چاہنے کے باوجود جماعت کے فیصلے کی پابندی کے تحت بہ امر مجبوری اُٹھا تو لیا تھا مگر یہ کڑوا گھونٹ تھا جو انھیں پینا پڑا تھا۔ تاہم وہ اپنے اس فیصلہ پر ہمیشہ تاسف کا اظہار کیا کرتے تھے۔ البتہ جب ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق نے ریفرنڈم کے ذریعہ اگلے پانچ سال کی صدارت کو سندِ جواز لینے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر میاں طفیل محمد صاحب نے جماعتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ کے کسی حتمی فیصلے کی منظوری سے قبل ہی جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کے بعد جب ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کردیا تو پروفیسر عبدالغفور احمد نے اس فیصلے سے اظہارِ لاتعلقی کا اعلان کرکے نائب امارت کے منصب سے استعفیٰ قیم جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کے سپرد کرکے اجلاس سے نکل جانے میں دیر نہیں لگائی تھی اور اسی وقت لاہور سے کراچی واپس آگئے تھے۔ انہوں نے ریفرنڈم کا ذاتی حیثیت میں بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ اسی طرح ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی انتخاب میں جماعت کی طرف سے اس انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے کے باوجود خود اس انتخاب میں اُمیدوار بننے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا اس پر واضح موقف تھا کہ غیر جماعتی انتخاب ۱۹۷۳ء کے دستور کی رُوح کے بھی منافی ہے اور مسلمہ جمہوری روایات کے خلاف بھی ہے۔ سیاسی عمل کے لیے سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر اور لازمی ہے۔ غیر جماعتی انتخاب اس کی نفی ہے۔
راقم نے ان کے انتقال سے کئی برس پہلے ان سے ان کی طویل سیاسی زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر ایک انٹرویو کی درخواست کی تھی جو انھوں نے اس شرط کے ساتھ قبول کی تھی کہ انٹرویو مکمل ہونے سے پہلے اس انٹرویو کا کوئی جز یا نامکمل انٹرویو شائع نہیں ہوگا۔ اس انٹرویو کے لیے ان کے ساتھ کئی نشستیں ان کے گھر پر بھی ہوئیں اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں بھی، جہاں وہ انتخابی سیاست سے علیٰحدہ ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کا کام کیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے انھی دنوں ان کی علالت نے شدت اختیار کرلی اور یہ انٹرویو نامکمل اور ادھورا رہ گیا۔ ان سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق بھی اور صحافتی ضابطۂ اخلاق بھی نامکمل انٹرویو کو شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
راقم نے اپنی صحافتی زندگی میں اس ضابطۂ اخلاق کی ہمیشہ پاسداری کی ہے۔ تاہم اس انٹرویو کے دوران ہونے والی گفتگو کا وہ حصہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ ہی صحافتی ضابطہ اخلاق کی پابندی کی اس سے خلاف ورزی ہوگی۔ جن کا ذکر وہ اپنی تصانیف: (۱) پھر مارشل لاء لگ گیا۔ (۲) الیکشن نہ ہوسکے۔ (۳) جنرل ضیاء الحق کے آخری دس سال، میں کرچکے ہیں یا دیگر صحافیوں کے ساتھ انٹرویو یا گفتگو کرچکے تھے۔ وہ انٹرویو اور گفتگو شائع بھی ہوچکی ہیں۔
انٹرویو کے دوران راقم نے ان سے ان کی کتاب میں درج آئی جے آئی میں شمولیت کے فیصلے کے حوالہ سے سوال کیا تھا کہ کیا آئی جے آئی میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کے امیرِ جماعت جناب قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سے منظوری حاصل کیے بغیر اسی طرح نہیں کیا تھا؟ جس طرح سابق امیر جماعت میاں طفیل محمد صاحب نے ریفرنڈم کی حمایت میں مجلس شوریٰ کے حتمی فیصلے سے قبل ہی جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کے بعد حمایت کا اعلان کرکے کیا تھا۔ جس سے آپ کو شدید اختلاف تھا جب کہ اس وقت شوریٰ نے کوئی حتمی فیصلہ نہ ریفرنڈم کی حمایت کا کیا تھا اور نہ ہی مخالفت کا جب کہ آئی جے آئی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے سے چند دن قبل ہی جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اکتوبر ۱۹۸۸ء کا الیکشن کسی اتحاد کے ساتھ لڑنے کے بجائے جماعت اسلامی کے نشان پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ کیا قاضی حسین احمد اور آپ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ آئی جے آئی میں شمولیت پر مجبور کرنے والوں کو یہ کہتے کہ ہمیں اتنا وقت دیں کہ ہم اس فیصلے کی منظوری اپنی مجلس شوریٰ سے حاصل کرلیں۔ اس پر ایک جواب ان کا آف دی ریکارڈ تھا۔ جس کا ذکر یہاں نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا آن دی ریکارڈ جواب یہ تھا کہ اس فیصلہ کی منظوری امیر جماعت قاضی حسین احمد نے جس جگہ اور جس ماحول میں دی تھی وہاں انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ انہوں نے واضح کردیا تھا کہ آئی جے آئی میں شامل نہ ہوئے تو وقت پر انتخاب ہونے کو بھول جائو۔ تاہم پروفیسر صاحب کو ریفرنڈم کے فیصلے کی طرح جماعت کے اس فیصلے کو بھی درست نہ تسلیم کرنے کے اعتراف میں کوئی تامل نہیں تھا اور نہ ہی وہ وہاں اپنی موجودگی کی وجہ سے اپنے آپ کو اس فیصلے کی منظوری میں شرکت سے بری الزمہ قرار دیتے تھے۔ آئی جے آئی میں شمولیت کے واقعہ پر وہ اپنی تصنیف میں اظہارِ خیال کرچکے ہیں۔
مجھ سے انٹرویو کے دوران پروفیسر صاحب نے ریفرنڈم کے حوالہ سے اس تاثر کی بھی نفی کی تھی کہ اس کی مخالفت صرف کراچی سے تعلق رکھنے والے مجلس شوریٰ کے ارکان نے کی تھی۔ ان کے مطابق کراچی کے علاوہ بھی شوریٰ کے اجلاس میں اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے موجود تھے۔ شوریٰ کے بعض ارکان جو شوریٰ کے اجلاس میں نہیں آسکے تھے انھوں نے ریفرنڈم کی مخالفت میں اپنی تحریری رائے شوریٰ کے اجلاس کو بھیج دی تھی۔
آئی جے آئی کی تشکیل کس طرح ہوئی اس کا ذکر بہت ہوچکا ہے مگر پروفیسر صاحب نے ایک اور انکشاف ملک کے نہایت معتبر اور ذمہ دار صحافی جناب ادریس بختیار سے ایک ملاقات میں اس اعتراف کے ساتھ کیا تھا کہ انھیں اس کی خبر بہت بعد میں ہوئی کہ ۱۹۷۷ء میں پی این اے بھی ’’انھی نے‘‘ بنوائی تھی ادریس بختیارصاحب یہ گفتگو لکھ چکے ہیں (یہاں اس کا ذکر غیر مناسب نہیں ہوگا کہ پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب نے ریفرنڈم کی حمایت کرنے کے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے جماعت کی نائب امارت سے جو استعفیٰ دیا تھا، جماعت کے راہنمائوں کے اصرار پر وہ واپس لے لیا گیا تھا۔ وہ اپنے انتقال تک جماعت اسلامی کے نائب امیر رہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کو میاں طفیل محمد صاحب کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کے حوالے سے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں تھا کہ انھوں نے ریفرنڈم کی حمایت کے فیصلے سمیت کئی دیگر مواقع پر بھی میاں صاحب کی رائے سے شدید اختلاف کا اظہار کیا تھا مگر اس کے باوجود میاں صاحب نے ان کے ساتھ اپنی شفقت و محبت میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور نہ ہی انھوںنے مجھ سے میری ذات کے حوالے سے کسی منفی ردِّعمل کا اظہار کیا۔ بلاشبہ یہ دونوں بزرگ بڑے کشادہ دل تھے۔
پروفیسر صاحب نے مجموعی طور پر آٹھ کتابیں مرتب کیں۔ دیگر پانچ کتابوں کے موضوعات یہ ہیں:
(۴)وزیراعظم بے نظیر نامزدگی سے برطرفی تک
(۵)نوازشریف کا پہلا دَورِحکومت
(۶)بے نظیر حکومت کا عروج و زوال
(۷)نوازشریف اقتدار سے عتاب تک
(۸)پرویز مشرف آرمی ہائوس سے ایوانِ صدر تک۔
پروفیسر صاحب کی مرتب کردہ کتابیں اور اس دور میں پیش آنے والے حالات و و اقعات کے بارے میں اخبارات و جرائد میں جو کچھ شائع ہوا، وہ یقینا سیاست اور صحافت کے شعبہ میں کام کرنے والے طلبہ کے لیے راہنمائی اور خبر کا ذریعہ ثابت ہو گا۔
پروفیسر صاحب جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر بنے تو انھوں نے رہائش کے لیے سرکاری گھر لیا اور نہ ہی دیگر مراعات سے استفادہ کیا۔ انھوں نے اسلام آباد میں اپنی وزارت کے ریسٹ ہائوس کے ایک کمرے کی رہائش پر اکتفا کیا۔ میرے علم کے مطابق ان کے ساتھ جماعت اسلامی کے دو وزراء جناب محمود اعظم فاروقی اور چوہدری رحمت الٰہی نے بھی سرکاری مکان لینے کے بجائے ریسٹ ہائوس میں قیام کیا کرتے تھے۔
بلاشبہ پروفیسر عبدالغفور احمد کا شمار ملکی سیاست کے ان راہنمائوں کی صف میں رہے گا جنہوں نے سیاست کو تجارت نہیں عبادت سمجھا۔ پروفیسر صاحب ملکی سیاست کی تاریخ میں ایک زیرک، راست باز، باوقار، بلند قامت اور نیک نام سیاست دان کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ ایک سیلف میڈ انسان کے طور پر ان کی حیثیت ایک اعلیٰ کردار کے حامل راہنما کی بھی ہے۔
پروفیسر صاحب نے اپنی پوری زندگی اقامتِ دین کے لیے صرف کی۔ وہ زندگی بھر اپنے اصول اور نظریات کی خاطر ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثال اپنے عملی کردار سے رقم کرتے رہے وہ اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کے معاملہ میں قرآنِ حکیم کے اس حکم پر عمل پیرا رہے کہ اس سے کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد روزنامہ ’جسارت‘ شدید قسم کے مالی بحران سے دوچار ہوا تو جن حضرات سے جماعت نے مالی بحران پر قابو پانے کے لیے ادھار رقم لی تھی، اس کی واپسی کے لیے پروفیسر صاحب نے ضمانت کے طور پر اپنا مکان رہن رکھوا دیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو متفقہ بنوانے میں جو مثالی کردار ادا کیا۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
۱۹۷۰ء کی پارلیمنٹ میں پروفیسر صاحب کا شمار ان ممتاز ارکانِ اسمبلی میں ہوتا تھا، جن کو اسمبلی میں ہمہ تن گوش ہوکر سنا جاتا تھا۔ ان کی بجٹ تقاریر ہوں یا دیگر قانون سازی کے حوالہ سے بحث، وہ بھرپور تیاری کے ساتھ کرتے تھے۔ یہ تقاریر اگر شائع ہوجائیں تو پارلیمنٹ کے نئے ارکان کے لیے راہنمائی کا کام دیں گی۔
ان کی زندگی کا ایک خاص اور نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ وہ سادہ طرزِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے تھے۔ صفائی اور طہارت اُن کا جزو ایمان تھا۔
پروفیسر صاحب کی شخصیت پر سید ضمیر جعفری کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
عصر حاضر تجھ کو کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے
جو صدی آئی نہیں اُس کی صدا ہم لوگ تھے
پروفیسر عبدالغفور احمد کی رحلت سے پاکستا ن اور پاکستانی معاشرہ ایک ایسے دیانتدار راہنما سے محروم ہو گیا جو اپنی زندگی اصولوں اور نظریات کے ساتھ گزارنے کے متمنی اور خواہش مندوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا تھا۔اللہ اپنے اس نیک بندے کی قبر کو نور سے بھردے کہ جس نے ساری زندگی مملکت پاکستان کی خدمت پورے اخلاص کے ساتھ اس تمنا اور آرزو میں صرف کی کہاللہ اس سے راضی ہوجائے۔
پروفیسر عبدالغفور احمد کا شمار سیاست دانوں کی اس نسل کی آخری شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائی پاکستان کو اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے لیے صرف کی اور ان کا دامن بھی ہر طرح کی حرص و ہوس اور دُنیا کی طمع و لالچ سے پاک رہا۔
پروفیسر عبدالغفور احمد کا بچپن والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کی وجہ سے سخت مشکلات سے عبارت تھا۔ ان کے والد کا بھارت کے مشہور شہر ’’نینی تال‘‘ میں کاروبار تھا جو ان کے انتقال سے اجڑ گیا۔ والدہ اور دو بہنوں کی کفالت کا بوجھ بچپن میں ہی اس یتیم بچے پر آن پڑا تھا جس نے گلیوں میں شربت بیچنے سے لے کر درزی کی دکان پر کام کرنے کی محنت و مشقت جیسے سب ہی کام کرنے میں کوئی عار نہ سمجھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہاللہ کی مہربانی سے میں نے تنگ دستی کو زندگی کا روگ بنانے کے بجائے محنت کی زندگی سے خاندان کو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی اذیت سے بچائے رکھا اور وسائل کی کمی کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کی راہ میں بھی حائل نہیں ہونے دیا۔
پروفیسر عبدالغفور احمد نے تعلیم کے سارے مدارج امتیازی حیثیت سے مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر بریلی میں حاصل کی۔ بی۔ کام آگرہ یونیورسٹی سے اور ایم کام کی ڈگری متحدہ ہندوستان کے مشہور تعلیمی ادارے لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکھنؤ کے امیر الدولہ کالج میں کامرس کے لیکچرار ہوگئے۔ اُن کے قریبی عزیز اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتے ہیں مگر پروفیسر عبدالغفور احمدنے اپنے نام کے ساتھ کبھی نسلی شناخت نہیں لگائی۔
پروفیسر عبدالغفور احمد سیّد مودودیؒ مرحوم و مغفور کی دعوت پر لبیک کہنے والے ان نوجوانوں کی نسل کے آخری لوگوں میں رہ گئے تھے، جنہوں نے زمانہ تعلیم سے لے کر ساری جوانی، بڑھاپا اور تمام وسائل آخری دم تک اس مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر رکھے تھے۔
پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب نے سیّد مودودیؒ کی دعوت پر ۱۸ سال کی عمر میں یعنی ۱۹۴۴ء میں لبیک کہا اور ۱۹۵۰ء میں باقاعدہ جماعت کے رکن بن گئے۔ ان کی عملی سیاسی زندگی کا طویل عرصہ ۶۸ سال پر محیط ہے۔ اس دوران آزمائش و مشکلات کے سخت ادوار بھی آئے مگر ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ وہ ہر آزمائش میں جواں مردی کے ساتھ پورے قد کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
انتخابی سیاست کا آغاز ۱۹۵۸ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کا کونسلر بن کر کیا۔ ۱۹۷۰ء اور۱۹۷۷ء میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۲۰۰۲ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
پروفیسر عبدالغفور احمد کا شمار ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین کرنے والی قومی اسمبلی کی دستوری کمیٹی کے ان نمایاں ارکان میں ہوتا ہے جن کی کاوشوں سے ۱۹۷۳ء کا دستور صدارتی کے بجائے پارلیمانی جمہوری طرز حکومت کا بنا ورنہ سب جانتے ہیں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جن کی حکومت کو ۱۹۷۳ء کا متفقہ دستور بنانے کا اعزاز حاصل ہے، کی آخری وقت تک یہی خواہش رہی کہ دستور میں طرز حکومت پارلیمانی کے بجائے صدارتی ہو۔
پروفیسر عبدالغفور احمد نے جس عہد میں سیّد مودودیؒ مرحوم و مغفور کی دعوت پر لبیک کہا تھا اس عہد کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی کہ جو کسی نہ کسی سیاسی پلیٹ فارم پر اپنے اُصولوں اور نظریات کے مطابق متحرک ہورہی تھی۔
پروفیسر عبدالغفور احمد، سیّد مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہنے والے ان نوجوانوں میں شامل تھے جو تحریک پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں مسلم لیگ کے ہم نوا تھے۔ وہ خود بتاتے تھے کہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالفوں کو قیامِ پاکستان کی حمایت میں قائل کرنے کے لیے بحث و مباحثہ کرتے تھے اور لوگوں کو دو قومی نظریے کا قائل کرنے کے لیے اس کی حمایت میں سیّد مودودیؒ کی تصنیف ’’مسئلہ قومیت“اور”سلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیا کرتے تھے۔
مسلم لیگی حلقوں میں دو قومی نظریہ کی حمایت میں مولانا مودودیؒ کی یہ کتاب بہت مقبول تھی۔ اس کا اعتراف اس وقت کے سارے ہی مسلم لیگی لیڈر کرتے تھے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد زندگی کی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔
ان کا شمار اُن سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے جن کا احترام ان کے سیاسی نظریات سے شدید اختلاف کرنے والوں کے دلوں میں بھی ہمیشہ رہا۔ وہ اس کراچی کی حقیقی شناخت تھے جو کبھی پاکستان بھر میں امن و آشتی اور بھائی چارے کا گہوارہ تھا اور وسائل سے محروم طبقات کے لیے تعلیم حاصل کرنے اور روزگار فراہم کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ جب ہی تو اس شہر کو غریب پرور اور علم پرور کہا جاتا تھا۔
کراچی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے ہمیشہ متوسط طبقہ کی قیادت پیدا کی۔ مثلاً جماعت اسلامی کے جس قدر افراد بھی بلدیات، قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ منتخب ہوئے، اُن کا تعلق متوسط طبقہ سے رہا۔
پروفیسر عبدالغفور احمد جس جماعت سے تعلق رکھتے تھے اس میں ایثار پیشہ، بے لوث اور بے غرض لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ نہ ہی دبنگ اور اپنے مقصد کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے والوں کی کمی رہی ہے۔ ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی میں دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں ایسے کارکنوں اور راہنمائوں کی تعداد بہت زیادہ تھی کہ جو جدید و قدیم علوم میں اپنے ہم عصروں سے زیادہ دسترس رکھتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی، ملک کی پہلی جماعت ہے جس نے دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے باقاعدہ شعبہ خدمت خلق قائم کیا۔ جماعت اسلامی کا شعبہ خدمت خلق آج بھی دُکھی انسانیت کا بڑا سہارا ہے۔
جناب عبدالستار ایدھی نے بھی خدمت خلق کے سفر کا آغاز جماعت اسلامی کے اسی شعبے سے کیا تھا۔ وہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کے فعال کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔
پروفیسر عبدالغفور احمد نے داعی اجل کو لبیک کہا تو اُن کی عمر ۸۵سال تھی۔ انھوں نے ۶۸سال کی سیاسی زندگی گزاری۔ اس طویل سیاسی زندگی میں بھیاللہ تعالیٰ نے ان کا دامن صاف ستھرا رکھا جس نے ان کی زندگی کو قابل رشک بنادیا۔
انھوں نے جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار حکومت میں قیدو بند کی صعوبتیں بھی بڑی ہمت اور جواں مردی کے ساتھ برداشت کیں۔ بلاشبہ وہ شرافت، دیانت، قناعت، رواداری، تحمل و برداشت اور قربانی کا پیکر تھے۔ جب وہ ناظم آباد میں چھ مرلے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے، تب بھی ان کا گھر خلق خدا کی دستگیری کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس چھوٹے سے مکان میں مولانا مودودیؒ (مرحوم و مغفور) نے بھی کئی بار قیام کیا۔ جباللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں وسعت دی تو انھوں نے ساٹھ کے عشرے کے آخر میں فیڈرل بی ایریا میں ایک بڑا مکان تعمیر کرایا۔ اس وقت بھی گھر کے دروازے کھلے رکھے اور کوئی دربان دروازے پر کھڑا نہیں کیا۔ ہمیشہ ٹیلی فون خود اُٹھاتے اور مہمان کے استقبال کے لیے دروازے پر خود آتے تھے۔ جب انھوں نے بڑا مکان فروخت کر اپنی زندگی میں ہی ورثا میں تقسیم کر کے گلشن اقبال میں ایک چھوٹا مکان لیا، تب بھی گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔
زندگی بھر سادہ طرز رہائش اور سادہ غذا کو شعار بنائے رکھا۔ وہ دوستوں اور احباب کی خوشی و غمی کی ہر تقریب میں شریک ہوتے، مگر دعوتوں میں کھانا کم کھایا۔ میزبانوں کا دل رکھنے کے لیے ایک آدھ چمچ میٹھے کا لے لیتے یا پلیٹ میں سلاد کے پتے ڈال لیتے۔
بلاشبہ ان کا شمار ان ایثار اور وفاکیش لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان اور پاکستانی معاشرہ کو دیا بہت کچھ، مگر لیا کچھ نہیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو خلق خدا گواہی دے رہی تھی کہ وہاللہ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جن کواللہ نے نفس مطمئنہ سے سرفراز کیا تھا۔
پروفیسر صاحب نے ۱۹۵۶ء تک اُردو کالج میں پڑھایا۔ صحت کی خرابی کی بناء پر اوکاڑہ کی ستلج کاٹن ملز جوائن کرنے کے لیے رخصت ہونے لگے تو اُردو کالج کے طلبہ نے ان کو روکنے کے لیے کالج کے دروازے پر دھرنا دے دیا۔ یہ دھرنا اس وقت ختم کیا گیا جب ان کے معالج نے آ کر طلبہ کو یقین دلایا کہ ان کی صحت کے لیے کراچی کی مرطوب آب و ہوا سے کچھ عرصہ باہر رہنا اشد ضروری ہے۔ جب انھیں ستلج کاٹن ملز میں مزدوروں کو مراعات دینے کی پاداش میں ملازمت سے علیٰحدہ کردیا گیا تب کراچی آ کر انھوں نے دوبارہ اردو کالج اور دیگر انسٹیٹیوٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔ ان میں:
۱ انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس
۲ انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس
۳ جناح انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، وغیرہ شامل تھے۔
بعد ازاں انھوں نے موٹر کارپوریشن اور رضوی برادرز میں چیف اکائونٹنٹ کی حیثیت سے اعلیٰ مشاہروں پر کام کیا۔ وہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ غریب رشتہ داروں کی کفالت اور ایک حصہ جماعت اسلامی اور دیگر مستحق لوگوں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرتے تھے۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے ایسے انسان تھے جو اختلاف رائے کو کھلے دل کے ساتھ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے ہر مکتبہ فکر کے سیاسی لوگوں میں ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا۔