پاکستان کی سیاست میں اس وقت احتساب کا عمل بالادست ہے۔ اسی تناظر میں احتساب کے ادارے نیب کی مخالفت اور حمایت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ احتساب کی بات بھی بڑی شدت سے ہو رہی ہے ساتھ ہی نیب کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
بنیادی طور پر پاکستان میںاحتساب کا ہمیشہ سے ایک متنازع عمل رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سول اور فوجی حکمرانوں کی جانب سے احتساب سے جڑے اداروں کو حکومتی و سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ہمارے یہاں احتساب کا شور تو بہت مچایا جاتا ہے مگر اوّل تو احتساب ہوتا نہیں ہے، اور اگر کچھ دکھایا بھی جاتا ہے تو حکمران طبقے کی جانب سے اس کا مقصد اپنے مخالفین کو شکنجے میں جکڑ کر اپنے مفادات کی سیاست کومحفوظ کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر یہاں کرپشن کے تناظر میں احتساب کا عمل سیاست کی نذر ہوجاتا ہے۔ نیب جیسے ادارے اگر واقعی انصاف کی بنیاد پر بھی احتساب کریں تو سیاسی لوگ اس احتساب کو سیاسی انتقام کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ اس عمل کو زیادہ سے زیادہ سیاسی اور سماجی حلقوں میں متنازع بناکر اسے خراب کیا جائے۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں احتساب کے عمل کو بہت زیادہ شدت سے اٹھایا جارہا ہے۔ اول، اس کی ایک وجہ چیئرمین نیب ہیں جو بہت شدت سے احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوئم، ملک کے وزیراعظم عمران خان کی سیاست کا بنیادی نکتہ بھی شفاف اور بے لاگ احتساب ہے۔ اُن کے بقول انہیں جو عوامی مینڈیٹ ملا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی احتساب کا عمل ہے۔سوم عدالتی فعالیت، عدلیہ میں جوڈیشل ایکٹوازم بھی غالب نظر آتا ہے۔ یہ جو تکون بنی ہے جس میں نیب، عدلیہ اور سیاسی حکومت شامل ہیں، ان کا مقصد احتساب کو یقینی بنانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں احتساب کا شور بھی بہت ہے اور اس کی حمایت اور مخالفت بھی بہت ہورہی ہے۔
جب بھی کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف احتساب کی بات کی جاتی ہے تو تین باتیں مخالفین کی طرف سے زیادہ سننے کو ملتی ہیں۔ اول: سیاسی مخالفین کے بقول ایک خفیہ سازش کے تحت احتساب کا عمل سیاسی مخالفین کو کچلنے، دبانے اور ان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کے لیے ہورہا ہے۔ دوئم: نیب، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کا باہمی گٹھ جوڑ ہے جو احتساب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اپنی مفاداتی سیاست کو تقویت دے رہے ہیں۔ سوئم: احتساب صرف مخالفین کا کیوں کیا جاتا ہے؟ خود حکمران طبقات کو اس احتسابی عمل سے کیوں باہر رکھا جاتا ہے؟ اس طرح یہ عمل کیسے منصفانہ اور شفاف ہوسکتا ہے؟ اگر تینوں باتوں کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں عملی طور پر احتساب سمیت ایف آئی اے اور عدالتوں کا دروازہ بند کرکے گھر بیٹھ جانا چاہیے اور قانونی فیصلے بھی سیاسی میدان میں ہی کرنے چاہئیں۔ کیا دنیا کے دیگر ممالک میں احتساب عدالتیں نہیں کرتیں؟ کیا وہاں پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں سمیت دیگر فریقین کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرلیں قانون ان کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرے گا؟کیا اس سوچ کے ساتھ ملک کا سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی نظام چلایا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ملے گا۔
ان ہی تین نکات کو بنیاد بناکر اس وقت احتساب سے ڈر اور خوف میں مبتلا طاقت ور طبقات نیب اور عدلیہ کے خلاف یکسو نظر آتے ہیں۔ بنیادی بیانیہ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ احتساب کا مجموعی عمل متنازع ہے اور اس کے پیچھے احتساب نہیں بلکہ سیاسی مخالفت ہے۔ سیاست دان اور طاقت ور طبقات اس بیانیہ کو طاقت فراہم کرنے کے لیے میڈیا اور پارلیمنٹ کو اپنے حق میں استعمال کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف نے پارلیمنٹ کے فورم پر نیب کے خلاف ایک گھنٹے کی تقریر کرکے احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس وقت بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں جو سیاسی مفاہمت اور باہمی ہم آہنگی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے اس کی بھی بنیادی وجہ احتساب کے عمل سے بچنا اور اس سے جڑے مسائل کو سیاسی تناظر میں پیش کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی وہ افراد جن کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہے اگر وہ کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث نہیں تو ان کو ڈر اور خوف کس بات کا ہے! اور کیوں احتساب کو اپنے حق میں سیاسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے!
یہی طبقہ جو کسی نہ کسی شکل میں احتسابی عمل کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ایک منظم سیاسی حکمت عملی کے تحت نیب سمیت دیگر اداروں کے خلاف متحد نظر آتا ہے۔ اگر نیب سے جڑے لوگ اپنے دفاع میں سامنے آتے ہیں اور اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں تو یہی سیاسی فریقین اور ان کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ نیب کے افسران اپنے ادارہ جاتی اور قانونی دائرۂ کار سے تجاوز کرتے ہیں۔ جب سیاسی لوگ نیب پر سوالات اٹھائیں گے تو اس کا جواب یقینی طور پر اداروں کی جانب سے آئے گا تاکہ دوسری طرف کا نکتہ نظر بھی عوام میں پیش کیا جائے۔ پچھلے دنوں نیب کے ڈی جی لاہور شہزاد سلیم نے مختلف میڈیا پروگراموں میں نیب کا نکتہ نظر پیش کیا تو اس پر بہت زیادہ شور مچایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں خوف کا عنصر بھی کسی پر غالب ہے۔
اصولی طور پر تو چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ میڈیا اور نیب کے درمیان رسمی بات چیت کے عمل کا کوئی فریم ورک دیں، اورکم ازکم ہر تین ماہ بعد مختلف شہروں یا صوبوں کے ڈی جی خود نیب سے جڑے معاملات پر اپنا مؤقف بھی پیش کریں تاکہ میڈیا سے جڑے لوگ دونوں طرف کے مؤقف کو سب کے سامنے پیش کرسکیں۔ چیئرمین نیب کو سمجھنا ہوگا کہ محض ترجمان نیب سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ معاملات کی اہمیت کے پیش نظر ڈی جی نیب خود میڈیا کے سامنے تفصیلی بریفنگ کا اہتمام کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال اور ڈی جی نیب شہزاد سلیم نے پچھلے کچھ عرصے میں نیب کو فعالیت دی ہے، اس سے اس ادارے کی ساکھ بھی بہتر ہوئی ہے اور لوگوں کو امید ہے کہ یہ ادارہ منصفانہ اور شفاف احتساب کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت حزبِ اختلاف کے لوگ اس بات پرپچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی گزشتہ دس برسوں کی اقتدار سے جڑی سیاست میں نیب جیسے ادارے کو ختم نہیں کیا۔ حالانکہ ان دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میںعہد کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد نیب کو ختم کرکے احتساب کا نیا ادارہ بنائیں گے۔
نیب کی سیاسی اور قانونی ساکھ کے حوالے سے کچھ مسائل بھی غالب نظر آتے ہیں۔ ایک وجہ لمبی تفتیش کے مسائل ہیں اورکئی کئی برس کے بعد بھی احتساب ممکن نظر نہیں آتا۔ نیب کے بقول وائٹ کالر کرائم کو پکڑنے میں برسہا برس لگتے ہیں اور یہ جلدی ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر لوگوں کے سامنے محض تفتیش ہی چلتی رہے تو اس سے احتساب کے عمل میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ اسے مشکوک بناتی ہے۔ یہ تاثر بھی ختم ہونا چاہیے کہ احتساب صرف حکومتی مخالفین کا ہورہا ہے۔ حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف بھی نیب میں انکوائریاں ہورہی ہیں، مگر اس میں وہ فعالیت نظر آنی چاہیے جو حکومتی مخالفین کے مقدمات میں نظر آتی ہے۔ نیب کے پلی بارگین کے قانون پر بھی بہت تنقید ہوتی ہے، مگر نیب کے بقول ہم نے گزشتہ 18برسوں میں تقریباً 297 ارب روپے کی ریکوری کی ہے، جبکہ ہمارے مقابلے میں دیگر ادارے 25 کروڑ سے زیادہ اکٹھے نہیں کرسکے۔
نیب جیسے اداروں کی فعالیت اور خودمختاری اہم ایجنڈا ہے۔ کیونکہ ایسے ماحول میں جہاں سیاست بہت زیادہ بالادست ہو، اور وہ براہِ راست اداروں کی شفافیت پر اثرانداز ہوتی ہو، وہاں اداروں کی خودمختاری اور شفافیت بڑا چیلنج ہے۔