بلوچستان کے حوالے سے ہم آڈیٹر جنرل پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2017-18ء میں سے چند پہلو پیش کرتے ہیں، جس میں بے ضابطگیوں، عدم شفافیت اور بدعنوانیوں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کے 19 محکموں میں 17ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔آڈٹ رپورٹ میں صحت، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، زراعت، امورِ حیوانات اور کھیل کے محکموں میں خوردبرد، چوری اور جعل سازی کے ذریعے قومی خزانے کو ساڑھے چار کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2017-18ء کے مطابق ڈی جی آڈٹ بلوچستان نے صوبے کے مالی سال 17-2016ء کے بجٹ کی 144 ارب روپے کی رقم کا آڈٹ کیا، نیز جنوری سے جون 2017ء تک کے اخراجات کا بھی جائزہ لیا گیا، اور مجموعی طور پر 6 ارب 47 کروڑ میں سے 2 ارب 95 کروڑ روپے کی سرکاری وصولیوں کا بھی آڈٹ کیا گیا۔ آڈٹ کے دوران مجموعی طور پر صوبے کے 19 محکموں اور اداروں میں 17 ارب 43 کروڑ 39 لاکھ روپے کے ایسے اخراجات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بے ضابطہ طریقے سے کیے گئے۔ رپورٹ میں ان اخراجات پر تحفظات اور اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ گزشتہ آڈٹ رپورٹ میں بھی تقریباً اتنی ہی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ نئی رپورٹ کے مطابق 17 ارب میں سے 3 ارب 90کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں تعمیراتی و ترقیاتی کام یعنی سول ورکس، جبکہ ایک ارب روپے کی بے ضابطگیاں سرکاری وصولیوں سے متعلق ہیں۔ آڈٹ کے دوران ڈیڑھ ارب روپے کی وصولی ہوئی، جن میں سے 65کروڑ روپے سے زائد کی وصولیاںایسی تھیں جن کا آڈٹ سے قبل متعلقہ حکام کو علم نہیں تھا۔ دورانِ آڈٹ 3 ارب40کروڑ روپے کی مزید وصولیوں کی نشاندہی بھی ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر آڈٹ کیا جائے تو بے ضابطگیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ ایگزیکٹو اتھارٹیز کو آڈٹ میں اٹھائے گئے نکات سے سیکھنا چاہیے۔ رپورٹ میں کمزور مالی ضابطوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ محکموں اور ان کے ماتحت دفاتر کے آڈٹ کے دوران بیشتر اداروں اور محکموں میں مؤثر انتظامی کنٹرول نہیں دیکھا گیا۔ داخلی انتظامی کنٹرول کے مؤثر نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال باقاعدگی سے کرائے گئے آڈٹ میں ایک ہی طرح کی بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں اثاثوں کے ناقص انتظامات (ان ساؤنٹ ایسسٹ مینجمنٹ)کی مد میں ایک ارب 5 کروڑ 43 لاکھ روپے،کمزور مالیاتی انتظامات (ویک فنانشل مینجمنٹ)کی مد میں 9 ارب 89 کروڑ 81 لاکھ، مالیاتی انتظامات سے جڑے کمزور داخلی ضابطوں (ویک انٹرنل کنٹرولز ریلیٹنگ ٹو فنانشل مینجمنٹ) کی مد میں 6 ارب 43 کروڑ 46 لاکھ روپے کے معاملات پر آڈٹ آبزرویشن کا اظہار کیاگیا ہے۔ آڈیٹرز کی جانب سے نشاندہی کی گئی مالی بے ضابطگیوں کی تفصیلات میں مزید بتایا گیا ہے کہ مالی اصولوں اور دیانت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 9 ارب 89 کروڑ 81 لاکھ روپے کے کیسز ریکوری، اضافی ادائیگیوں اور قومی خزانے کے بے جا استعمال سے متعلق ہیں۔ صحت، ایس اینڈ جی اے ڈی، زراعت، لائیواسٹاک اورکھیل کے محکموں میں 6 مختلف مدات میں سرکاری وسائل کے غلط استعمال، چوری، خوردبرد اور جعل سازی کرتے ہوئے قومی خزانے کو ساڑھے چار کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ تحقیقات کرکے مشکوک ادائیگیوں کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا تعین کیا جائے۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بورڈ آف ریونیو پانچ ارب سے زائد کے اخراجات کا ریکارڈ دینے میں ناکام رہا۔ اس میں ڈی سی گوادر کی جانب سے فری ٹریڈ زون کے لیے 4 ارب 93 کروڑ روپے سے حاصل کی گئی زمین کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ محکمہ صحت، محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی، محکمہ تعلیم اور سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی نے بھی مجموعی طور پر پچاس کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کا ریکارڈ پیش نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کو آئین کی شق 170 ٹو اور آڈیٹر جنرل آرڈیننس 2001 کے تحت وفاقی و صوبائی حکومت یا ان کے ماتحت کسی بھی ادارے کے کھاتوں کی جانچ پڑتال کا اختیار حاصل ہے اور تمام متعلقہ دستاویز مہیا کرنے کی ذمہ داری متعلقہ محکمے اور آفیسر کی ہے، لیکن آئینی و قانونی تقاضے کے باوجود ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی عدم فراہمی سنگین بے ضابطگی ہے جو آڈٹ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ آڈٹ میں تجویز کیاگیا ہے کہ انسپکشن کے لیے ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے۔ متعلقہ محکموں کے سربراہان کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ 12 ایسے معاملات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں 6 کروڑ 26 لاکھ روپے کی ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مختلف محکموں نے 16معاملات میں ایک ارب، ایک کروڑ 9 لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات بجٹ میں منظوری کے بغیر کیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر آڈٹ کیا جائے تو بے ضابطگیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران یعنی محکموں کے سربراہان کو بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ورکس ڈپارٹمنٹ مقرر کردہ نرخوں اور متعین کردہ ضابطوں کی پاسداری کریں۔ سول ورکس، ورکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے کرانے چاہئیں۔ ترقیاتی منصوبوں میں اوورلاپنگ سے گریز کیا جائے۔ ریونیو جمع کرنے والے محکموں کے سربراہان ٹیکس اور ڈیوٹیوں کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ مکمل اخراجات کے ریکارڈ کے بغیر سرکاری خزانے سے رقوم جاری کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) ترقیاتی منصوبوں تک محدود ہونا چاہیے۔