زرداری صاحب ’’مفاہمت‘‘ چھوڑ کر ’’مزاحمت‘‘ پر مجبور کیوں ؟

سندھی تحریر: منظور میرانی
’’زرداری صاحب سندھ میں عوامی جلسے جلوسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ پہلے حیدرآباد، پھر ٹنڈوالہیار… ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما سندھ کے لوگوں کو موبلائز کرنے میں مصروف ہیں یا پھر سندھ میں بیٹھ کر اسلام آباد والوں کو کوئی پیغام دین چاہتے ہیں؟… تو یہ بات انہوں نے اپنے حیدرآباد والے اجتماع میں ہی واضح کردی کہ وہ دراصل اسلام آباد والوں سے مخاطب ہیں۔ اس مرتبہ زرداری صاحب پنڈی والوں سے مخاطب نہیں ہیں، کیونکہ اہلِ پنڈی سے ’’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ والا خطاب انہیں پہلے ہی مہنگا پڑگیا تھا، تاہم سوچنے کی بات ہے کہ ’’مفاہمت‘‘ کے بادشاہ کو ایک بار پھر سے ’’مزاحمت‘‘ کا شوق کیوں چڑھا ہے؟ اور اگر وہ پنڈی والوں کے خلاف مزاحمت نہیں کررہے اور عدلیہ ان کے نشانے پر ہے تو کیا عدلیہ انہیں پنڈی والوں سے کچھ کم مہنگی پڑے گی؟ آثار سے ہویدا ہے کہ عدلیہ یوں بھی زرداری صاحب کو مہنگی پڑنے کی جانب پیش رفت کررہی ہے۔ زرداری صاحب کی یہ سب تقاریر اس پیش رفت کو روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے کی حکمت عملی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف والے حکومت کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کرکٹ اور سیاست میں بڑا فرق ہے۔ زرداری صاحب کی یہ بات بھی سر آنکھوں پر کہ عمران خان کو برسر اقتدار لانے میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا کردار ہے۔ ان کی یہ بات بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انہی حلقوں نے نوازشریف کو بھی مصنوعی طور سے مینڈیٹ دلاکر اقتدار عطا کیا تھا، اور پھر موصوف انہی کے گلے پڑ گئے تھے۔ زرداری صاحب کی یہ بات بھی درست کہ جو تین سال کی نوکری کرنے آتا ہے، اُسے کسی سے پوچھنے کا کوئی بھی حق حاصل نہیں ہے، چھاپے مارنا بھی اس کا کام نہیں ہے اور اس کا کام التواء میں پڑے ہوئے کیسوں کو چلانا ہے۔ یہ سب باتیں اتفاق کرنے جیسی، لیکن بعض دیگر حقائق بھی ہیں، کچھ دیگر امور بھی ہیں، جن کے ذریعے سے زرداری صاحب کی مذکورہ آہ و فغاں کی حقیقت کو سمجھنا ممکن ہے۔
بلاشبہ پیپلز پارٹی کا ماضی وقت کے آمروں کے ساتھ لڑتے ہوئے گزرا ہے، کوئی شک نہیں ہے کہ یہ پارٹی عوام دوست بھی رہی ہے۔ یہ امر بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ جب غریبوں کے حقوق پر ڈاکا پڑتا تھا تب اس پارٹی کو واقعتاً غصہ آیا کرتا تھا… تاہم یہ سب کچھ اس پارٹی کا ماضی ہے۔
اس امر میں بھی کوئی کلام نہیں ہونا چاہیے کہ حال میں اس پارٹی کا حال یہ ہے کہ یہ پارٹی آمروں کے ساتھ مفاہمت کرتی رہی ہے اور یہ اپنا عوام دوستی کا مزاج تبدیل کرکے اُن سارے کاموں کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے سر انجام دیتی رہی ہے جو دراصل عوام دشمنی پر مبنی تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اٹھارہویں ترمیم اس پارٹی کی حکومت کا ایک اچھا کام تھا… لیکن اس اچھائی کے ساتھ سندھ کے لیے جو دوسری برائیاں ہیں، کیا ان سب کو نظرانداز کردیا جائے؟ خاص طور پر سندھ، جو اِن برائیوں کے اثراتِ بد کو شدت کے ساتھ بھگتتا رہا ہے! وہ سندھ تو زرداری صاحب کی موجودہ باتیں سن کر الجھن کا شکار ہے کہ ان کی حالیہ باتوں پر ہنسا جائے یا پھر ان پر ماتم کیا جائے؟ کیوں کہ عوام کے حقوق کی بات آج وہ شخص کررہا ہے، جس کی قیادت میں شاندار ماضی کی حامل پیپلز پارٹی گزشتہ دس سال سے عوام کے حقوق غصب کرتی چلی آرہی ہے، اور یہ کام وہ ’’شاندار‘‘ طور سے کرتی رہی ہے۔
’’اقرباء پروری‘‘ کی پالیسی کے تحت معمول کی نوکریوں میں تو حق دار کی حق تلفی کی جاتی رہی ہے، لیکن ’’پبلک سروس کمیشن‘‘ جہاں تھوڑا بہت میرٹ کا آسرا ہوا کرتا ہے، وہاں پر بھی حکومتِ سندھ نے مداخلت کرکے ’’میرٹ کا جنازہ‘‘ کچھ اس طور سے نکالا ہے کہ غریب کی اولاد نے بھی اپنی امید اور آس کا جنازہ دفن کردیا ہے۔ کیا غریب کا حق مارنا کسی اور شے کا نام ہے جس پر زرداری صاحب کو دکھ ہورہا ہے۔ سب سے بڑھ کر تو کہیں حق اُن آباد گاروں کا مرتا رہا ہے، جن کے گنے سے ارب پتی تو زرداری صاحب اور انور مجید جیسے افراد بن گئے، لیکن آبادگاروں کو ان کی پوری محنت بھی نہیں مل پاتی۔ کیا حق تلفی سے مراد اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے؟ قبل ازیں ملازمتیں مفت میں تقسیم کی جاتی تھیں، اب تو خاکروب کی نوکری بھی پیسوں کے عوض فروخت ہوا کرتی ہے۔ اس سے عیسائی اقلیت کے حق پر جس طرح سے ہاتھ صاف کیے گئے ہیں اسے آخر کیا نام دیا جائے؟ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں تو پارٹی کی جانب سے بہت کی جاتی ہیں، لیکن صفائی کے عملے کی بھرتی کے موقع پر بھی جب ان کی حق تلفی ہوگی تو پھر اس عوامی پارٹی کے ہاں اس کے منشور کا کون سا نکتہ باقی رہ جاتا ہے؟ کہ اب تو ان کے ہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور نہ ہی معاشی نظام سوشلزم ہے۔ تو آخر بلاول کے ان دعووں کا کیا بنے گا جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ شہید بھٹو کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ کیا بھٹو کا مشن یہ تھا کہ لوگوں کو معاشی طور پر اس طرح کی صورت حال سے دوچار کردیا جائے؟ (جو آج انہیں درپیش ہے، مترجم) لوگ آج یا تو خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں یا پھر سرِ بازار بھوک اور افلاس سے عاجز آکر اپنے بچوں کی نیلامی کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ کیا بھٹو کا مشن یہ ہے کہ قحط زدہ علاقوں میں رہنے والے افراد کو ایسے انداز میں لاوارث چھوڑ دیا جائے کہ بھلے سے ان کے بچے خوراک کی قلت اور کمی کے سبب دم توڑتے رہیں؟ کیا بھٹو کا مشن یہ تھا کہ اہلِ سندھ کو گٹروں کا پانی پلایا جائے؟
زرداری صاحب کی اس بات سے متفق ہوا جاسکتا ہے کہ عمران خان والوں کو حکومت چلانی نہیں آرہی ہے۔ لیکن یہ کس طرح سے کہا جائے کہ زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو بھی حکومت چلانا آتی رہی ہے؟ یہ پارٹی اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں سندھ کو اور تو رہنے دیجیے، محض پینے کا صاف پانی بھی مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ صحت کی سہولیات کا عالم یہ ہے کہ غریب افراد کو سر درد کی گولی بھی اسپتال سے باہر میڈیکل اسٹور سے خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ تعلیم کے قبلے کو کس طرح سے درست کیا جائے؟ شاید اس کام میں بھی عمران خان والے ہی رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ اس ملک میں جتنا زیادہ مشکل اور کٹھن کام غریب افراد کے لیے زندگی بسر کرنا ہے اتنا ہی آسان ہمارے سیاست دانوں کے لیے دعوے کرنا ہے۔ انہوں نے مشکل کام عوام کے لیے چھوڑ کر اپنے لیے سہل کام منتخب کرلیے ہیں، کیوں کہ دعوے کرنے میں نہ خرچ ہے اور نہ ہی کوئی بڑی محنت درکار ہوتی ہے۔ وہ اگر غریب کی سی زندگی گزار کر دکھائیں تو مانیں!!!
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا زرداری صاحب اور ان کی پارٹی بار بار حوالہ دیتی ہے، ایک زرداری صاحب کی جیل یاترا کے 11 سال، دوسری 18 ویں ترمیم۔ یہ تو درست ہے مگر اس کی اتنی بھاری قیمت آپ کو اہلِ سندھ سے ہی وصول کرنی ہے؟ وہ ایسی قیمت آخر کس لیے اور کب تک ادا کرتے رہیں گے؟ اس کے لیے بھی کوئی تاریخ مقرر کیجیے۔ اس کا بھی کوئی دن طے کیجیے۔ آپ کی گیارہ سال کی جیل ممکن ہے کہ آپ کے لیے بابرکت ثابت ہوئی ہو، لیکن عوام کے لیے یہ کس قدر مہنگی ثابت ہورہی ہے اس بارے میں ذرا عوام ہی سے معلوم کیجیے، جن کی معاشی حالت اب یہ ہوچکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے سے بھی لاچار ہیں۔ زرداری صاحب! لوگوں نے شہیدوں کے عشق میں ایک پارٹی کو بار بار اقتدار تک تو پہنچایا، لیکن اب اس یک طرفہ عشق کا جادو ٹوٹنے لگا ہے۔ اب گیارہ برس تک جیل کاٹنے کی باتیں شاید لوگوں کو اتنا متاثر نہ کرسکیں۔ کیوں کہ پہلے (ایک سندھی محاورے کے مطابق) کہا کرتے تھے کہ ’’جو پائو بھر آٹا کھاتا ہے، وہ سب سمجھتا ہے‘‘۔ لیکن اب تو شاید جو پائو بھر آٹا نہیں کھاتا وہ بھی سب سمجھتا اور جانتا ہے کہ 11 برس جیل اور 18 ویں ترمیم کے قصے ایک مرتبہ پھر سے کیوں دہرائے جارہے ہیں؟
وہ لوگ جو بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے لیے کوڑے کھانے، جیل کاٹنے اور سولی پر چڑھنے کے لیے تیار رہتے تھے، اس کیڈر کی تو آپ نے حوصلہ شکنی کرکے انہیں کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ پارٹی کا جو تعارف شہید بھٹو نے پیش کیا تھا، اس تعارف کو جس طرح سے موجودہ قیادت نے تبدیل کر ڈالا ہے، اس پر انہیں ’’نوبیل انعام‘‘ ملنا چاہیے۔ لیکن شاید ’’کرپشن‘‘ نوبیل انعام کی کٹیگری میں شامل نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ اس ایوارڈ سے محروم ہیں۔ اس وقت اسلام آباد سے مخاطب ہونے کے لیے زرداری صاحب نے جس طرح سے سندھ کا انتخاب کیا ہے، ممکن ہے کہ اس کا مقصد ازسرنو ’’سندھ کارڈ‘‘ کو ایکٹیویٹ کرنا ہو، لیکن شاید زرداری صاحب کو بھی اس امر کا احساس ہے کہ ایسا کرنا شاید مشکل ہو، لہٰذا موصوف نے اسی بنا پر بلوچستان کی محرومیوں کو بھی اپنی تقاریر کا حصہ بنایا ہے۔ چھوٹے صوبوں کی محرومیاں ویسے بھی ہمارے ملک میں حساس معاملہ رہا ہے، اس لیے سندھ آنے سے پیشتر زرداری صاحب نے اختر مینگل سے بھی ملاقات کی اور پھر یہاں آکر بلوچستان کی بات بھی کی۔ واقعی یہ امر واقع ہے کہ زرداری صاحب کو کرکٹ کھیلنا نہیں آتی اور سیاست کرنا آتی ہے، لیکن یہ سوال لوگوں کے اذہان میں پھر بھی ابھرتا ہے کہ 11 سال جیل، 18 ویں ترمیم، غریبوں کی حق تلفی اور بلوچستان کی محرومیاں زرداری صاحب کو بالآخر اسی وقت کیوں یاد آئی ہیں، جب نقلی بینک اکائونٹس والا کیس اپنے جوبن پر ہے؟‘‘