جویریہ اللہ دتہ
دنیا میں بہت سے شوق نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں، اور بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن جاتے ہیں۔ نشہ چاہے کسی بھی چیز کا ہو، فطرت کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں منشیات کا استعمال فیشن بنتا جارہا ہے۔ پاکستان میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اور ہر سال پچاس ارب روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جارہی ہے۔ ملک کی 22 فیصد دیہی آبادی اور 38 فیصد شہری آبادی منشیات کا شکار ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ منشیات سے سب سے زیادہ 13 سے 25 سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں۔ اور لرزا دینے والی بات یہ ہے کہ ان میں 50 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات کے 2014ء کے سروے کے مطابق پاکستان میں 80 لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ جو لوگ گٹکا، نسوار، پان، چھالیہ، سگریٹ اور ایسی ہی دیگر نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں ان کی تعداد ابھی الگ ہے۔ منشیات کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ پان، نسوار، گٹکا، چھالیہ سگریٹ جیسی نشہ آور اشیاء کو نشہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، جب کہ انہی سے دیگر نشہ آور اشیاء کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔
منشیات کی عادت ایک موذی مرض ہے جو نہ صرف انسان بلکہ اس کے گھر، معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کردیتا ہے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی منازل تک لے جانے کے لیے نوجوان ہی اس ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے منشیات کا استعمال اب ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے۔ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہوتے تھے، جہاں سے ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھتا تھا، وہاں اب دشمن نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور انہی نوجوانوں کی زندگی میں زہر انڈیلنا شروع کردیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جس تیزی کے ساتھ نشہ آور اشیاء کی طرف مائل ہورہے ہیں یہ صورت حال حیرت انگیز اور خوف زدہ کردینے والی ہے۔ اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات مرتب رہے ہیں، وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔ منشیات کے خلاف کام کرنے والی این جی او کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ 18 ماہ کے سروے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کرنے والے طلبہ و طالبات کی شرح 43 سے 53 فیصد ہے، جن میں بالعموم سرکاری اور بالخصوص نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات شامل ہیں۔
ماضی میں صرف امیر گھرانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نشہ کرنے کو برا نہیں سمجھتے تھے، لیکن اب یہ لت متوسط اور نچلے طبقے میں بھی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔
موجودہ حالات میں جب معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے، ایک بہت بڑا طبقہ بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہے، اور مایوسی اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہے، اور یہ کرب بعض اوقات اسے اپنے غم غلط کرنے کے لیے شراب و نشہ کے مہلک راستے پر لے جاتا ہے۔
نشہ ایڈونچر یا فیشن؟
عموماً نوجوانوں میں نشے کا آغاز ایڈونچر، کچھ مختلف کرنے اور دوستوں کے دبائو اور ذہنی الجھنوں سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں 70 فیصد ذہنی پریشانی یا اقتصادی بحران سے نجات پانے کے لیے نہیں بلکہ محض شوقیہ نشہ کرتے ہیں، اور پھر اس دلدل سے نہیں نکل پاتے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 2013ء اور 2014ء کے درمیان شوقیہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں سو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات اور بحالی مرکز کے سربراہ پروفیسر اقبال آفریدی کے مطابق امیر گھرانوں کے بالخصوص بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں عام طور پر 13 سے 25 سال ہوتی ہیں، نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منشیات کے استعمال کی بنیادی وجوہات میں سرفہرست ذہنی دبائو ہے، اور تین طرح کے نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں: ایک بائیولوجیکل شخصیت کے حامل جنہیں وراثت میں یہ بیماری ملتی ہے، دوسرے وہ جو فرسٹریشن یا ڈپریشن کا شکار ہوں، تیسرے وہ جنہیں معاشی مسائل کا سامنا ہو یا بے روزگاری جیسے مسائل کا شکار افراد۔ عموماً غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹی عمر کے بچے بری صحبت کی وجہ سے اس بیماری میںمبتلا ہو جاتے ہیں۔
منشیات میں سگریٹ، چھالیہ، نسوار، پان، چرس اور شیشہ وغیرہ کی مقبولیت کے بعد اب ”آئس“ نامی مہنگے نشے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے دو سال قبل شیشہ کی وبا آئی تھی، لیکن اب آئس کی وبا ہماری نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔
پروفیسر اقبال آفریدی کے بقول نوجوانوں میں پہلے چرس، ہیروئن، شراب اور شیشہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی لیکن اب آئس، میتھافٹامائن، ڈیکسٹرو متھارفن اور کوکین کا نشہ کرنے والوں میں نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جنہیں علاج کے لیے لایا جاتا ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے یہ نشہ کہاں سے آتا ہے کیونکہ کوکین پہلے پاکستان میں میسر نہیں تھی، یہ شمالی امریکہ اور میکسیکو سے منگوائی جاتی تھی اور یہی مہنگا نشہ تعلیمی اداروں کے نوجوان استعمال کررہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سگریٹ روٹی سے بھی سستی ہے۔ یہ نہ صرف صحتِ عامہ بلکہ معیشت کو بھی متاثر کررہی ہے۔
آئس کیا ہے؟
آئس نوجوانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ ہے۔ یہ بہت ہی طاقتور اور اثرپذیر ہے، جس کی ایک خوراک ہی انسان کو اس کا عادی بنادیتی ہے۔ شفاف چینی کے دانوں کی شکل میں ملنے والے اس نشے کو گلاس یا کرسٹل میتہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایکسپائر ہوجانے والی پیراسٹامول، پیناڈول، وکس، اور نزلہ و زکام کی دیگر ادویہ سے ایفیڈرین اور ڈیکسٹرو میتھارفن نکال کر تیار کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس کراچی میں رینجرز اور پولیس ایسی کئی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکی ہیں جہاں یہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے فروغ کی ایک بڑی وجہ اس کا بغیر بدبو کے ہونا ہے۔ اس کو سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نشے میں جگانے یعنی بیدار رکھنے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے طلبہ اس کی جانب راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ امتحان کی ڈٹ کر تیاری کرسکیں، مگر انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اس طرح وہ کس عذاب میں مبتلا ہونے جارہے ہیں۔
تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق آئس کے اثرات بہت تباہ کن ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس سے انسان کا حافظہ کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ناک، کان اور حلق کی بیماریوں کے ماہر اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں تمباکو نوشی اور پان گٹکے کا استعمال بڑھتا جارہا ہے، ایک اندازے کے مطابق اسکول کالج اورجامعات کی 12 سے14فیصدلڑکیاں جب کہ 35 فیصد سے زیادہ لڑکے تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ حلق کی خرابی، جگر کی خرابی، امراضِ قلب، اسقاطِ حمل، قلت ِعمر، معدہ کے زخم، فاسد خون، تنفس کی خرابی، کھانسی، سردرد، بے خوابی، دیوانگی، ضعفِ اعصاب، فالج، ٹی بی، بواسیر، دائمی قبض، گردوں کی خرابی وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ لہٰذا مختلف نشہ اور اشیاء کے استعمال پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ فلموں اور ڈراموں میں شراب، چرس اور دیگر نشہ آور اشیاء کا سرعام استعمال بھی ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ لباس، حلیہ وغیرہ تمام چیزوں میں انہی فلمی اداکاروں کی نقل کرتا ہے۔ شراب و منشیات کے فروغ میں فلموں اور ڈراموں کا کردار بہت نمایاں ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں نشہ خوری کے مناظر تمام فلموں، ڈراموں میں دکھائے جارہے ہیں۔ یہ چیز نوجوانوں میں منشیات کی لت پیدا کرنے کا ایک بنیادی سبب ہے۔
منشیات کی لت انسان سے ہر کام کرا لیتی ہے چاہے وہ قتل ہی کیوں نہ ہو۔ جرائم کے واقعات کو دیکھا جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم نشے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کیونکہ نشہ کے لیے پیسہ درکار ہے۔ بیشتر ٹریفک حادثات بھی اسی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔ نصف صدی پہلے ایک جرمن ڈاکٹر نے یہ بات کہی تھی کہ ”تم شراب کی آدھی دکانیں بند کردو تو میں تمہیں آدھے ہسپتال، جرائم کے اڈے اور جیلوں کے بند ہوجانے کی ضمانت دیتا ہوں۔“
منشیات کا استعمال کرنے والے نوجوانوں میں زیادہ تر کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے ہے اور یہی نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں، ان کو منصوبہ بندی کے تحت اس نشے کی لت لگائی جارہی ہے۔ منشیات کی فروخت کے گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد چند پیسوں کے لالچ میں ملک کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ کئی تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والے گروہوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کا کہنا ہے کہ کراچی میں بھی آئس کا نشہ بیچا جارہا ہے، جس کے خلاف چند ہفتے قبل کارروائی کی گئی اور مختلف علاقوں ضلع جنوبی، شرقی، اور ملیر سے 250سے زیادہ لوگ پکڑے گئے ہیں جو تعلیمی اداروں میں نشہ فروخت کرتے تھے، یہ عناصر تعلیمی اداروں میں اور تعلیمی اداروں کے باہر نوجوانوں کو ٹارگٹ کرکے انہیں نشے کی لت میں مبتلا کررہے ہیں۔
یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جس کو مستقبل کا معمار بننا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا ہے وہ خود کچرا کنڈی اور سڑکوں پر آرہی ہیں۔ کھیل کے میدان یا کچرا کنڈی نشہ خوروں کے لیے رہ گئے ہیں یا ان پر قبضہ مافیا کا راج ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ ان کو بنیادی سہولیات اور مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرسکیں۔ بے کاری، کسی مثبت، صحت مند، اور مفید مشغولیت کا نہ ہونا بگاڑ کی راہ پر لے جانے کا بہت طاقتور ذریعہ ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے منشیات کی لعنت ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے، اینٹی نارکوٹکس کو مزید فعال بنائے اور اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان کے مشاغل کیسے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشی اصلاح کا علم اٹھانے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، اساتذہ، والدین، سماجی و رفاہی و ملی تنظیموں، جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹر اور طبی امور سے وابستہ افراد کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے اپنے دائرے میں مکمل کوشش کریں، میڈیا کے وسائل کو نشہ مخالف ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جائے، نشہ کی فروخت پر پابندی لگائی جائے، اور اس کا کاروبار کرنے والے ضمیر فروشوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
غرضیکہ بنیادی ضرورت ہے کہ ایک ہمہ گیر تحریک کے انداز میں اس پر کام کیا جائے، معاشرے کے تمام طبقات تک یہ پیغام پہنچایا جائے، نشہ کے نقصانات سے ہر سطح پر لوگوں کو باخبر کیا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پروگرام، سیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔ اور ان تمام اسباب و عوامل پر بند لگانے کی کوشش کی جائے جو منشیات کے فروغ میں معاون ہوسکتے ہوں۔ اگر ایک طرف شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء سے منع کیا جائے گا اور دوسری طرف ان کی فروخت بھی ہوتی رہے گی تو اس تضاد کا نتیجہ معاشرے کے بگاڑ کی بھیانک شکل کے سوا اور کچھ نہیں۔ جب تک ہر سطح اور ہر جگہ سے اس پر بند نہیں باندھا جائے گا، تب تک اس لعنت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔
اسکولوں میں منشیات کا استعمال؛ چاروں صوبوں کو رپورٹس پیش کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے تعلیمی اداروں میں طلبہ میں منشیات کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چاروں صوبوں کو اس کے سدباب کی رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اسکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے چاروں صوبوں کو اپنی رپورٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منشیات کے استعمال کے باعث تین اموات سامنے آچکی ہیں، بہت سے بچے منشیات استعمال کر رہے ہیں، ان کو منشیات کہاں سے مل رہی ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ منشیات کے خلاف بچوں اور والدین کی آگاہی کے لیے مہم چلائی جائے، منشیات پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت کو ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا تھا، اس کی کیا رپورٹ ہے، سی سی پی او سے بھی رپورٹ طلب کی تھی اس کا بھی بتایا جائے۔یاد رہے کہ رواں سال 16 ستمبر کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا نوٹس لیا تھا۔