زندگی کے چند خوشگوار لمحات جو مچھ جیل کی نذر ہوگئے!۔
گزشتہ سے پیوستہ
اگلی قسط لکھتے وقت یہ خیال آیا کہ اس پس منظر کو پہلے لکھ دوں کہ زنداں کا قیدی کیوں بنا؟ 1972ء میں بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوگئی، اسی طرح صوبہ سرحد میں بھی مخلوط حکومت بن گئی۔ بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل اور صوبہ سرحد میں مفتی محمود وزیراعلیٰ بن گئے۔ دونوں صوبوں میں گورنر نیپ کے تھے۔ بلوچستان میں غوث بخش بزنجو اور صوبہ سرحد میں ارباب سکندر خان کو یہ منصب دیا گیا۔ ابتدا ہی سے اس میں بددیانتی کا عنصر شامل تھا، اس لیے بلوچستان میں وقفے وقفے سے حکومت کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی تھیں۔ جب بھٹو نے حکومت نیپ کو دی تو اس سے کچھ عرصہ قبل نواب بگٹی اور نیپ میں کشمکش شروع ہوگئی تھی اور 1970ء کے انتخابات کے مرحلے تک عبدالصمد خان اور نیپ میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ 1956ء سے جو تعلق خان عبدالصمد خان کا بلوچ قیادت سے تھا اس میں 1969ء میں ون یونٹ ختم ہونے کے بعد دراڑ پڑگئی۔ اور عبدالصمد خان نے پشتون خوا پارٹی تشکیل دے دی، اس پارٹی نے قومی اور صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے جو بُری طرح شکست سے دوچار ہوگئے۔ صرف عبدالصمد خان نے چمن پر اپنی نشست جیتی۔ نواب بگٹی اور صمد خان بھٹو کے قریب چلے گئے۔ بھٹو نے دورۂ روس میں نواب بگٹی کو اپنے ہمراہ لے لیا۔ بھٹو کا یہ عمل نیپ اور بگٹی میں سیاسی دراڑ پیدا کرنے کا سبب بن گیا۔ یہ کھیل بھٹو نے بڑی مہارت سے کھیلا۔ روس کے دورے سے واپسی پر نواب بگٹی لندن میں ٹھیر گئے جہاں وہ نبی بخش زہری کے مہمان بن گئے۔ 1972ء کے آخری ہفتوں میں نیپ اور بھٹو کشمکش میں تیزی آگئی۔ نواب کے صاحبزادے نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ حکومت نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا ہے، بجلی اور پانی بھی بند کردیا ہے۔ یہ جنگ کا آخری منظر تھا اور سیاسی کشمکش میں تیزی آگئی تھی۔ نواب بگٹی لندن سے پاکستان آکر لاہور میں قیام پذیر ہوگئے۔ فروری 1973ء میں سیاسی جنگ کا طبل بج گیا۔ نواب بگٹی نے لاہور کے موچی گیٹ میں جلسہ عام کیا۔ اس کا بندوبست پی پی پی نے کیا تھا اور اس کی کوریج بھی موثر تھی۔ نواب نے کھل کر نیپ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ نواب لاہور میں تھے کہ بھٹو نے بلوچستان میں غوث بخش بزنجو کو ہٹادیا اور نواب بگٹی کو گورنر بلوچستان تعینات کردیا۔ یہ فروری کے وسط کی بات ہے۔ اخبارات اور ریڈیو پر اعلان کردیا گیا کہ نواب بگٹی کوئٹہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ شاید 16 فروری کی بات ہے۔ نیپ نے بھٹو کے اس اقدام کو چیلنج کیا اور سردار عطا اللہ مینگل نے اعلان کیا کہ اس اقدام کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ 16 فروری کو کوئٹہ میں سردار عطا اللہ مینگل کی قیادت میں جناح روڈ پر احتجاجی جلسے کا اعلان کیا گیا۔ سردار نے کیفے ڈان کے سامنے چوک پر کھڑے ہوکر خطاب شروع کیا۔ میں یہ احتجاجی خطاب ہوٹل کے سامنے سن رہا تھا۔ سردار عطا اللہ مینگل کی تقریر انتہائی اشتعال انگیز تھی اور وہ سخت جملے استعمال کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں نواب بگٹی اس روڈ سے کیسے گزریں گے! ان کی تقریر جاری تھی۔ ظاہر احمد زئی جو نیپ کے حامی تھے، کیفے ڈان میں بیٹھے ایک بجے کا بلیٹن سن رہے تھے جس میں بھٹو حکومت نے صوبائی حکومت توڑنے کا اعلان کردیا۔ ظاہر احمد زئی نے فوری چٹ لکھی اور سردار مینگل کو تھمادی کہ حکومت ختم ہوگئی ہے۔ سردار مینگل نے چٹ پڑی اور اسٹیج سے اُتر کر چلے گئے، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حکومت ختم کردی گئی ہے۔ لوگوں کو جلد ہی پتا چل گیا تو چوراہے کا احتجاج لمحوں میں ختم ہوگیا اور لوگ گھروں کو چلے گئے۔ اس طرح نواب بگٹی کو روکنے کا اعلان دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اس اعلان نے ایک خوف کی فضا قائم کردی اور نیپ کے لیڈر اور ورکر زیر زمین چلے گئے، کچھ لیڈر سندھ کی جانب کوچ کرگئے اور کچھ نے افغانستان کی راہ لی۔ امیرالملک مینگل اور بی ایس او کے صدر کو نوشکی کے بارڈر پر اُس وقت پکڑلیا گیا جب وہ افغانستان فرار ہورہے تھے۔ نیپ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ورکرز بھی زیر زمین چلے گئے۔ ہمارا معمول تھا کہ عصر کے بعد ہم چند دوست کیفے بلدیہ میں گپ شپ کے لیے جمع ہوتے۔ ہم 16فروری کی صبح ہی کیفے بلدیہ میں آگئے۔ اس محفل میں ضیاء الدین ضیائی مرحوم، عبدالماجد فوز (مرحوم)، عبدالصمد خلجی (مرحوم) اور مرزا رشید بیگ اکٹھے ہوئے اور ملک کی صورت حال پر خوب کھل کر بحث ہوئی۔ ہم دوستوں کا اس پر اتفاق تھا کہ بھٹو نے صوبائی حکومت ختم کرکے بڑی زیادتی کی ہے، اس کے بڑے اثرات مرتب ہوں گے، اس مسئلے پر ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ مرزا رشید بیگ کی رائے تھی کہ یہ بڑی زیادتی ہے، اس کے خلاف کچھ ہونا چاہیے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت کسی تنظیم سے وابستہ نہ تھا اس لیے حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ عملی اقدام پر غور کررہے تھے لیکن راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اپنے دوستوں کو کہا کہ کوئی کمیٹی بناکر لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ اس پر اتفاق نہیں ہورہا تھا۔ میری رائے تھی کہ عوام اس اقدام کے خلاف ہیں اس لیے احتجاج ہونا چاہیے۔ ہمیں عوام کی ہمدردی حاصل رہے گی۔ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے میرے ذہن میں نقشہ تھا۔ علی احمد کرد سے ملاقات کی۔ یہ طلبہ تحریک میں ہمارے ساتھ تھے۔ ان سے اس مسئلے پر بات کی تو انہوں نے ہامی بھر لی۔ امان بازئی کا تعلق پی پی پی سے تھا لیکن اس مرحلے تک وہ پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے اور بھٹو کے خلاف تھے۔ علی احمد کرد سے مل کر طے کیا گیا کہ ہم تینوں کیفے ڈان میں ملیں گے۔ ہم تینوں وقت مقررہ پر کیفے ڈان کی گیلری میں جمع ہوئے اور اتفاق ہوا کہ احتجاج کیا جائے۔ اس سلسلے میں میری رائے یہ تھی کہ میزان چوک پر یہ پروگرام کیا جائے، وہاں لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ علی احمد کرد کی رائے تھی کہ وہاں عام لوگ ہوتے ہیں، کیفے ڈان کے سامنے باشعور اور سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں اور سیاسی ورکر بھی ہوتے ہیں، اس لیے کیفے ڈان کے چوک پر یہ احتجاج کیا جائے۔ اس پر اتفاق ہوگیا اور علی احمد کرد کے ذمہ لگایا گیا کہ وہ بی ایس او کے لوگوں سے ملیں اور کسی کو تقریر کے لیے کہیں۔ اس طرح بی ایس او کی جانب سے عطا اللہ بزنجو کا نام دیا گیا۔ یہ مارچ کی ابتدائی تاریخ تھی۔ جنگ اخبار میں سنگل کالم خبر شائع ہوگئی کہ امان اللہ شادیزئی، علی احمد کرد، امان بازئی کیفے ڈان چوک پر احتجاج کریں گے، اور عوام سے شرکت کی اپیل کی گئی۔ نواب بگٹی گورنر تھے اور صوبے میں گورنر راج تھا، اور ان کی دہشت اور شہر میں خوف و ہراس کی فضا پورے جوبن پر تھی۔ نیپ میدان کھلا چھوڑ چکی تھی اور ہم دیوانے پن کا شکار ہوکر نواب بگٹی کے گورنر راج کو چیلنج کرنے چلے تھے اور بھٹو حکومت کے اقدام کے خلاف صف آرا ہورہے تھے۔ اب کچھ دیر بعد ایف ایس ایف کے مسلح جوان گاڑیوں میں آگئے اور چوک پر گاڑی کھڑی کردی۔ اس دوران نواب زادہ سلیم بگٹی اپنی کار میں باڈی گارڈ کے ہمراہ کیفے ڈان کے چوک سے گزرے جہاں ہم کھڑے تھے اور ہماری طرف گھور کر دیکھا۔ علی احمد سے کہا کہ معاملہ خراب ہوجائے گا، لائوڈ اسپیکر سے اعلان کرو کہ سڑک کو بند کریں، اور کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوگی۔
عوام نے آنا شروع کردیا تھا اور سڑکیں چاروں طرف سے بھر گئیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا ہجوم کیسے جمع ہوگیا! نیپ کے ورکر بھی آگئے اور عام لوگ بھی جمع ہوگئے کہ اس حصے میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ ہمیں بھی بے شمار خدشات لاحق تھے۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ نواب خیربخش خان مری نیپ کے دفتر اسپنسر ہوٹل میں 15 مسلح مری حفاظت کے لیے لائے تھے۔ انتظامات مکمل ہوگئے اور جمعہ کی نماز کے بعد پروگرام تھا۔ علی احمد کرد آگئے اور چوک پر لائوڈ اسپیکر کا انتظام کردیا گیا تھا۔ یہ نیپ کی طرف سے تھا۔ میں جب جناح روڈ کی طرف آیا تو اس وقت وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اس دوران ہماری کوشش تھی کہ جلسے سے پہلے کوئی گرفتاری نہ دے۔ بی ایس او کے چند نوجوان ملے تو اُن سے کہا کہ میں ہوٹل میں چائے پینے جارہا ہوں، جب چوک پر لوگ جمع ہوجائیں تو مجھے اطلاع دے دینا۔ طالب علم وقفے وقفے سے اطلاع پہنچاتے کہ لوگ آرہے ہیں اور بتایا گیا کہ لائوڈ اسپیکر لگادیا گیا ہے اور علی احمد کرد اسٹیج پر موجود ہیں اور اعلانات کررہے ہیں۔ میں چائے پی کر چوک کی طرف چل پڑا اور اسٹیج پر آکر کھڑا ہوگیا۔ امان بازئی بھی آگئے۔ عوام اس پر حیران تھے کہ نواب بگٹی گورنر ہیں اور گورنر راج قائم ہے، یہ چند پاگل کیا کرنے چلے ہیں! نواب خیر بخش کو خدشہ تھا کہ نواب بگٹی کچھ بھی کرسکتے ہیں، اس لیے نوجوان جو احتجاج کررہے تھے، ان کی حفاظت ضروری ہے۔ اس احتجاجی جلسے میں عوام کی حاضری بھرپور تھی۔ یہ ایک طاقتور عوامی احتجاج تھا، ہم دوستوں کی شعلہ بیانی عروج پر تھی۔ جلسے کے بعد ہم تینوں دوست آہستہ آہستہ عصمت سینما پہنچے۔ یہ امان بازئی کے والد کا تھا۔ اس کی چھت پر چائے پی۔ مجھ سے امان بازئی نے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے؟ ان سے کہا کہ گھر جارہا ہوں۔ ان دوستوں کی رائے تھی کہ گھر جانا ٹھیک نہیں، حکومت گرفتار کرلے گی۔ میں ان کا مشورہ نظرانداز کرکے گھر آیا اور کھانا کھانے کے بعد نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ ہمیں علم ہوگیا کہ حکومت نے مقدمہ قائم کرلیا ہے۔ امان بازئی روپوش ہوگئے، عطا اللہ بزنجو ڈیرہ غازی خان جاتے ہوئے پکڑے گئے۔ میرے تینوں دوست مجھ سے پہلے گرفتار ہوگئے۔ مجھے کالج کے زمانے کے دوست نے کہا کہ آپ کے وارنٹ جاری ہوگئے ہیں احتیاط کریں۔ نیپ نے ہمارے اس طاقتور احتجاج کے بعد اعلان کیا کہ لیاقت پارک میں جلسہ ہوگا۔ میں نے سردار عطا اللہ سے ملاقات کی اور کہا کہ میں اس جلسے میں تقریر کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہوں نے معذرت کرلی۔ جلسہ زبردست تھا اور جمود کی فضا تو ہمارے جلسے نے پہلے ہی توڑ دی تھی۔ ایک دن عصر کے بعد رشید بیگ کے ہمراہ بلدیہ ہوٹل کی جانب چلا تو ہوٹل کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا تھا۔ رشید بیگ سے کہا کہ آج پولیس اتنی زیادہ کیوں ہے؟ وہ بھی حیران تھے۔ مغرب کی نماز بلدیہ کی مسجد میں ادا کی اور چائے پینے ہوٹل کے اندر داخل ہوا تو ضیاء الدین ضیائی، عبدالماجد فوز، عبدالصمد خلجی موجود تھے۔ ہم دوست خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ ابھی چائے پی ہی رہے تھے کہ ایس ایچ او عباسی صاحب پولیس کے ہمراہ ہال میں داخل ہوگئے اور مجھ سے کہا ’’شاہ صاحب چلیں‘‘۔ ان سے پوچھا ’’کہاں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’آپ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوچکے ہیں‘‘۔ میں نے کہا کہ وارنٹ دکھائیں تو انہوں نے وارنٹ دکھایا۔ میں دوستوں سے گلے ملا اور پولیس کے ہمراہ چل دیا۔ انہوں نے کینٹ کے تھانے پہنچادیا۔ یوں میری زندگی کا یہ مرحلہ شروع ہوگیا۔ تھانہ دیکھا، اس کے بعد کوئٹہ جیل اور پھر مچھ جیل۔ اب مچھ جیل کی داستان بیان کررہا ہوں۔ اب اگلی قسط میں مچھ جیل کی داستان پھر شروع ہوگی۔
(جاری ہے)