آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں نیلم جہلم اور کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹس کے نتیجے میں عوامی شکایات کا ازالہ نہ ہونے سے پیدا ہونے والا تنازع آزادکشمیر کے گلی کوچوں سے یورپ، امریکہ اور خلیجی ملکوں تک پھیلتا جارہا ہے، جہاں متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی آبادی احتجاج کے مختلف انداز اختیار کرکے تاریخی اہمیت کے حامل دو دریائوں کا پانی روکنے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ ’’دریا بچائو مظفرآباد بچائو‘‘ کے نام سے واٹس ایپ گروپ کے تحت احتجاجی سرگرمیوں کو منظم کیا جارہا ہے۔ سیمینارز، پریس کانفرنسوں، مظاہروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اندرون اور بیرون ملک چل پڑا ہے، اور اس احتجاج میں شدت بھی آرہی ہے اور اس کا سلسلہ وسیع اور دراز بھی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس دوران آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹ کا جائزہ لینے کی غرض سے قائم کمیٹی نے حکومتِ آزادکشمیر اور وفاقی اداروں کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہونے تک کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹ کی لینڈ ایکوزیشن سمیت تمام معاملات روکنے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ تک انتظار کیا جائے گا، اگر اس کے بعد بھی معاملے پر اتفاق نہ ہوا تو پھر حکومت سخت اقدامات اُٹھائے گی۔
روزِاول سے ہی نیلم جہلم ہائیڈل پروجیکٹ کی تکمیل کی خبروں میں جہاں خوشی کا یہ پہلو تھا کہ توانائی کے اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی ملک میں بجلی کا بحران کم کرنے میں مدد ملے گی اور ملک کو تاریکی کے عفریت سے کسی حد تک نجات مل جائے گی، وہیں اس میں مقامی لوگوں کے لیے بے شمار خدشات اور ماحول اور انسانی حیات کے لیے بہت سے خطرات بھی موجود تھے۔ پہلا خدشہ تو یہ تھا کہ آزادکشمیر کا ایک تاریخی، قدیمی اور نیلگوں پانیوں کا حامل دریا جسے کسی دور میں کشن گنگا اور اب نیلم کہا جاتا ہے، 68 کلومیٹر سرنگوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہوکر رہ جائے گا۔ اس کے سب سے زیادہ تباہ کن اثرات آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پر مرتب ہوں گے۔ ماہرینِ ماحولیات خدشات ظاہر کررہے تھے کہ دریائے نیلم ختم ہوجانے سے یہاں ایک اور ’’نالہ لئی‘‘ جنم لے گا، جس سے پورے علاقے کی ماحولیات تباہ ہوجائے گی۔ علاقے کا درجہ حرارت غیر معمولی حد تک بڑھ جائے گا۔ سرنگوں کے باعث پینے کے پانی کے چشمے اسی وقت خشک ہورہے تھے۔ آبادی میں اضافے نے پانی کے بیشتر چشموں کو آلودہ کردیا تھا جس سے علاقے میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہوچکی تھی۔ لوگ شہر سے باہر جا کر پینے کا پانی لارہے تھے۔ اب یہ سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ یہ خدشہ بھی روزِاول سے ہی موجود تھا اور اس کا اظہار اہلِ نظر کی جانب سے کیا جارہا تھا کہ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد سب لوگ اپنا پاندان اُٹھاکر اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں کو چلے جائیں گے، مگر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقے کے عوام پیچھے رہ جائیں گے۔ اُس وقت شاید ان کی آواز صدا بصحرا ہی ہوگی۔ انہی خدشات کے سایوں میں نیلم جہلم پروجیکٹ کی تکمیل ہوئی تھی، اور وقت نے ایک ایک کرکے تمام خدشات کو درست ثابت کیا۔ آج ہر گمان اور خدشہ حقیقت بن کر یہاں کے باسیوں کے سامنے آرہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پن بجلی کے منصوبوںکے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جانی چاہیے تھیں، نہیں کی گئیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آزادکشمیر کا دارالحکومت اور گردونواح کی وادیاں نیلم کے بعد جہلم جیسے تاریخی دریا سے بھی محروم ہورہی ہیں، اور یہ خطہ خوفناک انسانی، ماحولیات اور آبی مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ خوبصورت دریائے نیلم کی جگہ نالہ لئی وجود میں آچکا ہے، اور اب جہلم دریا کی باری ہے۔ ایسے میں خطے کے عوام، خواتین اور بچے تک ’’نیلم جہلم بہنے دو… ہمیں زندہ رہنے دو‘‘ کے نعرے بلند کرکے گلیوں میں احتجاج پر مجبور ہیں۔
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی نے کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹ پر کام روکنے کی سفارش کی ہے۔ حکومت قانون ساز ادارے کی اس رائے کی پابند ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی منصوبوں کو کسی محاذ آرائی کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی میں کالاباغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ کھینچا تانی کی نذر ہوچکا ہے۔ موجودہ حالات میں آزادکشمیر حکومت کو کھلی محاذ آرائی سے گریز کرکے اپنی بات کو دلیل کے ساتھ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جبکہ وفاقی حکومت اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے عوام کے جائز اور اصولی مطالبات پر ہمدردانہ غور کریں۔ ایک انسانی آبادی کی راکھ پر دوسری آبادی کے لیے تاج محل تعمیر کرنا قرین ِانصاف نہیں۔ دونوں آبادیوں کو زندہ رہنا چاہیے اور دونوں کی مشکلات کا حل نکلنا چاہیے۔ صاحب الرائے شخصیات وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس ثاقب نثار سے اس صورت حال کا فوری نوٹس لے کر ان تمام وعدوں پر عمل درآمد کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ واپڈا کی طرف سے کیے گئے وعدے اگر ایفا نہ ہوئے تو یہ پروجیکٹ نفرت کی ایک فیکٹری ہی ثابت ہوگا۔