وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 4 ملکوں کا تین روزہ دورہ مکمل ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ کا بیرونی دورہ افغانستان کی تبدیل شدہ صورتِ حال سے متعلق ہے۔ انہوں نے کابل، تہران، بیجنگ اور ماسکو کی قیادت سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے ساتھ ہی شام سے بھی اپنی فوجوں کو نکال لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس فیصلے نے امریکی حکومت کے اہم ترین ستون پینٹاگون میں بھی تشویش و اضطراب پیدا کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر دفاع جیمز میٹس وقت سے پہلے صدر سے اختلافِ رائے ظاہر کرکے مستعفی ہوگئے ہیں۔ اس استعفے کو شام سے فوجی انخلا پر اختلافِ رائے ظاہر کیا گیا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکی ناکامی نے عالمی منظرنامہ تبدیل کیا ہے۔ اسی بدلتے عالمی منظرنامے نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ عالمی سطح پر روس اور چین کی سیاسی اور اقتصادی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ شام کے محاذ نے بھی امریکی بالادستی کو چیلنج کیا ہے۔ امریکی ہزیمت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ہر مسئلے پر اپنی حکومت کو بھی اور دنیا بھر کو بھی تابعداری کا حکم دے رہے تھے، لیکن انہوں نے اتفاقِ رائے کے باوجود افغانستان اور شام سے اپنی فوجوں کے انخلا کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے صرف امریکہ ہی نہیں، عالمی سطح پر تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ یہ صورت حال وہ ہے جس کا اعلان کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ایک اور سب سے بڑی سپر پاور افغانستان کے پہاڑوں میں شکست کھا گئی ہے۔ اس شکست کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے وار آن ٹیرر کے نام سے جس عالمی جنگ کا اعلان کیا تھا وہ اس جنگ میں شکست کھا گیا ہے، اور یہ جنگ جھوٹ، دھوکے اور فریب پر قائم تھی۔ اس وجہ سے امریکہ جنگی جرائم کا سب سے بڑا مجرم ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی متفقہ تعریف آج تک متعین نہیں کی جاسکی ہے۔ جب عالمی سطح پر دہشت گردی کا بگل امریکہ کی جانب سے بجایا گیا تھا تو اُس وقت بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی واضح تعریف کی جائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مظلوم اقوام جن میں فلسطین اور کشمیر جیسے ممالک شامل ہیں، کی جنگِ آزادی کو بھی دہشت گردی کے ساتھ خلط ملط کردیاگیا۔ امریکہ امارتِ اسلامیہ افغانستان یعنی افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر دنیا کی تمام فوجی طاقتوں کو لے کر افغانستان پر قابض ہوگیا۔ یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن گئی ہے۔ اب بالآخر امریکہ انہی افغان طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ دوحہ قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ ابھی مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں کہ امریکی صدر نے افغانستان سے مزید فوجیں کم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس فیصلے نے روس اور چین کو بھی افغانستان کے مسئلے کا کردار بنادیا ہے۔ اس عمل میں ایران بھی شریک ہے کیونکہ وہ بھی پاکستان کی طرح افغانستان کا پڑوسی ہے۔ روس اور چین کی اہمیت یہ ہے کہ وہ صرف افغانستان کے پڑوسی ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ پڑوسی مسلم ریاستوں پر مشتمل ہیں۔ اس لیے روس وسط ایشیا یعنی روسی ترکستان اور چین سنکیانگ یعنی چینی ترکستان میں پڑنے والے اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے اس بات کی پوری کوشش کی تھی کہ افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ قرار دے کر بھارت کو افغانستان میں کلیدی کردار دے دیا جائے۔ افغان طالبان کی مزاحمت نے اس منصوبے کو بھی ناکام بنادیا ہے۔ سی پیک منصوبے اور عالمی حالات بدلنے کی وجہ سے روس اور چین افغان مسئلے کے کردار بن چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی ہزیمت اور پسپائی نے عالمی منظرنامہ تبدیل کردیا ہے۔
بدلتے عالمی حالات کا ایک سبق یہ ہے کہ نظریاتی اور ایمانی طاقت فیصلہ کن عامل ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر چھوٹے گروہ بڑے گروہ پر، اور کمزور اقوام بڑی طاقتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت اور قوت کا اصل ماخذ خالقِ کائنات کی ذات ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے افغانستان کے پہاڑوں میں کیا ہے۔ صرف ایمانی مزاحمت نے افغانستان کو تین سپر پاور کا قبرستان بنایا ہے، اور یہ شاعری نہیں ہے، امریکہ جیسی سپر پاور دنیا کی کمزور ترین تنظیم کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئی۔ امریکہ مسلسل اس بات پر اصرار کررہا تھا کہ افغان طالبان کابل میں بیٹھے اس کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے سامنے مذاکرات کے نام پر ہتھیار ڈال دیں۔ اسی کے ساتھ پاکستان کا گھیرائو بھی کیا ہوا تھا کہ وہ افغان طالبان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے۔ یہ تک دھمکی دی گئی کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دے دیا جائے گا۔ ساری طاقتیں اس مقصد کے لیے جھونک دی گئیں، لیکن یہ افغان طالبان کی مزاحمت تھی جس نے پاکستان کی قدر و طاقت میں بھی اضافہ کیا۔ اب ان بدلتے حالات میں ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا امتحان بڑھ گیا ہے، اس لیے کہ امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر جاتے ہوئے خانہ جنگی کی آگ میں ایک بار پھر جھونک دینا چاہتا ہے۔ ہماری قیادت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عالم اسلام اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کے بغیر عالمی بساطِ سیاست پر مسلم ممالک کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں۔ عالم اسلام کے اتحاد کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے… قومیت اور وطنیت کے ابلیسی نظریات نہیں۔