قائداعظم محمد علی جناح

پیشکش:ابوسعدی

علیگڑھ کالج کے قیام سے دو ہفتے قبل، 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں قائداعظم محمد علی جناح پیدا ہوئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹھیک ستّر برس بعد مسلمانوں کی سیاسی بحالی اور برصغیر میں مسلم قوم کی نشاۃ ثانیہ سے متعلق سرسید کے مشن کو اس کی کلیت کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کا وسیلہ اور سبب بنے۔ قائداعظم ایک ممتاز تاجر گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد راجکوٹ کے ایک تاجر تھے جو چند برس قبل کراچی آکر آباد ہوگئے تھے۔جناح کا بچپن اور ان کی تعلیم و تربیت ان کے دیگر ہم عمروں سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ تاہم شروع ہی سے وہ اپنی نفاست پسندی، جرأت اور بے باکی، صاف گوئی، عزم و ہمت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر سب میں ممتاز نظر آتے تھے۔ کراچی میں سندھ مدرستہ الاسلام اورکرسچین مشنری سوسائٹی ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اس وقت جبکہ جناح ابھی سولہ سال ہی کے تھے، وہ گراہمس شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت حاصل کرنے لندن روانہ ہوگئے۔ تاہم لندن پہنچ کر انہوں نے یہ تربیت حاصل کرنے کے بجائے وکیل بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا فیصلہ کیا اور اپنے طور پر لنکنزاِن میں داخلہ لے لیا۔ تین برس بعد انہوں نے یہاں سے سند حاصل کی اور اس طرح سب سے کم عمر ہندوستانی بیرسٹر بن گئے۔
1896ء میں ہندوستان واپس آکر انہوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کی۔ لیکن قانونی معرکہ آرائیوں کے لیے جو جوش اور ولولہ ان کی شخصیت میں موجود تھا اس کے لیے کراچی کی ماتحت عدالتوں کا ماحول نہایت محدود تھا۔ یقینا ان دنوں بھی بلند نگاہی اور بلند حوصلگی ان کی شخصیت کا جوہر ِخاص تھے۔ چنانچہ 1897ء میں وہ بمبئی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے اپنا نام ایک وکیل کی حیثیت سے درج کرایا اور اس طرح وہ بین الاقوامی نوعیت کے اس بڑے شہر میں اہم مسلمان بیرسٹر ہوگئے۔ بمبئی میں قیام کے ابتدائی تین سال اگرچہ جناح کے لیے سخت مشکلات کا زمانہ تھا لیکن انہوں نے کیونکہ قانون کے میدان میں کامیاب و کامران ہونے کا تہیہ کررکھا تھا اس لیے اُن کے پائے استقلال میںکوئی لغزش نہیں آئی۔
(پروفیسر شریف المجاہد)

بھیڑ اور سارس

ایک بھیڑیے کے گلے میں اتفاق سے ہڈی اٹک گئی۔ ہر چند کھانسا اور بہتیری ابکائیاں لیں مگر ہڈی نہ نکلی۔ مجبور ہوکر سارس کے پاس گیا اور کہا کہ: ’’یار ہم تم دونوں ایک جنگل میں رہتے ہیں۔ اس وقت حقِِ ہمسایہ ادا کرو۔ میرے حلق میں ہڈی اٹک گئی ہے اور جان پر بنی ہے۔ مہربانی کرکے اپنی لمبی گردن سے ذرا اس کو نکال تو لو، اور یہ کام میں تم سے مفت بھی نہیں چاہتا، جو تم کہو گے سو دوں گا۔‘‘
سارس راضی ہوگیا اور بھیڑیے کے حلق میں اپنی لمبی گردن ڈال کر ہڈی کو کھٹ سے الگ نکال لیا۔
چند روز بعد بھیڑیا، گورخر شکار کرکے لایا اور دریا کے کنارے بیٹھ کر کھانے لگا۔ سارس نے دیکھا اور بڑی خوشامد سے پاس جاکر کہا کہ: ’’آج میں بھوکا ہوں۔ گوشت کا ایک ٹکڑا مجھے بھی دو۔‘‘
بھیڑیے نے تامل کیا۔ سارس نے دبی زبان سے ہڈی کا نکالنا یاد دلایا تو بھیڑیے نے کہا: ’’اے احمق! یہ انعام کیا کم تھا کہ تُو میرے حلق سے گردن صحیح سلامت نکال کر لے گیا۔‘‘
حاصل
ظالم اور موذی آدمی کے ساتھ حسنسلوک کرنا اور بہتری کی امید رکھنا نادانی ہے۔ دنیا کے لوگ احسان کو جلدی بھول جاتے ہیں۔ ضرورت میں آدمی جو وعدہ کرتا ہے اس کو پورا نہیں کرتا۔
(نذیر احمد دہلوی؍منتخب الحکایات)

مرد مومن

’’میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ نے عزت، دولت، شہرت بھی بے حساب ، اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار اور سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تنظیم، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردار ٹھیک اَدا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بیشک تو مسلمان پیدا ہوا، بے شک تو مسلمان مرا۔‘‘
قائد اعظمؒ ؍30جولائی 1948ء
لاہور اسکاؤٹ ریلی سے خطاب

مقام علماء

بصرہ کے مشہور عالم عروض خلیل بن احمد (791ء ) سے کسی نے پوچھا کہ علم و سلطنت میں بہتر چیز کون سی ہے؟ کہا: علم، جس کے بغیر کوئی سلطنت زندہ نہیں رہ سکتی۔ پوچھا: تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اہلِ علم تو شاہوں کے ہاں جاتے ہیں لیکن بادشاہ علماء کے ہاں نہیں آتے؟
فرمایا: وجہ یہ کہ علماء تو شاہوں کے مقام سے آگاہ ہیں لیکن بادشاہ مقام علماء سے واقف نہیں۔
(ماہنامہ چشم بیدار، اکتوبر 2018ء)

ایک بادشاہ کی نصیحت

شام کے بادشاہ سیف الدین ابوبکر عادل ایوبی (1196۔1218ء) نے اپنے ایک عامل کو لکھا:
’’جب دینے لگو تو زیادہ کو کم سمجھو، اور لیتے وقت کم کو زیادہ خیال کرو۔ سخی کی راحت دینے میں ہے، اور بخیل کی لینے میں۔ حریص کو امین نہ بنائو اور جھوٹے سے مشورہ نہ کرو، کیونکہ دیانت حرص کے ساتھ اور خلوص کذب کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ماہنامہ چشم بیدار، اکتوبر 2018ء)