انڈونیشیا میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے مطابق انک کراکاٹوا آتش فشاں کے پھٹنے سے آنے والے سونامی میں ہلاکتوں کی تعداد 429 ہوگئی ہے۔ جزیرہ سماٹرا اور جاوا میں ساحلی قصبوں سے انتہائی اونچی سمندری لہروں کے ٹکرانے کے باعث درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق زخمیوں کی تعداد 1459 تک پہنچ چکی ہے جبکہ 150 افراد تاحال لاپتا ہیں۔ اس کے علاوہ حکام کے مطابق 16000 افراد اب تک بے گھر ہوچکے ہیں۔ آتش فشاں کے قریب سمندر کے آس پاس بسنے والے رہائشیوں کو نئے سونامی کے خطرے کے پیش نظر ساحل سے دور رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
Character is the most important thing in public life
حکومتِ برطانیہ نے 1935ء کے ایکٹ کے تحت ہندوستان کو فیڈریشن کی پیشکش کی۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر کے مطابق قائداعظم واحد سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے یہ ’’آفر‘‘ مسترد کردی۔ وزیراعظم میکڈانلڈ نے قائداعظم کو پرائیویٹ ملاقات کے لیے بلایا اور ان کی حمایت جیتنے کے لیے کہا کہ اگر لارڈ سہنا صوبائی گورنر بن سکتا ہے اور لارڈ کا خطاب و اعزاز حاصل کرسکتا ہے تو کوئی اور بھی یہ اعزازات حاصل کرسکتا ہے۔ قائداعظم خاموشی سے اٹھے اور دروازے کی طرف چل دیئے۔ وزیراعظم نہایت شرمندہ ہوا اور پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف لپکا۔ رخصت کرنے کے لیے اس نے ہاتھ بڑھایا، لیکن قائداعظم نے اس سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ وزیراعظم پر گھڑوں پانی پڑا اور اس نے پریشانی کے عالم میں اس ’’سلوک‘‘ کی وجہ پوچھی۔ قائداعظم نے اس کے دفتر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا: میں آئندہ آپ سے کبھی نہیں ملوں گا۔ کیا آپ مجھے قابلِِ فروخت جنس سمجھتے ہیں! یاد آیا، ہماری تاریخ کے ایک قابلِِ رشک سیاسی رہنما سردار عبدالرب نشتر بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل قائداعظم مجھے ساتھ لے کر سابق صوبہ سرحد کے ممتاز لیگی لیڈر اور روحانی شخصیت پیر آف مانکی شریف سے ملنے گئے۔ وہاں بہت سے پیر حضرات جمع تھے جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ نہایت وسیع وعریض تھا۔ قائداعظم ملاقات کے بعد کار کی طرف جانے کے لیے نکلے تو سارے پیر حضرات ان کے پیچھے ہاتھ باندھے نہایت مؤدب انداز سے چل رہے تھے۔ کار میں بیٹھے تو میری ہنسی نکل گئی۔ قائداعظم نے استفسار کیا تو میں نے کہا کہ قائداعظم یہ پیر حضرات جن کے مرید ان کے سامنے دم نہیں مارتے آپ کے پیچھے ہاتھ باندھے چلے آ رہے تھے۔ قائداعظم نے جواب دیا ’’یہ اس لیے ہے کہ انہیں یقین ہے میں قوم کا سودا نہیں کروں گا۔ اگر تم بھی عزت کمانا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو ایسا ہی بنا لو‘‘۔
قائداعظم ہندوستان میں مزید اصلاحات کے حوالے سے انگلستان گئے ہوئے تھے۔ انہیں انگلستان کے بادشاہ کی جانب سے بکنگھم پیلس میں لنچ کا دعوت نامہ ملا جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ قائداعظم نے یہ جواب دے کر انکار کردیا کہ آج کل رمضان ہے، میں لنچ کی دعوت قبول نہیں کرسکتا۔
یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور حاضر دماغی کا شاہکار بھی۔ 25 دسمبر 1940ء کے دن قائداعظم حاجی عمر اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ ناشتا کررہے تھے تو ایک صاحب نے کہا کہ آپ پر کانگریس یہ اعتراض کرتی ہے کہ آپ ٹرین میں فرسٹ کلاس پر پورا ڈبہ ریزرو کروا کر تنہا سفر کرتے ہیں جو مسلم لیگ کے مالی وسائل پر بوجھ ہے۔ قائداعظم نے سگریٹ سلگایا اور لمبا سانس لے کر کہنا شروع کیا ’’اول تو یہ نوٹ کرلیں کہ میں سفر کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ گاندھی تھرڈ کلاس میں سفر کرتا ہے لیکن اس کے کمپارٹمنٹ میں صرف اس کے عقیدت مند کانگریسی کارکن موجود ہوتے ہیں‘‘۔ پھر ایک واقعہ سنایا جس کے بعد قائداعظم نے تنہا سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کہنے لگے کہ ’’میں فرسٹ کلاس میں اکیلا مسافر تھا لیکن کمپارٹمنٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے دروازہ کھلا تھا۔ پنجاب میل میں بمبئی سے دہلی جا رہا تھا، واڈورو اسٹیشن سے گاڑی چلی تو کمرے میں ایک اینگلو انڈین خاتون سوار ہوگئی اور آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے میرے قریب آگئی،کہنے لگی مجھے ایک ہزار روپے دو ورنہ میں ابھی گاڑی کی زنجیر کھینچ کر رونا اور شور مچانا شروع کردوں گی۔ میں بہرا بن گیا جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا۔ اس نے بے صبری سے میرا ہاتھ پکڑا اور جھنجھوڑتے ہوئے کہا: سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔ میں تمہاری عزت خاک میں ملا دوں گی۔ میں نے کانوں کی طرف اشارہ کیا میں بہرا ہوں۔ پھر اسے کاغذ قلم دیا کہ اپنا مطالبہ لکھ دو۔ اس نے کاغذ پر لکھا: مجھے ایک ہزار روپے دو، ورنہ بے عزتی (DEFAMATION) کے لیے تیار ہوجائو۔ میں نے وہ کاغذ جیب میں ڈالا اور اٹھ کر زنجیر کھینچ دی۔ چند لمحوں میں گارڈ آگیا۔ میں نے اسے وہ کاغذ دیا اور گارڈ اس خاتون کو حراست میں لے کر چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پورا ڈبہ ریزرو کراکر سفر کروں گا‘‘۔ پھر کہا
“Character is the most important thing in public life- If Character is blemished then the whole performance becomes meaningless”
گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی کیپٹن گل حسن (بعدازاں جنرل) بتاتے ہیں کہ قائداعظم چھٹی کے دن ملیر چلے جایا کرتے تھے۔ گورنر جنرل کی کار کے پیچھے صرف ایک کار چلتی تھی جس میں سیکورٹی آفیسر ہوتا تھا، بس یہی کُل پروٹوکول تھا۔ ہم ملیر پہنچے تو ریلوے پھاٹک بند تھا۔ ٹرین دور تھی، میں نے گیٹ کیپر سے کہہ کر گیٹ کھلوا دیا، لیکن قائداعظم نے ڈرائیور کو گاڑی چلانے سے منع کرکے مجھے واپس بھیجا کہ گیٹ بند کروا کر آئو۔ پھر مجھ سے کہا ’’اگر میں قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو دوسروں سے یہ توقع کیونکر رکھوں گا!‘‘
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ، 25 دسمبر2018ء)