نواب محمد ممتاز خاں ٹوانہ۔مزید معلومات

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
نواب میجر ملک محمد ممتاز خاں ٹوانہ کے بارے میں جناب دانش یار کا مضمون (فرائیڈے اسپیشل، شمارہ 30) معلومات افزا ہے۔ ممتاز محمد خاں کا مزاج دوسرے ٹوانوں سے مختلف تھا۔ انھیں دوسرے ٹوانوں کے برعکس مسلمانوں اور پاکستان کا مفاد عزیز تر تھا۔ اور انھیں اپنے علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رہتا تھا۔ نواب ممتاز، ملک محمد مبارز خان ٹوانہ [1860۔1923]کے چھوٹے بھائی تھے۔ مبارز خاں مرحوم اپنی اسلام دوستی، عوامی خدمت اور مسلم پیش رفت کی حمایت کے سبب دیگر ٹوانہ برادری میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ایک روایت ہے کہ انھوں نے اس زمانے میں علی گڑھ کالج کے لیے ایک لاکھ روپے چندہ دیا۔ ان کی تعمیر کرائی ہوئی کئی مساجد موجود ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سرگودھا کے باہر سرائے، ملک مبارز خاں کی بنائی ہوئی ہے۔
شاہ پور اور قریبی علاقے کے مسلمانوں نے 1914ء میں باہمی چندے سے شاہ پور میں اوبرائن ہائی اسکول قائم کیا (اوبرائن ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔) اس اسکول کو پروان چڑھانے میں ملک مبارز خاں کا خاصا دخل رہا۔ 1923ء میں جب وہ فوت ہوئے تو ملک ممتاز خاں نے اسکول کے معاملات میں دل چسپی لینی شروع کی اور 1929ء تک وہ اسے خوش اسلوبی سے چلاتے رہے۔ اُس زمانے میں پورے ضلعے میں کوئی کالج نہیں تھا، چنانچہ حکومت سے گفت و شنید کرکے 1929ء میں نواب ممتاز نے اس شرط پر اسکول انگریزی حکومت کے حوالے کردیا کہ اسے انٹر کالج کا درجہ دیا جائے گا۔ یکم مئی 1929ء کو اوبرائن اسلامیہ ہائی اسکول، گورنمنٹ انٹر کالج بن گیا۔ تین چار سال بعد اس کا نام ڈی مانٹ مورنسی کالج رکھ دیا گیا اور اس کا درجہ ڈگری تک بڑھا دیا گیا۔ نواب ممتاز خاں مرحوم اس کے بعد بھی کالج کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے اور طلبہ کو مخیر حضرات سے وظائف دلانے کے لیے کوشاں رہے۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے ملک ممتاز محمد خاں کی مدح میں ایک نظم لکھی تھی، جس کا ایک مصرع مذکورہ کالج کے سب سے پہلے گریجوایٹ ملک کرم داد خاں مرحوم کی وساطت سے ہمیں معلوم ہوا۔ مصرع یہ تھا کہ:
کہ یونیورسٹی تک لے کے جانے کا ارادہ تھا
دیکھیے، اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے ارادوں میں برکت دیتا ہے۔ 1946ء میں ڈی مانٹ مورنسی کالج، ضلعے کے صدر مقام کی منتقلی کے سبب سرگودھا منتقل ہو گیا۔ ملک ممتاز محمد خاں 1948ء میں فوت ہو گئے لیکن 2002ء میں کالج یونیورسٹی کے درجے تک پہنچ گیا۔ کالج کی عمارات ہی میں یونیورسٹی کا آغاز ہوا اور کالج کی بنیادوں اور اس کی عمارت پر ہی یونیورسٹی قائم ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یونیورسٹی کے اربابِ اختیار نے کالج کی تاریخ فراموش کردی۔ اور انھیں کالج کے اساتذہ کی خدمات کے اعتراف کی توفیق نہیں ہوئی۔
ڈی مانٹ مورنسی کالج شاہ پور اور بعد ازاں سرگودھا سے نامور شخصیات بطور استاد یا پرنسپل وابستہ رہیں، مثلاً پروفیسر یو کرامت (بعد ازاں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی)، پروفیسر سراج الدین آرزو (بعد ازاں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی)، پروفیسر ڈاکٹر عابد احمد علی (سرسید احمد خاں کے پوتے، عربی زبان و ادب کے فاضل، آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ، بعد ازاں بیت القرآن پنجاب پبلک لائبریری کے ڈائریکٹر)، عبدالعلی خاں (بعد ازاں وفاقی سیکرٹری تعلیم)، ڈاکٹر شیر محمد زمان (بعد ازاں وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد)۔
راقم الحروف اپنی مادرِ علمی (ڈی مانٹ مورنسی کالج سرگودھا) سے بطور طالب علم اور بطور استاد تقریباً دس برس وابستہ رہا ۔ 1979ء میں کالج کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر برادرم خورشید رضوی سے مل کر کالج کی پچاس سالہ تاریخ تحقیق کرتے ہوئے مندرجہ بالا معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ ہماری تحقیق کا حاصل کالج کے میگزین ’’نوید ِ صبح‘‘ کے گولڈن جوبلی نمبر میں محفوظ ہے۔ یہ نمبر مضامین ، مصاحبوں اور تصاویر پر مشتمل ہے۔