مقبوضہ کشمیر ، بھارتی فوج کی درندگی، کشمیریوں کی نسل کشی

مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے ہر شام شامِ غریباں اور ہر بستی کربلا ہے۔ ظالم اور سفاک فوج ’افسپا‘ جیسے سیاہ قوانین کا سہارا لے کر انسانی آبادی کو مٹا ڈالنے کے درپے ہے۔ پیلٹ اور بلٹ نہتے لوگوں کا مقدر ہوکر رہ گئی ہیں، اور ان میں جنس کی کوئی حد ہے اور نہ عمر کی کوئی قید۔ 19 ماہ کی حبہ پیلٹ گن کے چھرّوں سے زخمی ہوکر سری نگر کے مرکزی ہسپتال میں مجروح آنکھ کے آپریشن در آپریشن کے عمل سے گزر رہی ہے۔ زخمی بچی اقوام عالم سے اپنا جرم اور قصور پوچھ رہی ہے، مگر کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔ دنیا کے ہنگاموں سے بے نیاز اس بچی کا قصور معصومیت اور کشمیریت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے! حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ دنوں دو کم عمر لڑکوں نے کئی گھنٹے تک بھارتی فوج کے ساتھ جم کر معرکہ آرائی کی۔ یہ دو دوست تھے جن میں ایک کی عمر 14 اور دوسرے کی 17 سال تھی، اور دونوں رواں سال اگست میں معمول کی زندگی چھوڑ کر عسکریت کا حصہ بنے تھے۔ ان میں چودہ سالہ مدثر رشید کو تین عشروں پر محیط مسلح تحریک کا سب سے کم عمر فرد قرار دیا گیا۔ ان کم عمر لڑکوں کے جنازے میں ہزاروں افراد اُمڈ آئے۔ اس جور و ستم میں تازہ اضافہ پلوامہ میں انسانیت کا دامن تار تار ہونے کا واقعہ ہے جس میں بھارتی فوجیوں نے فائرنگ کرکے ڈیڑھ درجن کے قریب افراد کو شہید کردیا جبکہ درجنوں افراد پیلٹ گن کے چھرّوں اور گولیوں سے زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ شہید ہونے والوں میں نویں جماعت کا طالب علم عاقب اور انڈونیشا سے تعلق رکھنے والی خاتون صائمہ کا 35 سالہ شوہر جو تین ماہ کی بچی کا باپ بھی تھا، شامل ہے۔ انڈونیشین خاتون برستے آنسوئوں میں کہہ رہی تھی کہ ’’میں اب یہاں نہیں رہوں گی، میں چلی جائوں گی۔ مجھے اس حال تک کیوں پہنچایا گیا؟‘‘ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھاکہ ایک کشمیری سے شادی کرنے کا مطلب بیوگی ہے۔ اس خونیں واقعے کا آغاز اُس وقت ہوا جب بھارتی فوج نے تین حریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر ایک مکان کا محاصرہ کیا۔ تینوں حریت پسندوں نے ایک باغ میں داخل ہوکر مورچہ سنبھال لیا۔ دوطرفہ تصادم کے بعد تینوں حریت پسند شہید ہوگئے۔ مقامی لوگ لاشوں کو اٹھانے کے لیے ایک ہجوم کی صورت آگے بڑھے تو بھارتی فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔
پلوامہ کے اس خونیں سانحے پر آزادی پسند قیادت نے تین روزہ ماتمی ہڑتال کا اعلان کیا اور بھارت نواز سیاست دانوں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون نے بھی اس کی شدید مذمت کی۔ بھارتی حکومت نے کشمیر میں ٹرین سروس معطل کردی ہے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ کشمیری عوام بھارت کی سب سے بڑی فوجی چھائونی بادامی باغ کی طرف مارچ کریں تاکہ بھارتی فوج روزانہ مارنے کے بجائے ایک بار ہمیں مار دے۔ میرواعظ عمر فاروق کی یہ کال اور یہ طرزِ تخاطب کشمیریوں میں پائے جانے والے غصے اور مایوسی کا عکاس تھا۔ بھارتی فوج نے سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کو نظربند کرنے کے بعد سخت پابندیاں عائد کرکے مارچ کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کے تیسرے اہم راہنما محمد یاسین ملک گرفتاری سے بچنے کے لیے پہلے ہی روپوش ہوگئے تھے۔ یاسین ملک نے سری نگر کے مرکزی علاقے میں اچانک نمودار ہوکر مارچ کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے ساتھی مسلسل نعرے بازی کرتے رہے کہ وہ اجتماعی طور پر قتل ہونے کے لیے بھارتی فوجی چھائونی جارہے ہیں۔ بھارتی فوج نے بھی کشمیریوں کو سخت متنبہ کرنے کے انداز میں مارچ نہ کرنے کو کہا۔ اس طرح سخت ترین پابندیوں کے باعث یہ مارچ تو ممکن نہ ہوسکا مگر جذبات کا دھارا پوری رفتار سے بہہ رہا ہے۔ حد تو یہ کہ اس واقعے کے بعد بھی بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت اس قتل و غارت کے حق میں تاویلات پیش کرتے رہے۔ جنرل راوت کا کہنا تھا کہ فوجی پر پتھر پھینکنے والا بھی بندوق بردار کی طرح خطرناک اور دہشت گرد ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جس کا مستحق دہشت گرد ہے۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے اس واقعے کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اِس سال کے دوران بھارتی فوج نے 242 حریت پسندوں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ101عام شہری اور 82 فوجی اہلکار مارے گئے۔ اخبار کے مطابق یہ گزشتہ ایک دہائی میں ہلاک شدگان کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
واقعے کے فوراً بعد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے حکومتِ پاکستان کو کہا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کے بجائے کشمیریوں کی عملی مدد کی جائے۔ حکومتِ پاکستان کے لیے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ ایک طرف کشمیر کی زمینی صورتِ حال ہے جو روز بروز بگڑتی چلی جا رہی ہے اور جہاں روزانہ پاکستان کے پرچموں میں لاشے لپیٹ کر دفن کیے جارہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت پر بھارت سے تعلقات بحال کرنے کے لیے کچھ بیرونی دبائو ہے تو کچھ دوستوں کے دوستانہ مشورے ہیں۔ بھارت گورنر راج کے بعد صدر راج کی آڑ میں کشمیریوں کی نسل کُشی کرکے اس مسئلے کے حل کی راہ پر چل رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ واقعات کی مذمت کی اور ایک بار پھر مذاکرات کو اس مسئلے کا حل قرار دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس معاملے کی سنگینی پر او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ کرکے فوری لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کے بعد او آئی سی کی طرف سے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر جان دار بیانات سامنے آئے۔ او آئی سی سیکریٹریٹ میں ایک اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ انسانی جانوں کے اتلاف پر دکھ کا اظہارکیا گیا اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے او آئی سی کے ایک وفد کو علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں بھی پلوامہ واقعے پر قرارداد منظور کی گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال جس طرح روز بروز بگڑتی چلی جارہی ہے اس میں حکومت پاکستان کو رسمی اور روایتی احتجاج سے آگے بڑھ کر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی فوج اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے پر تیار نہیں۔ وادی میں سیاست کی بساط بھارت کے پیروں تلے سے کھسک چکی ہے، اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے اور گورنر راج کے بعد صدر راج نافذ ہوچکا ہے۔ اگلے چند ماہ میں بھارتی سپریم کورٹ کشمیر کی خصوصی شناخت سے متعلق اہم فیصلہ سنانے جارہی ہے۔ کشمیری حریت پسند تو اس پورے نظام کو ہی تسلیم نہیں کرتے مگر خود بھارت نواز سیاسی جماعتیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی بھی کشمیر کی خصوصی شناخت کو چھیڑنے پر خطرناک نتائج کی دھمکی دے چکی ہیں۔ اس طرح بھارتی سپریم کورٹ اگر کشمیر کی خصوصی شناخت کو تحفظ دینے والی شق35A اور بھارتی آئین کی دفعہ370کو ختم کرنے کا فیصلہ سناتی ہے تو اس سے وادی کشمیر میں ایک اور دھماکا خیز صورتِ حال پیدا ہوگی جس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے پاس فوجی طاقت کے استعمال کے سوا اور کوئی حل نہیں۔ آبادی کو تقسیم کرنے اور اپنا ہمنوا بنانے کی کوششیں اب ناکام ہوچکی ہیں، اور عوامی دبائو اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جو لوگ’’اگر مگر‘‘ کی تاویلوں اور دلیلوں کے ساتھ بھارتی سسٹم کے ساتھ تھے وہ بھی اگر مگر کے ساتھ بھارت کی مخالفت پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں حکومتِ پاکستان کو تشویش، مذمت، غور، رابطہ، ٹیلی فون اور ٹویٹ جیسی روایتی اصطلاحات سے آگے بڑھ کر مربوط اور منظم کشمیر پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔