بھارتی ریاستی انتخابات اور مودی سرکار کی شکست

پچھلے دنوں بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں کے انتخابات ہوئے۔ ان ریاستوں میں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اورمیزورام شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان انتخابات سے قبل مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پچھلے 15برس سے بی جے پی کی حکومت تھی، جبکہ راجستھان میں بھی پچھلے پانچ برس سے بی جے پی اقتدار میں تھی۔ ان تینوں ریاستوں کو بی جے پی کی سیاست کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، مگر حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی اور مودی حکومت کو ان تینوں اہم ریاستوں میں کانگریس کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ دیگر دو ریاستوں میں بھی بی جے پی شکست کھا گئی اور وہاں علاقائی جماعتوں کو کامیابی ملی۔ اس تناظر میں پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کو سیاسی ماہرین ایک بڑی سیاسی شکست کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ اب اقتدار اس سے نہیں چھینا جاسکے گا، عملی طور پر غلط ثابت ہوا ہے۔
جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق مدھیہ پردیش کی 230 نشستوں میں سے کانگریس کو 114، جبکہ بی جے پی کو 109نشستیں مل سکیں۔ جبکہ راجستھان میں 199 نشستوں پر جو مقابلہ ہوا اس میں کانگریس کو 101، جبکہ بی جے پی کو73 نشستیں مل سکیں۔ عملاً ان دونوں ریاستوں میں کانگریس حکومت بناسکتی ہے۔ تلنگانہ میں مقامی جماعت راشٹرزسمیتھی نے دونوں جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو انتخابی شکست سے دوچار کیا اور 119نشستوں میں سے 88 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کو 21 اور بی جے پی کو محض ایک نشست مل سکی۔ چھتیس گڑھ کی 90 نشستوں میں سے کانگریس کو 68 نشستوں پر کامیابی ملی، جبکہ بی جے پی محض 16نشستیں حاصل کرسکی۔ کانگریس کی حکومت یہاں بھی بن سکتی ہے۔ البتہ میزورام ریاست میں کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں کانگریس کی حکومت تھی، لیکن مقامی جماعت میزو نیشنل فرنٹ نے 40 میں سے 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ کانگریس 5 نشستوں پر جیت سکی۔
بھارت میں عام انتخابات 2019ء میں ہونے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل ان پانچ بڑی ریاستوں کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کو ایک بڑا سیاسی دھچکا لگا ہے۔ کیونکہ سیاسی ماہرین کے بقول عمومی طور پر ان ریاستی انتخابات کے نتائج کا بڑا سیاسی اثر اگلے برس عام انتخابات پر بھی پڑسکتا ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر ریاستی انتخابات کی جو لہر ہوتی ہے وہ آگے بڑھتی ہے، اورکیونکہ عام انتخابات بہت قریب ہیں تو ان ریاستی انتخابات کے نتائج بی جے پی کو متوقع خطرات سے آگاہ کررہے ہیں کہ اس کے لیے عام انتخابات میں سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اسے ذہنی و سیاسی طور پر کچھ نئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس وقت ان پانچ ریاستوں میں شکست کے بعد خود بی جے پی میں مودی کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے بھی مودی کے خلاف پارٹی میں خاصی مخالفت تھی لیکن ان پانچ ریاستوں کے نتائج نے مودی مخالف قوتوں کو بی جے پی میں موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مودی کے خلاف یکجا ہوں۔ اب مودی پر جہاں ان کے سیاسی مخالفین کا دبائو ہے، وہیں اس شکست کے بعد ان کو پارٹی میں بھی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کانگریس جو پچھلے کچھ برسوں سے اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہی ہے، اُسے ان پانچ ریاستی انتخابات میں سے تین ریاستوں میں کامیابی نے ایک بڑا سیاسی سہارا دیا ہے جو یقینی طور پر عام انتخابات میں اُس کے لیے نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس کی قیادت اوربالخصوص سونیا گاندھی اوران کا بیٹا راہول گاندھی کئی برسوں سے سیاسیپسپائی کا شکار تھے، لیکن انہوں نےخاصی محنت کی اور اس کے نتائج آج ریاستی انتخابات میں اسے مثبت انداز میں ملے ہیں۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ راہول گاندھی اگلے عام انتخابات میں بھارت کی سیاست میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ راہول کچھ نہیں کرسکیں گے، مگر عملی طور پر راہول نے خود کو بھارت میں مودی کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت کے طور پر کامیابی سے پیش کیا ہے اوران پانچ ریاستوں میں سے تین ریاستوں میںکانگریس کی بڑی کامیابی اور حکومت بنانے کے عمل میں راہول گاندھی کا بڑا سہرا ہے اورلوگ اب ان کو بھار ت میں ایک نئی متبادل قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مضبوط بی جے پی اورنریندر مودی جنہیں ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، ان ریاستی انتخابات میں کیوں اپنا سیاسی جادو نہیں چلاسکے؟ اس کی چار بڑی وجوہات ہیں:
اول: مودی سرکار نے بڑے بڑے سیاسی و معاشی دعوے کیے تھے، بظاہر لگتا ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے عوام پر ان کا مثبت اثر نہیں پڑا۔ لوگ ان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں سے نالاں تھے اور اس کا اظہار انہوں نے ان کی مخالفت میں ووٹ دے کر کیا ہے۔
دوئم: بھارت میں موجود مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں مودی سرکار کے بارے میں بہت زیادہ تحفظات تھے اور ان کو لگتا تھا کہ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں کا اصل ہدف اقلیتیں ہیں۔ عملی طور پر بھارت میں موجود اقلیتیں انتہا پسند ہندوئوں سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔
سوئم: مودی سرکار کا ازخود ہندتوا کی پالیسی پر مضبوطی دکھانا اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر سیاست کرنا… وہاں کے روشن خیال ہندوئوں نے بھی بری طرح مسترد کیا۔
چہارم: مودی سرکار کی بڑی خرابی یہ تھی کہ اس نے انتہا پسند ہندو طبقے کو لگام ڈالنے کے بجائے ان کی کھل کر سرپرستی کی، اور عملاً اپنے آپ کو انتہا پسندی سے جوڑا۔
حالانکہ مودی سرکار کے پاس ان پانچ برسوں میں بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ بھارت کی پرانی روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ ایسا نیا کرتی جو بھارت سمیت علاقائی سیاست میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات کو روشن کرتا۔ ابتدا میں جو سیاسی ماڈل مودی نے پیش کیا تھا اسے بڑی پذیرائی بھی ملی، لیکن عملی سیاست میں وہ اپنے معاشی ماڈل کو چھوڑ کر انتہاپسندی کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرنے کے عملی ایجنڈے میں پھنس گئے، جس کا نتیجہ ان کو اِن پانچ ریاستوں میں بدترین شکست کے طور پر دیکھنا پڑا ہے۔ بھارت کا وہ سرمایہ دار طبقہ جس نے مودی پر بہت زیادہ سیاسی اور مالی سرمایہ کاری کی تھی، وہ بھی اب پیچھے نظر آتا ہے اور اسے بھی لگتا ہے کہ آنے والی سیاست میں اب مودی کا جادو نہیں چل سکے گا۔
بھارت میں بہت سے کھلاڑی، فن کار، گلوکار، ادیب، شاعر، دانش ور، صحافی اور عوامی رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے دیگر فریقین بہت عرصے سے مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں کی سخت مخالفت کررہے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ مودی جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اس سے بھارت کو کچھ نہیں مل سکے گا۔ انتہاپسند ہندوئوں کی جانب سے بہت سے ہندوئوں کو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حمایت میں بولنے پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کشمیر میں بھی مودی سرکار کی جو پالیسیاں ہیں اس کا ردعمل دہلی، ممبئی اور دیگر بڑی یونیورسٹیوں میں ہندو طلبہ کی مزاحمتی ریلیوں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مودی سرکار کی کشمیر کے حوالے سے جارحانہ اور تشدد پر مبنی سیاست نے ان کو بہت زیادہ مشکل میں ڈالا ہوا ہے، اور خاص طور پر کشمیریوں کی مزاحمت نے بھارت کوگہری کھائی میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا۔
بہرحال اپریل 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی سیاسی بقا کی بی جے پی کی کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی اس پر فوری طور پر حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر مودی سرکار موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کو ہی برقرار رکھتی ہے اور جو غلطیاں اب تک اس سے ہوئی ہیں اُن سے کچھ نہیں سیکھتی تو ووٹرز دوبارہ مخالفانہ ردعمل دے سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی انتخابی سیاست میں پاکستان دشمنی کا ایجنڈا بکتا ہے، اورمودی سرکار اسی نکتے کو بنیاد بناکر اگر انتخابی مہم میں اترتی ہے تو وہ ماضی کی غلطیوں سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ مگر مودی سرکار کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان دشمنی یا مخالفت میں اور زیادہ شدت پیدا کرکے ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرے تاکہ ہندوازم کی جذباتی کیفیت سے فائدہ اٹھا سکے۔ لیکن لگتا ہے کہ مودی سرکار کی مہم جوئی نے اسے اور بی جے پی کو زیادہ سیاسی تنہائی میں ڈال دیا ہے جو توجہ طلب پہلو ہے۔

اسمبلی انتخابات کے نتائج ،جماعت اسلامی ہند کا اظہار اطمینان

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر جماعت اسلامی ہند کے سیکرٹری جنرل انجینئر محمد سلیم نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ یہ نتائج مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور مزورم کے عوام کی جمہوری قدروں، رواداری اور سدبھائونا کی روایات سے ہم آہنگی اور فسطائیت و فرقہ پرستانہ روش سے ناپسندیدگی کا مظہر ہیں۔
سیکریٹری جماعت نے یہ بھی کہا کہ فسطائی قوتوں نے جس طرح پریشان کن نوٹ بندی، جمہوری اداروں کی حصار بندی، کسانوں اور نوجوانوں کے مسائل سے روگردانی کی اور ہجومی تشدد، فرضی انکائونٹر، مسلم پرسنل لا پر حملوں اور بابری مسجد کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی آراء کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذکورہ بالا اسمبلیوں اور پارلیمان کے آئندہ انتخابات کے پہلے سے ہی ملکی فضا کو مسموم و مکدّر کرنے اور عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ان سے ملک میں امن و آشتی کے ماحول کو نقصان پہنچا ہے، لیکن اسمبلی انتخابات میں عوام نے ان تمام غیر دستوری و غیر جمہوری کوششوں کو اپنے ووٹوں کی جمہوری قوت سے رد کردیا ہے،جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔
محمد سلیم نے پانچوں ریاستوں میں قائم ہونے جارہی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عاید ہوتیہے لہٰذا وہ عوام کی فلاح وبہبود کو اپنا شعار بنائیں اور ایسی تمام پالیسیوں اور کاموں سے گریز کریں،جو شہریوں کے لیے پریشانیوں کا باعث رہے ہیں۔ سیکریٹریجماعت نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ ان ریاستوں میں حکومتیں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کریں گی اور ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں،ان کی تلافی کریں گی۔
انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ جمہوری سیاسی پارٹیاں اور ملکی عوام 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی اسی بالغ نظری کا ثبوت دیں گے اور فسطائی و فرقہ پرست طاقتوں کا راستہ روک کر ملک میں جمہوری اور امن وامان کی فضا قائم کریں گی۔