تحریک انصاف کی حکومت دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے، پہلے سو دنوں کی کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد کابینہ میں شامل ہر وزیر تو پاس ہوگیا ہے لیکن بادشاہ سیاسی شہہ مات کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت کے لیے عوام کا اعتماد بحال کرنا ایک مشکل ٹاسک بن چکا ہے، بلکہ اب تو ملک کا کاروباری طبقہ بھی بلبلا اٹھا ہے کہ حکومت ہوا میں باتیں کررہی ہے اور مسائل کے حل کے لیے اُس کی کوششیں زمینی حقائق سے بہت دورہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاشی پیکیج کے لیے بات چیت اگرچہ اہم ہے، لیکن شاید اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کس مشن پر لندن گئے تھے، وہاں اُن کی کس کس سے ملاقات ہوئی، کیا وہ پارلیمنٹ کو اپنے دورے سے متعلق اعتماد میں لینا چاہیں گے، اور کیا پارلیمنٹ میں اپوزیشن حکومت سے یہ سوال کرے گی کہ امریکہ نے پاکستان پر مذہبی آزادیوں پر پابندی کے نام پر جو اقدامات اٹھائے تھے اصل میں ان اقدامات کے لیے امریکہ کی خیر خواہی کس طبقے کے لیے تھی؟ یہ ایشوز آئی ایم ایف سے معاشی پیکیج لیے جانے اور ملک میں کاروباری طبقے کے اعتماد کی بحالی سے کہیں زیادہ حساس ہیں۔ اگر ان سوالوں کے جواب نہ دیے گئے تو حکومت کی خاموشی بدعقائد مذہبی طبقے کے لیے کسی حد تک ریلیف کا سامان ضرور پیدا کرے گی۔ حکومتِ پاکستان نے اگرچہ امریکی فیصلے پر شدید ردعمل دیا اور اسی ردعمل کے نتیجے میں مذہبی آزادی نہ ہونے کا الزام عائد کرکے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا اقدام امریکہ کو واپس لینا پڑا ہے۔ پاکستان کی جانب سے امریکی حکام کو احتجاجی مراسلے میں واضح کیا گیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو آئین کے مطابق تمام تر مذہبی آزادی حاصل ہے۔ پاکستان نے بالکل درست کہا کہ اسلام آباد کو اپنی اقلیتوں سے متعلق کسی کا لیکچرسننے کی ضرورت نہیں ہے، اس احتجاج پر ہی امریکہ نے پاکستان کے خلاف متوقع پابندیاں ملتوی کی ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے جو نہیں ہوئی۔
امریکیوں کے عزائم اور ایک خاص طبقے کی حمایت کے لیے واشنگٹن کا بار بار وقفے وقفے سے اٹھ کھڑے ہونا تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل انسانی حقوق حاصل ہیں، پاکستان نے امریکی دبائو قبول نہ کرکے بہت اچھا کیا۔ امریکہ ڈومور کا تقاضا کرتے ہوئے اب ملک میں مذہبی منافرت کی منصوبہ بندی کرنے میں ملوث نظر آتا ہے۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن وہ دوبارہ وار کرے گی جس کے لیے وہ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی استعمال کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے رواں مالی سال کے دوران 160 ارب روپے کے نئے محصولات کے اقدامات کا تقاضا کیا ہے، اس مطالبے کا صاف صاف مقصد یہ ہے کہ عوام میں بے چینی بڑھ جائے، اس کے بعد امریکہ اپنے مطالبات عالمی مالیاتی ادارے کے ذریعے سود سمیت پورے کرائےگا۔ یہ صورتِ حال حکمرانوں کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی قومی خودداری کے تقاضوں کے منافی شرائط قبول کرتے ہیں یا ملک کو آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں کے چنگل سے باہر نکال لاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی سابق حکمرانوں کے کشکول اٹھانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن ان کی ٹیم کی کاوشوں سے حکومت کو سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات سے مالی امداد حاصل ہوگئی ہے، تاہم حکومت آج بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے لیے گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔ وزیرخزانہ ایک دن آئی ایم ایف کو جواب دیتے نظر آتے ہیں تو اگلے دن قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی مجبوری کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا علم نہیں تھا، کبھی کہتے ہیں اس کے بغیر گزارہ نہیں تھا، سب کچھ آئی ایم ایف کے لیے کیا۔ کبھی کہتے ہیں کڑی شرائط تسلیم نہیں کی جائیں گی۔ اس سے زیادہ کڑی شرائط اور کیا ہوسکتی ہیں کہ ہمارا روپیہ پیسے سے کم قیمت کا ہوگیا ہے! حکومت کی جانب سے نئے ٹیکسوں اور بجلی، گیس، پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے اقدامات اضافی بوجھ ہیں۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے بارے میں کوئی واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
ایسے وقت میں جب حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کی پوری تیاری میں ہے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے جارحانہ انداز اپنالیا ہے۔ آصف علی زرداری نے جس رویّے کا اظہار کیا ہے وہ ردعمل ہے، کہ تحریک انصاف کی حکومت کے سرپرست اس کے لیے تنہا پرواز چاہتے ہیں۔ لیکن ملک کے سیاسی حلقوں میں ہونے والی بحث کا تجزیہ یہ ہے کہ اگر ملک میں عمران خان کو پارلیمنٹ میں 342 ارکان بھی مہیا کردیے جائیں تب بھی وہ ایک باصلاحیت اور اہل حکمران ثابت نہیں ہوسکتے۔ قومی اسمبلی میں اس وقت ان کے پاس محض سات ارکان کی اکثریت ہے۔ یہ عمارت انتخابات میں شہر شہر سے اینٹیں اکٹھی کرکے تعمیر کی گئی ہے۔ تحریک انصاف میں اس وقت مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے نکل کر شامل ہونے والے منتخب افراد کی تعداد 96 ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے بنیادی لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے کہ حکمران پارٹی کو اپنے اقتدار کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرنے دی جائے، اگر اس کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہوں گے تو معمول کے انتخابات میں ماضی کے حکمرانوں کی طرح انہیں بھی گھر بھجوا دیں گے۔
حکومت کی سوروزہ کارکردگی اگرچہ تسلی بخش ہے مگر چند وزارتوں کے حوالے سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وزیرخزانہ اسد عمر ایک قابل اور متحرک وزیر ہیں لیکن ان کی وزارت کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں، اور شاید اس کے ذمہ داران معاشی ٹیم کے وہ اعلیٰ سرکاری افسران ہوں جو ماضی کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ہماری معاشی بدحالی میں اُن کا کردار اہم رہا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی شدید دبائو میں ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آگیا ہے، مگر حکومت کی اس معاملے میں توجہ اور رفتار بہت کم ہے۔ نئی سرمایہ کاری تقریباً رک گئی ہے، کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں، صنعتی یونٹ بند ہورہے ہیں، بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے، ریونیو اور ٹیکس کے نظام میں بہتری اور ایف بی آرکی ازسرنو تشکیل کے لیے نت نئے تجربے کیے جارہے ہیں، ٹیکس فائل کرنے والے اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے برابر خوف میں مبتلا ہیں، حکومت کو گیس کی کمیابی کے بحران کا سامنا بھی ہے۔ وزارتِ پیٹرولیم کو چاہیے کہ عوام کی طلب کو نظر میں رکھتے ہوئے گیس کی بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنائے تاکہ ملکی صنعت متاثر نہ ہو۔ سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کمپنیوں کو مورد الزام ٹھیرا کر وزارتِ پیٹرولیم بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ جب تک معیشت بہتر نہیں ہوتی، عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ حالات اب مزید خراب ہوں گے اور پھر کہیں جاکر بہتر ہوں گے۔ حکومت کو اپنے دائرۂ کار میں جو اختیار حاصل ہے اس کو استعمال کرسکتی ہے۔ اقتدار کا پھیلائو جو اِس وقت ہے اس سے قبل پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اگر حکومت ڈلیور کرنا چاہے تو اس سے سازگار صورت حال نہیں مل سکتی۔ حکومت روزگار فراہم کرے، کس نے اسے روک رکھا ہے! مسلم لیگ(ن) حکومت نے بھی بڑے منصوبے شروع کرنے کے باوجود یہ بھرتیاں نہیں کیں، اسے بھی روزگار دینا چاہیے تھا۔ جوحکومت کے بس کی بات نہیں وہ توٹھیک ہے، لیکن حکومت جو کرسکتی ہے، وہ پتا نہیں کیوں نہیں کرتی؟
ایک اور منی بجٹ لانے کی تیاری
سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر اور گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ 2017ء معاشی تاریخ میں منفرد تھا، اس سال جیسا معاشی بحران ملکی تاریخ میں پہلے نہیں آیا۔ 1998ء اور 2008ء میں بھی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2017ء اور 2018ء میں 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔ مئی، جون اور جولائی میں ہر ماہ 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چل رہا تھا، اگر اسی رفتار سے چلتے تو سالانہ 24 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ ہوتا۔ خسارے کو روکنے کے لیے فسکل اور مانیٹری پالیسی کے تحت اقدامات کیے گئے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب ماہانہ ایک ارب ڈالر تک آگیا ہے۔ یہ خسارہ اب بھی زیادہ ہے۔ رواں سال 12 سے 13 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگا۔ رواں سال 12 ارب ڈالر کا فنانسنگ فرق ہے۔ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر مل چکے ہیں، جنوری میں سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر ملیں گے۔ سعودی عرب سے 3 فیصد سود پر قرضہ لیا گیا ہے۔ وہ 270 ملین ڈالر کا تیل ماہانہ ادھار پر دے گا۔ جنوری میں سعودی عرب سے تیل ادھار ملنا شروع ہوجائے گا اور رواں سال ڈیڑھ ارب ڈالر کا تیل ادھار پر ملے گا۔ یو اے ای اور چین سے بھی امدادی پیکیج پر بات ہورہی ہے، چین کے کمرشل بینکوں سے فنانسنگ ملے گی۔ 2019ء تک فنانسنگ فرق پورا ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف کو فریم ورک بھجوا چکے ہیں اور مکمل پروگرام دے چکے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی جلدی نہیں۔ جب تک اچھا پروگرام نہیں ملتا، قرض لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے۔ آئی ایم ایف سے معاشی اصلاحات پر اختلافات ہیں۔ معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکا ہے، ٹیکس ری فنڈز کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔ جب عوام کو اعتماد ہوگا تب معاشی اصلاحات کریں گے۔ معاشی اصلاحات پر عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اسد عمر نے بتایا کہ دسمبر 2017ء میں ڈالر 105 روپے کا تھا، آج ڈالر 138 روپے کا ہے۔ دسمبر سے جولائی تک ڈالر 23 روپے مہنگا ہوا۔ اب روپے کی بے قدری کم ہونا شروع ہوچکی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں۔ جنوری میں منی بجٹ لائیں، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ منی بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ معیشت عالمی معیشت کا مقابلہ نہیں کررہی، معیشت کو چلانے کے لیے ٹیکس کم کیے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس ری فنڈز کے لیے بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس ری فنڈز رواں سال کلیئر کردیں گے۔