بنگلہ دیش… انتخابی مہم یا گرفتاری مہم!۔

ہندوستانی وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی شری اجیت کمار دوال انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں
بنگلہ دیش کے انتخابات میں اب ایک ہفتہ باقی ہے اور 30 دسمبر کو 10کروڑ رائے دہندگان 300 ارکانِ جاتیہ سنگشاد (قومی اسمبلی) کا انتخاب کریں گے۔ آزادی کے بعد سے یہ 11 ویں عام انتخابات ہوں گے۔ ان انتخابات میں حکمراں جماعت عوامی لیگ اور حزبِ اختلاف کے جاتیو اوکو فرنٹ (قومی یک جہتی اتحاد) کا براہِ راست مقابلہ ہے۔ جماعت اسلامی چونکہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے کالعدم ہے، اس لیے اس کے امیدواروں کو خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)نے ٹکٹ جاری کیے ہیں جو ’اوکو فرنٹ‘ کے بینر تلے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ عوامی لیگ کا انتخابی نشان کشتی اور اوکو فرنٹ کی پہچان چاول کی بالی ہے۔ یہ غالباً مشرقی پاکستان اور اس کے بعد بنگلہ دیش کے پہلے انتخابات ہیں جن میں ترازو بیلٹ پیپر پر نہیں ہوگا۔
حالیہ انتخابی مہم کی خصوصیت بڑے پیمانے پر حزب اختلاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری، اغوا اور گھروں کی آتشزدگی ہے۔ چند روز پہلے جب ایک انتخابی جلسے کے بعد حزب اختلاف کے رہنما ڈاکٹر کمال حسین سے کسی صحافی نے پوچھا کہ جاتیو اوکو فرنٹ کو کتنے ووٹ ملیں گے؟ تو ڈاکٹر صاحب بولے: ووٹ گننے کا مرحلہ 30 دسمبر کو آئے گا، فی الحال تو ہم اپنے قیدی گن رہے ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جیلیں کم پڑگئی ہیں اور بیت الخلا کی خراب صورت حال کی وجہ سے متعدی مرض پھوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
اوکو فرنٹ نے جماعت اسلامی کو 20 ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی نشستوں پر جماعت کے ارکان متبادل (Covering) امیدوار کے طور پر انتخاب لڑرہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کُل آٹھ ڈویژنوں میں سے سات میں جماعت نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن میں رنگپور سے 7، راجشاہی ڈویژن سے 2، کھلنا سے 7، ڈھاکہ سے 1، باریسال سے 1، چاٹگام سے 2 اور سلہٹ سے 2 نشستیں شامل ہیں۔ اوکو فرنٹ نے کاکسس بازار کی نشست جمعیت علمائے اسلام اور ستکھرا، کھلنا کی نشستیں مسلم لیگ کو دی ہیں، لیکن اب تک ان جماعتوں کا کوئی امیدوار انتخاب لڑنے کو تیار نہیں، اس لیے خیال ہے کہ ان نشستوں پر متبادل امیدواروں کو سامنے لایا جائے گا۔ کاکسس بازار سے جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی حمید الرحمان، اور کھلنا سے جماعت کے عبدالخالق متبادل امیدوار ہیں۔ سلہٹ کی دونشستوں پر بھی جماعت اسلامی کے ارکان نے متبادل امیدوار کے طور پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائےہیں۔ میمن سنگھ ڈویژن سے جماعت کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں۔
ہندوستانی وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی شری اجیت کمار دوال انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی بنگلہ دیش میں ہندوستان کے ہائی کمشنر (سفیر) شری وردھن شرنگلا(Vardhan Shringla) نے ایک اخباری کانفرنس میں صاف صاف کہا کہ بنگلہ دیش کے انتخابات سے ہندوستان کو کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ ہمارے دوست کا اندرونی معاملہ ہے، تاہم جماعت اسلامی ہندوستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہوسکتی ہے جب وہ اپنے دستور میں ترمیم کرکے تنظیمی و نظریاتی بنیادوں کو سیکولرازم سے ہم آہنگ کرلے۔ ایک طرف جماعت اسلامی کو ہندوستان کی جانب سے ترکِ اسلام کا مشورہ، تو دوسری جانب انتخابی مہم میں ’’برکت‘‘ کے لیے حسینہ واجد نے طریقت محاذ کے دو ’’مولویوں‘‘ کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والی 31 ’’اسلامی پارٹیوں‘‘ نے عوامی لیگ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
حکومت جماعت اسلامی کے معاملے میں اس قدر حساس ہے کہ سرکاری اہلکاروں کے بیانات پر بھی حسینہ واجد جھلاّ اٹھتی ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی انسدادِ رشوت ستانی کمیشن (Anti- Corruption Commission) بنگلہ دیش کے سربراہ اقبال محمود نے ایک پریس کانفرنس میں عوام سے درخواست کی کہ آئندہ انتخابات میں رشوت خوروں، بے ایمانوں، ٹیکس چوروں اور ملکی خزانہ ہڑپ کرنے والوں کو ووٹ نہ دیا جائے۔ اس دوران وہ یہ بھی کہہ گئے کہ ACC اور حکومتی ادارے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نباہ رہے ہیں لیکن اگر عوام دیانت دار قیادت منتخب کریں تو ہمارا کام آسان ہوجائے گا۔ عوامی لیگ کے ترجمان نے الزام لگایاکہ اقبال محمود نے دیانت دار کہہ کر دراصل جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کی سفارش کی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ محمود صاحب کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ عوام پاکستان کے حامیوں اور جنگِ آزادی میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو ووٹ نہ دیں۔ اس طرح بات غیر مبہم اور واضح ہوجاتی۔
جماعت اسلامی کے خلاف مہم میں خود چیف الیکشن کمشنر نورالہدیٰ پیش پیش ہیں۔ موصوف ایسٹ پاکستان رائفلز میں ایک جونیئر افسر تھے جو 1971ء کے فوجی آپریشن کے بعد پتواکھالی سے فرار ہوکر ہندوستان چلے گئے، جہاں انھوں نے مکتی باہنی میں شامل ہوکر فوجی تربیت حاصل کی۔ پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد موصوف پتواکھالی واپس آئے اور البدر کے سینکڑوں کارکنوں کو بدترین تشدد کرکے تہِ تیغ کیا۔ ان ساری صفات کے ساتھ یہ حضرت رشوت خور بھی ہیں، اتفاق سے انھیں بدعنوانی کے الزام میں ضلع فرید پور کی ڈپٹی کمشنری سے اُس وقت نکالا گیا جب بنگلہ دیش میں BNP اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت تھی، اس لیے اُن کی جماعت سے نفرت دوچند ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات کہ عوامی لیگ نے اُن کے سگے بھانجے شہزادہ سجوکو پتواکھالی کے حلقہ 3 سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہاں سے غلام مولیٰ رونی BNPکے امیدوار ہیں۔ غلام مولیٰ جماعت اسلامی کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے ممتاز عالم دین اور سابق نائب امیر مولانا دلاور حسین سعیدی سے اچھے مراسم تھے۔ مولانا سعیدی باریسال کے ضلع فیروزپور سے ایک بار قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ آج کل مولانا ’جنگی جرائم‘ کے الزام میں عمر قید بھگت رہے ہیں۔ فیروزپور کی اس نشست پر جماعت اسلامی نے ان کے صاحبزادے شمیم سعیدی کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ شہزادہ سجو کا دعویٰ ہے کہ غلام مولیٰ مولانا دلاور حسین سعیدی کے رشتے دار ہیں لہٰذا ان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ غلام مولیٰ کے گھر کے سامنے کئی بار اشتعال انگیز مظاہرے بھی ہوچکے ہیں۔ حزب اختلاف کی جانب سے اعتراض کے باوجود چیف الیکشن کمشنر بہت دھڑلے سے اپنے بھانجے کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے حکم پر وفادار پولیس افسران کو ضلع میں تعینات کیا گیا ہے۔
حزبِ اختلاف کے تقریباً تمام امیدواروں کے خلاف نقضِ امن اور ’متوقع‘ تخریب کاری کے الزام میں پرچے کاٹ لیے گئے ہیں۔ قیادت کی ہدایت پر اوکو فرنٹ کے تمام امیدواروں اور سرگرم کارکنوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ضمانت قبل ازگرفتاری کروالی ہے، لیکن حسینہ واجد بھی اتنی بھولی نہیں۔ جن لوگوں کو گرفتار کرنا مطلوب ہو اُن کو پکڑنے کے لیے آنے والی پولیس پارٹیوں کے ساتھ موجود مجسٹریٹ ضمانت قبل ازگرفتاری کو موقع پر ہی منسوخ کردیتے ہیں۔ کسی مطلوبہ امیدوار یا رہنما کے خلاف اگر پہلے سے کوئی مقدمہ نہ ہو تو اسے ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیا جاتا ہے اور اس دوران ’’مناسب‘‘ مقدمہ بناکر FIR کٹتی ہے، جس کے بعد حفاظتی تحویل گرفتاری میں تبدیل کردی جاتی ہے۔ چند روز پہلے BNP کے مرکزی رہنما اور غازی پور حلقہ 5 کے امیدوار فضل الحق ملن کو جلسہ گاہ کی طرف آتے ہوئے یہ کہہ کر ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں لیاگیا کہ جلسے کی جگہ پر ہنگامہ ہورہا ہے۔ بعد میں انھیں نقضِ امن کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔
جلسوں میں ہنگامے کے ساتھ بند کمروں میں تنظیمی اجلاس کرنا بھی مشکل ہے۔ 13 دسمبر کو چاٹگام میں BNPکے رہنما عبدالمعبود کی حویلی میں ڈویژنل انتخابی کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا کہ پہلے عوامی لیگ کے کارکنوں نے حملہ کیا۔ بعد میں جھگڑا رفع کرانے کے لیے آنے والی پولیس پارٹی اجلاس میں شریک عبدالمعبود سمیت 90 رہنمائوں کو گرفتار کرکے لے گئی۔ ان لوگوں پر غیر قانونی اجتماع کا الزام ہے۔ چاٹگام حلقہ 15 سے جماعت اسلامی کے امیدوار اور سابق رکن اسمبلی پروفیسر شمس الاسلام نے جب تھانیدار سے پوچھا کہ گھر کی چہار دیواری کے اندر بیٹھے لوگوں کے خلاف غیر قانونی اجتماع کا پرچہ کیسے کاٹا جاسکتا ہے؟ تو انھیں بتایا گیا کہ ان سب لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں بند کیا گیا ہے اور 90 دن تک گرفتاری کی وجہ بتانے یا قیدیوں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
ویسے تو سارے بنگلہ دیش میں گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے، لیکن رنگپور، کھلنا اور ڈھاکہ ڈویژنوں میں صورت حال بے حد خراب ہے۔ قومی اسمبلی کی نصف سے زیادہ نشستیں ان تین ڈویژنوں میں ہیں، اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یہاں حزبِ اختلاف کو عوامی لیگ پر واضح برتری حاصل ہے۔ ڈھاکہ کے حلقہ 15 سے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمان اوکو فرنٹ کے امیدوار ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کچہری جانے والے تمام مرکزی رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا جن میں ڈھاکہ شہر کے نائب امیر منظورالاسلام، علاقہ موتی جھیل کے امیر کمال حسین، ضلع مہرپور کے امیر مولانا تاج الدین خان شامل ہیں۔ دوسرے دن اسلامی چھاترو شبر ڈھاکہ کے 25 رہنمائوں کو دھر لیا گیا۔ ان سب کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے ہیں تاکہ ان لوگوں کی ضمانت نہ ہوسکے۔ اوکو فرنٹ کا کہنا ہے کہ ہر روز سارے ملک سے اوسطاً 1500 کارکن گرفتار ہورہے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے علاوہ بے شمار کارکنوں کو عوامی چھاترو لیگ کے کارکن اغوا کرکے لے گئے ہیں۔ ڈاکٹر کمال حسین کا خیال ہے کہ اب تک ڈیڑھ لاکھ کارکن گرفتار کیے جاچکے ہیں، اور چونکہ زیادہ تر کو دہشت گردی اور تحفظ امن عامہ آرڈی نینس کے تحت پکڑا گیا ہے اس لیے ان کی گرفتاری انتخابات کے بعد ظاہر کی جائے گی۔ اس حکمت عملی سے حکومت کو دو فائدے ہیں، ایک تو یہ گرفتاری ظاہر کرنے پر حکومت کی بدنامی ہے، تو دوسری طرف غائب ہونے والے کارکنو ں کے اہل وعیال اور پارٹی کے رہنما انتخابی مہم چھوڑ کر ان کی تلاش اور بازیابی میں مصروف رہیں گے۔
گرفتاریوں کے ساتھ جاتیو اوکو فرنٹ کے انتخابی جلسوں پر حملے بھی جاری ہیں۔ اب تک فرنٹ کو ڈھاکہ، چاٹگام، نرائن گنج، کومیلا، غازی پور، چاندپور، راجشاہی اور کھلنا میں جلسہ عام نہیں کرنے دیا گیا، بلکہ جب BNPکے مرکزی آرگنائزنگ سیکریٹری روح القدوس تعلقدار پریس کانفرنس میں انتخابی جلسوں کے پروگرام کا اعلان کرنے ڈھاکہ پریس کلب پہنچے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ BNPکی خواتین امیدواروں سے بھی کسی قسم کی رعایت نہیں کی جارہی۔گزشتہ ہفتے جب ڈھاکہ کے حلقہ 9 سے اوکوفرنٹ کی امیدوار محترمہ افروزہ عباس انتخابی ریلی سے خطاب کرنے آئیں تو پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا، دوسری طرف عوامی چھاترو لیگ کی ڈنڈا بردار فوج نے حاضرین کو منتشر کردیا۔ افروزہ صاحبہ کو رات گئے ان کے گھر پر چھوڑ دیا گیا۔
جلسوں پر غیر اعلانیہ پابندی کے ساتھ پمفلٹ کی تقسیم اور پوسٹر چسپاں کرنا بھی قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دے دیا گیا ہے۔ ڈھاکہ میں انتخابی پوسٹر چسپاں کرتے ہوئے اوکو فرنٹ کے سینکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے، اور جن امیدواروں کے پوسٹر لگائے جارہے تھے اُن کے خلاف نقضِِ امن اور نجی جائداد کو نقصان پہنچانے کے الزام میں مقدمے بنادیے گئے ہیں۔ ڈھاکہ، کھلنا اور رنگپور میں جماعت اسلامی کے انتخابی دفاتر پر چھاپہ مار کر بینروں، پوسٹروں اور لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ پر قبضہ کرلیا گیا۔ حکومت کے پریس اینڈ پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ملک کے تمام مطابع (پرنٹنگ پریس) کو ہدایت کی گئی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدواروں کے انتخابی پمفلٹ اور پوسٹر نہ شائع کیے جائیں۔
14 دسمبر کو اوکو فرنٹ کے بزرگ رہنما ڈاکٹر کمال حسین بھی حملے کا نشانہ بنے۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار بنگلہ دیش کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ کٹر سیکولر اور دین بیزار کمال حسین بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون اور موجودہ سیکولر دستور کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر کمال حسین شیخ مجیب کے گہرے دوست تھے اسی بنا پر حسینہ واجد ان کو انکل کہتی ہیں۔ جمعہ کے دن ڈاکٹر صاحب بنگلہ دیش کے شہید دانش وروں کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھاکر واپس آرہے تھے کہ میرپور کے قریب عوامی لیگ کے امیدوار اسلم الحق کی قیادت میں عوامی چھاترو لیگ کے کارکنوں نے ڈنڈوں، چھروں اور سلاخوں سے قافلے پر حملہ کردیا۔ ڈاکٹر کمال حسین اس حملے میں محفوظ رہے لیکن اُن کی گاڑی سمیت 5 کاروں کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ پتھرائو سے 50 کارکنان زخمی ہوئے۔ شام کو پولیس نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں جماعت اسلامی اور BNPکے 150کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ اب جماعتی کارکنوں کے گھروں پر X کا سرخ نشان لگایا جارہا ہے جس سے کسی بڑی کارروائی کی تیاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے واقعے کی مذمت کے بجائے کہا کہ جب اوکو فرنٹ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث لوگوں کو انتخابات میں ٹکٹ دے گا تو عوام سے اسی ردعمل کی توقع ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اوکو فرنٹ نے مطیع الرحمان نظامی، علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری جیسے سزا یافتہ مجرموں کے رشتے داروں اور دوستوں کو ٹکٹ دیے ہیں جس پر عوام اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں تو انکل (ڈاکٹر کمال حسین) کے احترام میں خاموش ہوں لیکن عام لوگ چپ نہیں رہ سکتے۔
حملے کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر کمال حسین نے کہا کہ حکومت کا رویہ غیر متوقع نہیں لیکن ہمیں الیکشن کمیشن کی بے بسی پر شدید تشویش ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نورالہدیٰ خود بھی دھان منڈی (حسینہ واجد کی رہائش گاہ) سے ہدایت حاصل کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مایوس کن حالات کے باوجود اوکو فرنٹ انتخابی میدان خالی نہیں چھوڑے گا اور غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ ڈاکٹر کمال حسین جہاندیدہ سیاست دان ہیں اور ان کے اعتماد کی یقیناً کوئی ٹھوس وجہ ہوگی، لیکن بنگلہ دیش کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ جس بڑے پیمانے پر اوکو فرنٹ کے کارکن پکڑے جارہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ انتخابات کے دن انھیں پولنگ ایجنٹ بھی میسر نہیں ہوں گے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل امن و امان اور انتخابی انتظامات فوج سنبھال لے گی۔ اوکو فرنٹ سمجھتا ہے کہ فوج بھی حسینہ واجد کی سکھا شاہی سے تنگ ہے اور بہت ممکن ہے کہ وردی والے کچھ اور نہیں تو کم ازکم شفاف انتخابات ہی کروا دیں۔ خالدہ ضیا کا دعویٰ ہے کہ منصفانہ انتخابات کی صورت میں حسینہ واجد گوپال کی آبائی نشست پر بھی بری طرح شکست کھاجائیں گی۔ رائے عامہ کے جائزے خالدہ ضیا صاحبہ کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتے اور سیانوں کا خیال ہے کہ مقابلہ گھمسان کا ہے اور غیر جانب دارانہ انتخابات کی صورت میں بھی عوامی لیگ معمولی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ جماعت اسلامی کے ارکان کو کسی بھی نشست پر جیتنے نہیں دیا جائے گا کہ بھارت کی کھینچی سرخ لکیر کو عبور کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔