افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان متحدہ عرب امارات میں جاری مذاکراتی عمل کو فریقین نے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے، جسے سیاسی مبصرین دونوں جانب مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے پائی جانے والی لچک کا عملی مظاہرہ قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ابوظہبی میں ہونے والے ان تین روزہ مذاکرات میں امریکی حکام اور افغان طالبان کے علاوہ افغان حکومت، پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے حصہ لے رہے ہیں۔ مذاکرات میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کی جارہی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذاکرات کے بارے میں ٹویٹر پر جاری کیے گئے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ طالبان نمائندوں کی پیر کو امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کے علاوہ سعودی، پاکستانی اور اماراتی حکام سے بات چیت ہوئی ہے۔ طالبان ترجمان کے مطابق مذاکرات میں افغانستان میں قیام امن اور تعمیرنو، قابض افواج کے افغانستان سے انخلا، اور امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی ظالمانہ کارروائیاں روکنے کے بارے میں بات ہوئی۔ رائٹرز کے مطابق فریقین نے مذاکرات میں افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کے مستقبل کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے۔ افغان طالبان کے ذرائع نے بتایا کہ امریکی وفد طالبان پر چھے ماہ کے لیے جنگ بندی اور مستقبل میں افغانستان کی ممکنہ نگران حکومت میں اپنے نمائندے نامزد کرنے پر زور دے رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ آئندہ برس افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے ابوظہبی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے اہتمام میں معاونت کی، قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان سے جو بھی بن پڑا، وہ کریں گے۔ آئیے دستِ دعا بلند کریں کہ امن لوٹ آئے اور افغان عوام پر تقریباً تین دہائیوں سے پڑنے والی آزمائش تمام ہو۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے مطالبات ماننے کے لیے پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی ضمانت مانگی ہے، اور امریکہ سے افغانستان میں عبوری حکومت بنواکر طالبان کا حمایت یافتہ سربراہ لگانے کا بھی مطالبہ کیاہے۔ ذرائع کے مطابق ان جاری مذاکرات میں طالبان کی جانب سے سیاسی کمیشن اورکوئٹہ شوریٰ کے نمائندے شامل ہیں، جبکہ طالبان کا مؤقف ہے کہ اگر انہیں امریکہ کی طرف سے مطالبات ماننے کی ضمانت ملے تو وہ جنگ بندی پر غور کرسکتے ہیں۔ ابوظہبی میں ہونے والے ان تین روزہ مذاکرات میں امریکہ نے طالبان کی جانب سے کم از کم چھے ماہ کی جنگ بندی پر زور دیا ہے، تاہم دونوں کے درمیان ایک ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کا امکان ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق امریکہ کی کوشش ہے کہ افغان طالبان6 ماہ طویل جنگ بندی پر آمادہ ہوجائیں اور اس کے بعد مستقبل کی قومی افغان حکومت میں طالبان کی شمولیت پر بات کی جائے تاکہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی راہ ہموار ہو، تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان طالبان جن کا افغانستان کے بڑے حصے پر کنٹرول ہے، ایک طویل سیزفائر سمجھوتے پر آمادہ نظر نہیں آتے، وہ ایک ماہ کے مختصر سیزفائر سمجھوتے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بات چیت کا آئندہ رائونڈ سعودی عرب میں متوقع ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بات چیت کے دوران افغان طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس سلسلے میں کوئی ڈیڈلائن، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنمائوں کی نقل وحرکت پر عائد پابندی اٹھانے جیسے اہم مطالبا ت شامل ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات سے فی الوقت کسی بڑے اور فوری بریک تھرو کی امید رکھنا قبل ازوقت ہوگا، تاہم اس بات چیت کا شروع ہونا خوش آئند ہے اور توقع ہے کہ فریقین آگے چل کر امن کی جانب ٹھوس پیش رفت کرسکیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابوظہبی میں طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات پاکستان کے تعاون سے ہوئے ہیں۔ مذاکرات میں امریکی وفدکی قیادت افغانستان کے لیے امریکی صدر کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد، جبکہ طالبان وفدکی قیادت مولوی محمد عباس استنکزئی نے کی۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے نمائندہ وفد نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذاکرات میں زیرغور آنے والی بات چیت اپنی شوریٰ کے سامنے رکھیں گے تاکہ مزید پیش رفت ہوسکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے بھی موجود تھے حالانکہ ان اطلاعات سے قبل سامنے آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ مذاکرات براہِ راست طالبان اور امریکہ کے درمیان ہورہے ہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ حالیہ مذاکرات سے قبل اگر ایک جانب طالبان افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکاری رہے ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت بھی مسلسل امریکہ سمیت ان تمام قوتوں کی ناقد رہی ہے جو طالبان سے براہِ راست یا پھر افغان حکومت کے بغیر مذاکرات کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور عالمی برادری افغانستان میں مفاہمت کے لیے پُرعزم ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت نے بھی امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کو پاکستانی تعاون کا پہلا عملی قدم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ براہِ راست مذاکرات کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ ان میں پاکستان باقاعدہ طور پر شریک نہیں ہے، البتہ دوسرے دور میں امریکہ اور طالبان کے ساتھ افغان حکومت کی شرکت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورۂ پاکستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر مشاورت کی گئی تھی، اور یہ حالیہ مذاکرات اسی مفاہمتی عمل کا تسلسل ہیں۔
دوسری جانب ابوظہبی میں طالبان امریکہ دوطرفہ مذاکرات کا حالیہ دور ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب اسی اثناء کابل کے صدارتی محل میں پاکستان، افغانستان اور چین کے سہ فریقی مذاکراتی عمل کا دوسرا دور اختتام کو پہنچا ہے۔ ان تین فریقی مذاکرات میں پاکستان، چین اور افغانستان نے انسداد دہشت گردی، اور سیکورٹی تعاون بڑھانے سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کردیئے ہیں۔ اس دستاویز پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے۔ افغان صدر اشرف غنی بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے موقع پر موجود تھے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے ہفتے کو کابل میں افغان اور پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین دونوں ملکوں کے دوست کی حیثیت سے افغانستان اور پاکستان میں مذاکرات کے ذریعے اعتماد سازی کے لیے کردار ادا کررہا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو قریب لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال افغانستان کی آزادی کو 100 سال ہوجائیں گے۔ اس موقع پر افغان عوام کو سب سے بہتر تحفہ امن کا دیا جا سکتا ہے۔ چینی وزیرخارجہ نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کی جاری کوششوں میں تعاون کریں اور مذاکرات کی میز پر آئیں۔ چینی وزیر خارجہ نے مزیدکہا کہ پشاور جلال آباد موٹروے، کوئٹہ قندھار ریلوے لائن کی تعمیر اور سرحدکے دونوں جانب صاف پانی کی فراہمی کے لیے بھی مدد کریںگے۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب کو یقین دلایا کہ پاکستان مختلف طالبان دھڑوں کو قریب لانے اور مذاکرات پر آمادہ کرنے میں مدد کرے گا۔ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ بہتر سرحدی انتظام اور معلومات کے تبادلے کے لیے ماحول سازگار بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مستقبل کی راہ ہموار کررہے ہیں، ہمیں مل کر دہشت گردی کو شکست دینی ہے، الزام تراشی کے بجائے ہم مسائل کے حل پر توجہ دیں، تینوں ممالک تجارت کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، آپس میں بہتر تعلقات کو وسعت دینے کے لیے تجارت بہترین ذریعہ ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ فورم پاکستان اور افغانستان کے درمیان پشاور کابل موٹر وے اور کوئٹہ قندھار ریلوے لائن بنانے اور اسے سہ فریقی تجارت کے پیش نظر چین سے منسلک کرنے جیسے بڑے منصوبوں کے ذریعے باہمی روابط کو مستحکم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سی پیک سے فائدہ اٹھائے۔ اس موقع پر افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کابل آمد پر چینی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے سے خطے میں ترقی ہوگی اور سیکورٹی تعاون بڑھانے سے مسائل حل ہوں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا مزید تعاون درکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی ضروری ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا اہم کردار ہے۔ مذاکرات کا مقصد تعلقات کی نئی راہوں کا تعین کرنا ہے۔ افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سراہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مذہب، ثقافت اور دیگر معاملات مشترکہ ہیں اور افغانستان پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے۔
ہفتے کو کابل کے قصرچار چنار میں ہونے والے مذاکرات میں تینوں ملکوں کے اعلیٰ حکام نے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں سیاسی معاونت کی ضرورت پر گفتگو کی۔ اس موقع پر تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے انسدادِ دہشت گردی اور سیکورٹی امور میں تعاون سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے۔ مذاکرات میں افغانستان کی ترقی کے لیے پاکستان اور چین کی جانب سے مختلف شعبوں میں تکنیکی معاونت کی فراہمی سے متعلق امور بھی زیربحث آئے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق ان مذاکرات کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔ اس سے قبل اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کے وزیرخارجہ نے افغانستان میں مقید پاکستانیوں کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا برآمدی شراکت دار ہے۔ پاکستان، چین اور افغانستان کی معیشت آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغان وزیر خارجہ سے کہتا ہوں کہ وہ پاکستان میں وفد بھیجیں اور دیکھیں کہ سی پیک ان کے لیے کتنا مفید ہے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کی طرف سے افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کو دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں عوام کے درمیان فاصلے ختم کرنے اور اعتماد میں کمی کے خاتمے کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے تعاون سے کابل اور لوگر میں تعمیر ہونے والے اسپتالوں کا افتتاح جلد کیا جائے گا۔
دریں اثناء پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر قلعوں کی تعمیر اور باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاک افغان بارڈر پر2611کلومیٹر طویل باڑ لگائی جائے گی جس کے پہلے مرحلے میں 1200 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے جس میں سے 802 کلومیٹر علاقے پر باڑ لگانے اور 843 میں سے 233 قلعوں پر کام مکمل ہوگیا ہے، باڑ لگانے کا عمل دونوں طرف کے عوام کے مفاد میں ہے جس سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ترجیحی بنیادوں پر ایریا ون پر کام مکمل ہوچکا ہے، پاک افغان بارڈر پر 2611کلومیٹر طویل باڑ پر کام دسمبر 2019ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مختلف فورمز اور سطحوں پر جاری پیش رفت، نیز افغانستان سے امریکہ سمیت خطے کے اکثر ممالک کے وابستہ مفادات کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہوگا جو اِن دنوں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ماسکو اور بیجنگ سے لے کر کابل، اسلام آباد اور دوحہ تک مختلف اقدامات اور رابطوں کی شکل میں نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں چونکہ بظاہر اصل کھلاڑی طالبان اور امریکہ ہیں، اور دوسری جانب ان دونوں قوتوں کے درمیان جاری کشمکش کا براہِ راست اثر پاکستان اور چین پر پڑ رہا ہے، اس لیے اس صورت حال پر نہ صرف گہری نظر رکھنا ان دونوں ممالک کی مجبوری ہے، بلکہ انہیں طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات اور کسی ممکنہ ڈیل کی صورت میں بھی تمام حالات اور صورت حال کو اپنے اپنے قومی اور علاقائی مفادات کے تناظر میں دیکھنا ازبس ضروری ہے، شاید یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اگر ایک جانب چین کے توسط سے افغان قضیہ حل کروانے کا متمنی ہے، وہیں دوسری جانب وہ پاک افغان بارڈر کے استحکام اور اسے محفوظ بنانے کے ذریعے بھی جہاں دنیا کو افغانستان کے امن وسلامتی میں دلچسپی کا پیغام دینا چاہتا ہے وہیں وہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا خواہش مند ہے۔ اسی طرح امریکہ طالبان امن مذاکرات میں تعاون اور خطے کی اقتصادی ترقی میں چین کی سرمایہ کاری کے لیے افغانستان میں قیام امن کی بنیادی ضرورت کی منزل کے حصول میں بھی پاکستان غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کا عملی ثبوت جہاں ابوظہبی میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کا فعال کردارہے، وہیں کابل میں پاکستان،چین اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر ہونے والے دستخط بھی دراصل اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جسے یقیناً پاکستان کے ایک کڑے امتحان سے تعبیرکیاجاسکتا ہے۔