زندگی کے چند خوشگوار لمحات جو مچھ جیل کی نذر ہوگئے!۔
گزشتہ سے پیوستہ
کوئی آٹھ دس دن ان ساتھیوں کے ساتھ رہا، اس کے بعد ایک دن ضیاء الدین ضیائی جیل آئے، وہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کا آرڈر ساتھ لائے تھے۔ مجھے جیل سپرنٹنڈنٹ نے بلایا اور ضیاء الدین ضیائی سے ملاقات کرائی۔ انہیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ اُن دنوں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن برکی تھے، ان کا تعلق جنرل برکی سے تھا، شاید ان کے بیٹے تھے۔ بعد میں وہ پنجاب کے سیکرٹری بنے۔ آرڈر کے بعد اپنے احاطے میں آیا، زندان کے تمام ساتھیوں سے گلے ملا اور ان سے اجازت لی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور سب نے مل کر نعرہ لگایا ’’شادیزئی زندہ باد‘‘۔ اس کے بعد آدم خان کے ہمراہ بی کلاس کے احاطے میں داخل ہوا۔ اس احاطے میں ایک قطار میں بی کلاس کے 5یا 6 کمرے تھے اور اس کے ساتھ کمروں سے کچھ اونچائی پر ایک اور احاطہ تھا، یہ بھی بی کلاس کا حصہ تھا، یا شاید وی آئی پی شخصیات کے لیے مختص تھا۔ اس حصے میں ایک کمرہ تھا اور اس کا ایک خوبصورت لان تھا، درخت تھے، چنبیلی کی بیلیں تھیں، گلاب کے پودے بھی تھے۔ علیحدہ واش روم تھا۔ بہت ہی خوبصورت ماحول تھا۔ کچھ دیر بعد سید حسام الدین بھی آگئے، ان کو بھی میرے کمرے میں ہی رکھا گیا۔ اس بی کلاس میں بعض انتہائی اہم شخصیات قید تھیں۔ اس حصے میں داخل ہونے کے بعد ان سے تعارف ہوا۔ ان میں تین افراد ایسے تھے جن سے مل کر میں حیران ہوگیا اور کچھ دیر تک اُن کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان میں دو بھائی تھے اور ایک اسکول ٹیچر تھا جس کا نام رمضان تھا۔ یہ تینوں سیاسی قیدی نہ تھے۔ ان تینوں کا تعلق مگسی قبیلے سے تھا۔ رمضان کا تعلق بی ایس او سے تھا۔ کچھ دن بعد دو قیدی اور لائے گئے، ان کا تعلق خضدار سے تھا۔ یہ دونوں بھائی تھے۔ چھوٹے بھائی کا نام عبدالخالق احمد زئی اور بڑے بھائی کا نام عبدالظاہر احمد زئی تھا۔ عبدالظاہر 1985ء سے 5 مئی 1988ء تک ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہے۔ نیپ سے تعلق تھا۔ اس احاطے سے ہٹ کر ایک اور احاطہ تھا۔ اس احاطے میں بھی ایک اہم شخص بند تھا جو ایک اہم اور مشہور شخصیت عبدالصاقق کاسی کا قاتل تھا۔ عبدالصادق پشتو زبان کے شعلہ بیان مقرر تھے، اُنہوں نے کوئٹہ کے ایک احتجاجی جلسے میں کھل کر کہا ’’بھٹو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
ضیاء الدین ضیائی (مرحوم)، مرزا رشید بیگ اور مَیں بھٹو کی حلف برداری میں شریک ہونے کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔ ہم نے پنڈی کے ایک گرائونڈ میں بھٹو کی تقریر سنی، اس میں طارق عزیز کمپیئرنگ کررہے تھے۔ بڑی خوبصورت کمپیئرنگ تھی اور جملے بڑے نپے تلے استعمال کررہے تھے۔ معراج محمد خان نے بھی خطاب کیا۔ یہ1972ء کی بات ہے۔ ہم جلسے سے نکلے تو ہمارے ایک دوست نے جو اُس وقت اسلام آباد ائرپورٹ پر ملازم تھا، بتایا کہ عبدالصادق کاسی کو کوئٹہ میں قتل کردیا گیا ہے۔ صادق کاسی کے قتل کا پس منظر بڑا دلچسپ ہے۔ بلوچستان کے بعض سیاسی قیدیوں پر ایف سی آر کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔ بلوچستان میں انگریزوں کے دور کا جرگہ سسٹم نافذ تھا۔ کوئٹہ جیل کے احاطے میں عبدالصمد خان پر مقدمہ چلایا جارہا تھا اور جرگہ کوئٹہ جیل کے دروازے کے سامنے کرسیاں لگا کر ہورہا تھا۔ جرگہ کے صدر غلام نبی بلوچ تھے۔ یہ جرگہ کئی دنوں سے سماعت کررہا تھا اور جرگہ میں لوگوں کو کارروائی سننے کی اجازت تھی۔ کالج کے ایک نوجوان شیر محمد کاسی نے جرگہ کی کارروائی کے دوران اپنی جیب سے پستول نکالا اور غلام نبی بلوچ پر فائر کیے، اور وہ جرگہ کی کرسی پر ہی دم توڑ گئے۔ پولیس نے شیر محمد کاسی کو گرفتار کرلیا اور اسے عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اب مجھے صادق کاسی کے قاتل کا نام یاد نہیں رہا۔ اس سے بھی ملاقات اسی احاطہ میں ہوئی۔ وہ عصر سے کچھ پہلے آتا اور ہمارے ساتھ کبھی کبھی تاش کھیلتا تھا۔ ہم تمام قیدی اس حصے میں جمع ہوتے اور خوب گپ شپ ہوتی۔ سید حسام الدین نے ایک دن مجھ سے کہا کہ آپ صادق کاسی کے قاتل سے کیوں ملتے ہو؟ ان سے کہا: ہم سب قیدی ہیں۔ بعض دفعہ اُس کے احاطہ میں بھی جاتا تھا اور گپ شپ ہوتی، چائے پیتے اور خوب بحثیں ہوتیں۔ اور جب مجھے آدم خان نے کہا کہ بی کلاس کے قیدی کو ایک مشقتی ملے گا تو ان سے پوچھا کہ یہاں کوئی بنگالی قیدی ہے؟ اگر ہے تو اسے میرے احاطہ میں بھیج دو۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان بنگالی آگیا۔ اس سے کہا کہ آپ کو اس لیے یہاں لگایا ہے تاکہ شام تک آپ ہمارے ساتھ رہیں، اور آپ سے کوئی کام نہیں لوں گا، آپ ہمارے بھائی ہیں۔ اس سے پوچھا کہ یہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ بالکل نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہمارے تمام بنگالی ساتھی آپ سے ویسے ہی بہت خوش ہے کہ آپ نے مصیبت سے ہماری جان چھڑائی۔ اور تین مگسی قیدیوں سے ایک دن پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے؟ تو ان میں سے بڑے بھائی نے جب لب کشائی کی تو میں اسے حیرت سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ مگسی قبیلے کے ایک بہت بڑے نواب کا قاتل تھا۔ اور مقتول کون تھا؟ (جاری ہے)