گہراعظمی کی کتابوں کی تقریب پذیرائی

’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ اور’’خواہ مخواہ‘‘

۔17 کتابوں کے مصنف انصارالحق قریشی جو علمی و ادبی حلقوں میں گہراعظمی کے نام سے معروف ہیں، پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی و سندھ حکومت کی اجازت سے بحیثیت فنی مشیر کئی دہائیوں تک خدمات انجام دیتے رہے ہیں، کراچی کے صاف ستھرے اور دیانت دار افسران میں نمایاں حیثیت کے حامل رہے۔ حق گوئی اور اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ آج بھی انجام دے رہے ہیں۔ دینی ذوق گھٹی میں پٖڑا ہے، زود گو شاعر ہیں، چنانچہ سترہ میں سے تیرہ کتابیں حمد و نعت، تذکرہ انبیاء کرام ؑ، تذکرہ خلفاء راشدین ؓ سے متعلق ہیں۔ بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں اور مزید کام کررہے ہیں۔
’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ آپ کی خودنوشت سوانح حیات ہے، یہ عوام کے لیے بھی مفید ہے، جو بتاتی ہے کہ مشکل حالات اور ناموافق صورتِ حال میں کس طرح ثابت قدمی کے ساتھ اسی معاشرے میں زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ یہ پڑھنے والے کو یقین، حوصلہ، اعتماد کے ساتھ ایمان کی پختگی بھی دیتی ہے۔
’’خواہ مخواہ‘‘ اصلاحی اور طنز و مزاح پر مشتمل شعری مجموعہ ہے، جس میں سیاسی و سماجی حالات پر قطعات کی شکل میں تبصرہ موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس مجموعے میں حمد و نعت کے علاوہ 24 اصلاحی نظمیں، جس میں’’ نفسِ مطمئنہ‘‘ جیسی شاہکار نظم بھی شامل ہے، کا نام ’’خیر خواہ‘‘ کے بجائے ’’خواہ مخواہ‘‘ کیوں رکھا گیا۔
’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ اور ’’خواہ مخواہ‘‘ دونوں کتابوں کی تقریب پذیرائی گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی۔ حافظ محمد نعمان طاہر نے تلاوتِ کلام پاک اور نعتِ مبارکہ پیش فرمائی، شعیب ناصر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ابتدا میں طاہر سلطانی نے ’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ خودنوشت سوانح ہے۔ دوسرے حصے میں اہلِ قلم اصحاب کی آرا شامل ہیں جو انہوں نے گہر اعظی کی دیگر کتابوں کے بارے میں تحریر کی ہیں۔ تاجدار عادل نے کہا کہ انہوں نے جو بیان کیا ہے اس میں دانش مندی ہے، آپ نے زندگی راست بازی، جانفشانی سے گزارنے کا ہنر جان لیا ہے اور ایک ایک لمحے کو نعمت سمجھ کر گزارا ہے۔ انہوں نے اپنی سوانح میں سارے معاملات بیان کیے ہیں جو بڑی بات ہے۔ رضوان صدیقی نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب میں ہم’’باریش دولہا‘‘ کے باراتی ہیں۔ ان کی خودنوشت اس اعتبار سے اہم ہے کہ یہ ہمیں ماضی اور حال کی کہانی میں مستقبل گزارنے کا سبق دیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری تہذیب کیسی تھی، ان کا حافظہ بھی کمال کا ہے۔ انہیں شروع سے ہی دین کی طرف رغبت رہی ہے۔ ایک امتی کو کیسا ہونا چاہیے، یہ رول ماڈل ہیں۔
آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے برجستہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کسی سے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، یہ اپنے دفتر میں صبح آتے تھے، جبکہ ان کا چپراسی11بجے دن کو۔ میں نے ان کو ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھا ہے، اور جیسا دیکھا ہے یہ آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ایس ایم معین قریشی کا تجزیہ تھا کہ یہ ایک ہومیو پیتھک سوانح عمری ہے جو اپنی تاثیر میں ’’بہشتی زیور‘‘ لگتی ہے۔ انہوں نے دفاتر کی کارکردگی کو بھی اصل روپ میں پیش کیا ہے۔ دوست محمد فیضی نے کہا کہ میں نے ان کی سوانح حیات دو دفعہ پڑھی ہے۔ اپنے بارے میں سچ لکھنا بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا۔ ان کے ہاں ناامیدی نہیں، امید ہے۔
اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مصنف گہر اعظمی نے اپنی زندگی کے کئی یادگار واقعات سنائے، اور منظوم کتاب’’خواہ مخواہ‘‘ سے کئی نظمیں سنا کر حاضرین سے داد وصول کی۔
صدرِ محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ انہوں نے اپنی روایت اور تہذیب نئی نسل کو منتقل کی ہے، یہ بہت قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کو اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ انہوں نے خود کو جانا اور اسے مکمل سچائی کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ دنیا میں کیسے رہا جا سکتا ہے، اور سبق دیا کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہے مگر اس میں مبتلا نہیں ہونا ہے۔ انہوں نے ’’خواہ مخواہ‘‘ میں شامل نظم’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کو اعلیٰ درجے کی اصلاحی نظم قرار دیا۔
تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ دانش کے ساتھ بک ایمبیسیڈر سلطان خلیل، اقبال لطیف، شاہد محی الدین، بشیر سدوزئی، فرحت اللہ قریشی، وقار زیدی، سخاوت علی جوہر اور شکیل احمد خان نے بھی شرکت کی۔